انڈیا الیکشن: کیا اتحادی حکومت ’دبنگ‘ مودی کے سیاسی مزاج میں تبدیلی لا پائے گی؟

کیا نریندر مودی اپنے جابرانہ انداز کو چھوڑ کر مختلف علاقائی اتحادیوں کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں؟ اور کیا وہ اپنی پارٹی اور ایک دوستانہ میڈیا کی جانب سے ان کی شخصیت کو دیے گئے بڑھاوے کو روکتے ہوئے شائستہ سیاسی مزاج والی ساکھ اپنا سکیں گے؟
مودی
Getty Images

انڈیا میں مخلوط حکومت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلائے جانے والے ملک میں پہلے بھی ایسا ہوا ہے کہ کبھی چھ اور کبھی ایک درجن سیاسی جماعتوں نے مل کر حکومت تشکیل دی۔

سنہ 1989 سے 2004 تک ہونے والے چھ عام انتخابات میں کسی ایک جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہو سکی۔ ان میں سے کچھ اتحاد خاص طور پر افراتفری کا شکار رہے۔ سنہ 1989 اور 1999 کے درمیان مخلوط حکومتیں بنیں لیکن جلد ہی ٹوٹ بھی گئیں۔

لیکن انڈیا کی کچھ اہم ترین معاشی اصلاحات اور بلند ترین شرح نمو کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دونوں کی قیادت میں قائم ہونے والی مخلوط حکومتوں کے دوران دیکھنے میں آئی۔

سنہ 2014 کے بعد انڈیا میں پہلی مرتبہ ایسا ہونے جا رہا ہے کہ ملک میں ایسی مخلوط حکومت بنی ہے جس میں کسی بھی ایک سیاسی جماعت کو واضٰح اکثریت حاصل نہیں ہے۔

بی جے پی کے رہنما نریندر مودی تیسری مدت کے لیے وزیرِ اعظم بن کر سامنے آچُکے ہیں۔ ان کی اکثریت اپوزیشن کی جماعتوں کے دوبارہ ابھر کر آنے سے کمہو گئی ہے اور اب وہ پارلیمانی اکثریت کے لیے بنیادی طور پر اپنے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے ) میں دو اتحادیوں پر منحصر ہیں۔

لیکن کیا مودی جنھوں نے ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ اور انڈیا کے وزیر اعظم کی حیثیت سے ہمیشہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی اور ایک دہائی تک سیاست میں غالب رہے کیا اب اتحادی حکومت چلا سکیں گے؟

کیا وہ اپنے جابرانہ انداز کو چھوڑ کر مختلف علاقائی اتحادیوں کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں؟ اور کیا وہ اپنی پارٹی اور ایک دوستانہ میڈیا کی جانب سے ان کی شخصیت کو دیے گئے بڑھاوے کو ایک جانب رکھتے ہوئے شائستہ انداز اور ساکھ اپنا سکیں گے؟

بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ مودی کے لیے اتحادی حکومت چلانا آسان نہیں ہوگا۔ مودی جن دو اتحادیوں پر سب سے زیادہ انحصار کرتے ہیں وہ دو علاقائی جماعتیں جنتا دل یونائیٹڈ اور تلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) ہیں۔

دونوں کے پاس مجموعی طور پر 28 نشستیں ہیں۔ ان دونوں کی قیادت بالترتیب تجربہ کار، ذہین رہنما نتیش کمار اور این چندرا بابو نائیڈو کر رہے ہیں۔ جو پہلے بی جے پی کی زیرِ قیادت وفاقی مخلوط حکومتوں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ تاہم انھوں نے حکمراں پارٹی کے ساتھ اختلافات خصوصاً مودی کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

سنہ 2019 میں آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے نائیڈو نے اپنے سیاسی حریف نریندر مودی کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا تھا۔

سیاست میں عجیب و غریب اتحاد بنتے ہیں اور انڈیا کے لیے بھی یہ کوئی اجنبی یا نئی صورتحال نہیں ہے۔

صرف دو یا تین اتحادیوں پر منحصر مخلوط حکومتوں کے ناکام ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے خاص طور پر اگر ایک بھی حمایت واپس لے لیتا ہے۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مودی کی قیادت میں مخلوط حکومت ایک صحت مند اور مستحکم جمہوریت کے قیام میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے وزیر اعظم کا غلبہ کم ہو سکتا ہے، گورننس کو مرکز سے ہٹایا جا سکتا ہے، چیک اینڈ بیلنس میں اضافہ ہو سکتا ہے، حزب اختلاف کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے اور بیوروکریسی، عدلیہ اور میڈیا جیسے ادارے زیادہ آزاد ہو سکتے ہیں۔

اٹل بہاری واجپائی نے 1998 سے 2004 تک کامیاب کثیر جماعتی مخلوط حکومت چلائی تھی۔ انھوں نے سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کی، غیر ملکی سرمایہ کاری کی سہولت فراہم کی، ایکسپریس وے تعمیر کیے، تجارتی رکاوٹوں کو دور کیا اور یہاں تک کہ آئی ٹی انقلاب کو بھی تقویت دی۔

انھوں نے جوہری تجربات پر دہائیوں سے عائد پابندی ختم کی، پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو کم کیا اور امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے۔

ان میں سے زیادہ معاملات واجپائی کی اتفاق رائے کے ساتھ چلنے والے طرز حکومت کی وجہ سے ممکن ہوئے۔

لیکن مودی کا اتحاد ماضی کے اتحاد سے بہت مختلف ہے۔

اگرچہ بی جے پی اکثریتی حکومت کے لیے درکار 272 نشستیں حاصل نہیں کر پائی تاہم اب بھی وہ 240 نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ایک بااثر اور غالب اتحادی رہنما ہیں۔ اور ماضی میں کامیاب اقلیتی حکومتیں اس سے بھی کم نشستوں کے ساتھ چلائی گئی ہیں۔

کانگریس 1991 میں 232 نشستوں کے ساتھ ایک کامیاب اقلیتی حکومت چلانے میں کامیاب رہی اور 2004 اور 2009 میں صرف 145 اور 206 نشستوں کے ساتھ حکومتیں بنائی گئیں۔

یہ بھی پڑھیے

نریندر مودی ایک جارحانہ اور تشکیل نو والی بی جے پی کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کے قریبی ساتھی امت شاہ نے اعلیٰ قیادت کو ایک نئی تعریف دے دی ہے جو بقول کانگریس لیڈر ششی تھرور ’میرے ساتھ چلو ورنہ اپنی راہ لو‘ والا طرز حکمرانی قرار دیتے ہیں۔

ماضی میں بی جے پی کی قیادت میں مخلوط حکومتوں نے اتحادیوں کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے پارٹی کے اہم نظریات کو پس پشت ڈال دیا تھا۔

پارٹی کا زیادہ تر ایجنڈا کشمیر کی خودمختاری کو ختم کرنا اور رام مندر کی تعمیر ہے جسے مودی کی قیادت میں پہلے ہی حاصل کرلیا گیا ہے۔ کیا اب ان کے اتحادی ان پر زور دیں گے کہ وہ اپنی تفرقہ انگیز بیان بازی کو کم کریں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف، جسے انھوں نے انتخابی مہم کے دوران آزادانہ طور پر استعمال کیا تھا؟

مؤثر مخلوط سیاست میں ایک بلاک کے طور پر کام کرنا اور چیک اینڈ بیلنس ہونا لازمی ہے۔

اب اہم سوال یہ ہے کہ اتحادی اور بی جے پی کن بڑے معاملات پر متفق ہوسکتے ہیں۔ نریندر مودی کی پارٹی ایک ساتھ وفاقی اور ریاستی انتخابات کرانے کے متنازع منصوبے پر زور دے رہی ہے، جسے انڈیا نے 1967 میں ترک کر دیا تھا۔

ان کی پارٹی نے یکساں سول کوڈ یا یو سی سی کا بھی وعدہ کیا ہے جو مذہب، جنس اور جنسی رجحان سے قطع نظر تمام شہریوں کے لیے ایک واحد پرسنل لا ہے۔

ماضی میں ملک کے ہندو اکثریت اور اقلیتی مسلمانوں دونوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔

مودی
Getty Images
اگرچہ بی جے پی اکثریتی حکومت کے لیے درکار 272 نشستیں حاصل نہیں کر پائی تاہم اب بھی وہ 240 نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ایک بااثر اور غالب اتحادی رہنما ہیں

پھر 2026 کے بعد پارلیمانی سرحدوں کی از سر نو تشکیل کا حساس مسئلہ ہے۔

دولت مند اور کم آبادی والی جنوبی ریاستوں کو خدشہ ہے کہ مودی پارلیمنٹ میں توسیع کرتے ہوئے غریب اور زیادہ آبادی اور ہندی بول چال والے علاقوں میں نشستیں بڑھائیں گے جو بی جے پی کا روایتی گڑھ ہے۔

نریندر مودی کو اتحادیوں کے علاقائی اور ریاستی مطالبات کو بھی سننا ہوگا اور ان کے رہنماؤں کے عزائم کو پورا کرنا ہوگا۔

ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو دونوں نے اپنی ریاستوں کے لیے خصوصی درجے کا مطالبہ کیا ہے جس کا مطلب زیادہ وفاقی فنڈز کا حصول ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اتحادیوں کی نظریں بااثر وزارتوں پر بھی ہیں۔

سرکاری خرچ سے ہونے والی معیشت کی بحالی کے باوجود نریندر مودی کو مزید ملازمتیں کے مواقع پیدا کرنے اور غریب اور متوسط طبقے کے لیے آمدنی بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔

انڈیا کی معیشت کو زراعت اور اسی شعبے سے وابستہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔ مودی کو یہ حاصل کرنے کے لیے اتحادیوں کے ساتھ مشاورتی نقطہ نظر اپنانا پڑے گا۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایک ایسا شخص جو سرخیوں میں رہتا ہے اس کے لیے اتفاق رائے کی سیاست کرنا آسان نہیں ہوگا۔

وزیر اعظم کے سوانح نگار نیلنجن مکھوپادھیائے کہتے ہیں ’انھیں اچانک ایک ایسا کردار ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے جو انھوں نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔‘

لیکن کامیاب سیاستدان نئی ایجادات کرنے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔ کیا انڈیا اب زیادہ عاجز، زیادہ مشورہ کرنے والے اور اتفاقِ رائے سے کام کرنے والے مودی کو دیکھے گا؟

ایک سیاسی تجزیہ کار سندیپ شاستری کہتے ہیں کہ ’ہمیں انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا ہوگا۔ ہمیں انھیں موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھنا ہوگا نہ کہ ماضی کے اتحادوں کے تناظر میں۔‘

اسی بارے میں


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US