جنوبی وزیرستان: والد، والدہ اور بہن کے قتل کے ملزم کو ’سزائے موت‘ دیے جانے کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟

وزیرستان اپر کے ضلعی پولیس افسر ارشد خان نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ رحمان الدین نامی شخص پر الزام تھا کہ اِس نے اپنے والد، سوتیلی والدہ اور سوتیلی چھوٹی بہن کو قتل کیا تھا اور اس کے بعد یہ شخص مفرور ہو گیا تھا۔

دو درجن سے زائد مسلح افراد ایک طرف کھڑے ہیں اور اُن کے درمیان ایک شحص موجود ہے جس کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی ہے۔ اِن سب کے سامنے موجود ایک شخص فیصلہ سُنانے کے انداز میں کہتا ہے کہ 'اِس نے اپنی ماں، باپ اور بہن کو قتل کیا ہے اور اپنا جرم تسلیم کیا ہے، اسے یہاں موجود لوگوں کے سامنے سزا دی جائے گی' اور پھر یہ فیصلہ سنائے جانے کے بعد مسلح افراد میں موجود ایک شخص آنکھوں پر پٹی بندھے آدمی پر فائرنگ کر دیتا ہے۔

یہ ویڈیو، جسے ابتدا میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے پروپیگنڈا اکاؤنٹس سے شیئر کیا گیا تھا، گذشتہ چند روز سے پاکستان کے سوشل میڈیا پر موجود ہے۔

اس ویڈیو میں نظر آنے والا شخص، جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی اور جس پر فیصلہ سنائے جانے کے بعد فائرنگ کی گئی تھی، جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین کا رہائشی رحمان الدین ہے۔

وزیرستان اپر کے ضلعی پولیس افسر ارشد خان نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ رحمان الدین نامی شخص پر الزام تھا کہ اِس نے اپنے والد، سوتیلی والدہ اور سوتیلی چھوٹی بہن کو قتل کیا تھا اور اس کے بعد یہ شخص مفرور ہو گیا تھا۔ ارشد خان کے مطابق پولیس ملزم رحمان الدین کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ملزم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے اہلخانہ کے قتل کی ایف آئی آر 19 دسمبر کو درج کر لی گئی تھی اور تحقیقات کی جا رہی تھیں۔

ڈی پی اور ارشد خان کا کہنا ہے کہ اب مفرور ملزم رحمان الدین کے قتل کی تصدیق ہو گئی ہے اور اب اس واقعے کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔

Getty Images
Getty Images

یونین کونسل مکین کے چیئرمین امان اللہ نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ اہلخانہ کو قتل کرنے کے بعد مفرور ملزم رحمان الدین اپنے ساتھ اسلحہ لے کر گیا تھا اور علاقے میں لوگ بھی اس سے خوفزدہ تھے اور یہ بات سامنے آئی تھی کہ والدین کو قتل کرنے کے بعد وہ دیگر کچھ افراد کو بھی مارنا چاہتا تھا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ والدین کو قتل کرنے کے بعد وہ پہاڑوں میں روپوش تھا اور پولیس اس کے گرفتاری کے لیے اُن علاقوں میں جا رہی تھی لیکن وہ گرفتار نہ ہو سکا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ بعدازاں مفرور ملزم کو پہاڑوں پر موجود طالبان نے پکڑ لیا تھا۔

امان اللہ کے مطابق رحمان اللہ کی طالبان کے ہاتھوں گرفتاری کی اطلاع یہاں علاقے میں پہنچ گئی تھی اور رحمان الدین کے بھائیوں کو بھی اس بارے میں اطلاع فراہم کر دی گئی تھی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ طالبان کی جانب ملزم رحمان اللہ کو سزا سنائے جانے اور بعدازاں قتل کیے جانے کی جو ویڈیو جاری کی گئی ہے اُس میں رحمان الدین کے بھائی بھی موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ اس ویڈیو میں سزا سنانے والا شخص بھی کہہ رہا ہے کہ رحمان الدین نے اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے اور یہ کہ اُن کے بھائی کی موجودگی میں ملزم کو یہ سزا سنائی جا رہی ہے ۔

امان اللہ کے مطابق طالبان کے ہاتھوں قتل کے بعد رحمان الدین کی میت علاقے میں لائی گئی تھی اور نماز جنازہ کے بعد اس کی تدفین کر دی گئی تھی۔ رحمان الدین کے ایک رشتہ دار نے بھی بی بی سی کو اس واقعے کی تصدیق کی اور بتایا کہ طالبان شدت پسندوں نے ہی رحمان الدین کو سزا سنانے کے بعد فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ رحمان الدین کی میت علاقے میں لائی گئی اور نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد اس کی تدفین کی دی گئی تھی۔

Getty Images
Getty Images

رحمان الدین کے خلاف درج ایف آئی آر میں کیا کہا گیا تھا؟

مکین پولیس سٹیشن میں سرکاری مدعیت میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ تھانہ مکین کے ایس ایچ او امان الدین 19 دسمبر کے روز معمول کی گشت پر تھے جب انھیں اطلاع ملی کہ ایک مکان میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس ٹیم جب جائے وقوعہ پر پہنچی تو وہاں مکان میں ایک بزرگ شخص، شاہ جہاں، زخمی حالت میں پڑے تھے جبکہ اُن کی اہلیہ اور ایک بیٹی کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا۔ زخمی شاہ جہاں بھی بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے۔

اس ایف آئی آر کے مطابق تھانہ مکین کے اہلکاروں کو عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ شاہ جہاں کے بیٹے رحمان الدین نے اپنے والد ، سوتیلی والدہ اور سوتیلی بہن پر فائرنگ کی ہے اور اس کے بعد ملزم فرار ہو گیا۔ ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ وجہ عناد ابھی معلوم نہیں ہے۔

مکین کے مقامی رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ ملزم رحمان الدین نشے کا عادی تھا اور کوئی باقاعدہ کام نہیں کرتا تھا۔

مکین تھانے کے ایک اہلکار کے مطابق انھوں نے ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے، لیکن وہ قریب پہاڑوں میں روپوش ہو گیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان پہاڑوں میں طالبان شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات بھی ملتی رہتی ہیں۔

رحمان الدین کے رشتہ دار نے نام ظاہر نے کرنے کی شرط پر بتایا کہ فرار ہونے کے تین بعد اسے طالبان شدت پسندوں نے پکڑ لیا تھا۔

Getty Images
Getty Images

شدت پسندی میں اضافے کے بعد طالبان کے متوازی نام نہاد نظام انصاف پر بحث

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں حالیہ مہینوں کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی شدت پسندانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور پولیس پر حملوں کے ساتھ ساتھ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین کے اغوا کے واقعات بھی تواتر سے پیش آتے رہتے ہیں اور بعدازاں طالبان کے پروپیگنڈا چینلز سے مغوی اہلکاروں کی ویڈیوز بھی جاری کی جاتی رہی ہیں۔

شدت پسندی سے زیادہ متاثرہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کا یہ دعویٰ بھی ہےکہ شدت پسند اپنا نام نہاد نظام انصاف رائج کرنے کے لیے مقامی لوگوں کو تلقین بھی کرتے ہیں۔

Getty Images
Getty Images

صحافی احسان اللہ ٹیپو محسود نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان اپنے نظام انصاف کو بہتر نظام سمجھتے ہیں اور اس کے لیے دلائل بھی دیتے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے کسی ملزم کو سزا دینے کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ رواں برس ستمبر کے مہینے میں جنوبی وزیرستان میں ہی ایک امام مسجد کو مختلف الزامات کی بنیاد پر طالبان نے قتل کر دیا تھا۔ احسان اللہ ٹیپو کے مطابق اس واقعے کے بعد بھی ایک ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں اسی طرح مسلح طالبان کھڑے تھے اور مقامی لوگ بھی وہاں تھے جس کے بعد امام مسجد کو قتل کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے اور انھیں قتل کر دیا جاتا ہے جس کے بعد ویڈیو میں موجود شخص دعویٰ کرتا ہے کہ اُن (طالبان) کا نظام انصاف بروقت انصاف فراہم کرتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ متوازی نظام انصاف کا معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ شدت پسند تنظیموں نے متعدد ممالک میں اسی طرح کی متوازی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں جس کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US