محمد عارف: لال قلعہ حملہ کیس میں سزائے موت پانے والے مبینہ پاکستانی جن کی رحم کی اپیل انڈین صدر نے مسترد کر دی

انڈیا کی صدر دروپدی مورمو نے پاکستان کے ایک مبینہ شہری محمد عارف عرف اشفاق کی رحم کی درخواست مسترد کر دی ہے جنھیں سنہ 2000 میں دلی کے لال قلعہ میں سیکورٹی فورسز پر حملے کی سازش اور دہشت گردانہ حملے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
India
AFP

انڈیا کی صدر دروپدی مورمو نے پاکستان کے ایک مبینہ شہری محمد عارف عرف اشفاق کی رحم کی درخواست مسترد کر دی ہے جنھیں سنہ 2000 میں دلی کے لال قلعہ میں سیکورٹی فورسز پر حملے کی سازش اور دہشت گردانہ حملے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

محمد عارف، جن کو اشفاق عارف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کا تعلق کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ اور پاکستان کے صوبہ پنجاب سے بتایا جاتا ہے۔ تاہم پاکستانی دفتر خارجہ نے بی بی سی کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ وہ اس شخص کی پاکستانی شہریت کے بارے میں تصدیق نہیں کر سکتے۔

واضح رہے کہ محمد عارف کو دسمبر سنہ دو ہزار میں دلی کے لال قلعہ میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے کے صرف تین ہی دن بعد دلی کے ایک رہائشی علاقے میں واقع ان کی انڈین بیوی کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں شدید تناؤ آ گیا۔

سنہ 2005میں پہلی بار سزائے موت ملنے کے بعد محمد عارف سزا کے خلاف اپیل کے لیے تمام عدالتی راستے اپنا چکے ہیں اور آخر کار 15 مئی کو انھوں نے انڈیا کی صدر سے رحم کی اپیل کی تھی لیکن انڈین صدر کے سکریٹریٹ کے 29 مئی کے حکم نامے کے مطابق صدر نے 27 مئی کو عارف کی اپیل مسترد کر دی۔

عارف کے پاس رحم کی اپیل مسترد کیے جانے کے فیصلے کے خلاف بھی انڈیا کی سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا حق موجود ہے۔ لیکن انڈیا کی ماضی کی عدالتی نظیروں کو اگر دیکھیں تو رحم کی اپیل مسترد کیے جانے کے فیصلے میں کسی تبدیلی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ موت کے سزا یافتہ مجرم، رحم کی اپیل مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں اپنی موت کی سزا کم کرنے کی اس بنیاد پر اپیل کر سکتے ہیں کہ انصاف کے عمل میں بے جا تاخیر ہوئی ہے۔

محمد عارف کون ہیں؟

Arif
Getty Images

محمد عارف کے بارے میں بہت زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں۔

انڈین پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان کا تعلق پاکستان کے صوبے پنجاب سے ہے اور گرفتاری کے وقت ان کی عمر 27-28 برس ہو گی۔

تاہم پاکستانی دفتر خارجہ نے بی بی سی کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ وہ اس شخص کی پاکستانی شہریت کے بارے میں تصدیق نہیں کر سکتے۔

انڈین پولیس کے مطابق شادی کے ایک اشتہار کے ذریعے عارف کی شناسائی دلی کی ایک تعلیم یافتہ لڑکی رحمانہ یوسف فاروقی سے ہوئی اور اس وقتتک عارف بظاہر دلی کے ایک علاقے میں رہ رہے تھے۔

دونوں نے دلی میں ہونے والے حملے سے چند ہی دن قبل آٹھ دسبمر 2000 کو ایک سادہ تقریب میں شادی کی جس کے 14 روز بعد لال قلعہ پر حملہ ہوا۔

پولیس نے عارف کے ساتھ ساتھ ان کی بیوی رحمانہ کو بھی گرفتار کیا تھا اور ان پر شدت پسندوں کو پناہ فراہم کرنے اور اس سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔

رحمانہ کو ذیلی عدالت سے کئی برس کی قید کی سزا ہوئی تھی اور وہ کئی برس تک جیل میں رہیں۔ جنوری 2011 میں دلی ہائی کورٹ نے انھیں ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر تمام الزامات سے بری کر دیا تھا۔

محمد عارف کے 22 برس تک جاری رہنے والے مقدمے کے دوران ان کا کوئی رشتے دار یا جاننے والا سامنے نہیں آیا اور یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کے کسی رشتےدار نے اس دوران ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی یا نہیں۔

ان کے مقدمات کی پیروی قانونی امداد کے ادارے کے ذریعے فراہم کیے گئے وکلا نے کی۔

دلی کے لال قلعہ میں ہونے والا حملہ

LAL QILA
Getty Images

دلی کے تاریخی لال قلعہ میں انڈیا کی ساتویں راجپوتانہ رائفلز کا ایک کیمپ ہوا کرتا تھا۔

انڈیا کی پولیس کے مطابق 22 دسمبر 2000 کی شام شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ کے دو شدت پسند قلعہ کے احاطے میں داخل ہوئے اور انھوں نے سیکورٹی فورسز پر گولی چلائی جس میں تین فوجی اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہو ئے تھے جبکہ جوابی فائرنگ کے دوران حملہ آور دیوار کود کر فرار ہو گئے۔

انڈین پولیس کے مطابق فرار ہوتے وقت حملہ آوروں کی ایک اے کے 56 رائفل اور ایک پرچی گر گئی جس میں کچھ فون نمبر لکھے ہوئے تھے۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان شواہد کی مدد سے اس واقعے کے تین روز بعد عارف کو دلی کے ایک رہائشی علاقے میں واقع ان کی انڈین بیوی کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔

دلی کی ایک ذیلی عدالت نے عارف کو قتل، مجرمانہ سازش اور انڈیا کے خلاف جنگ کے الزامات میں قصور وار پایا۔

اسی مقدمے میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے نذير احمد قاصد اور ان کے بیٹے فاروق کو عمر قید کی سز ا کا حکم دیا گیا جبکہ اشفاق کی انڈین بیوی ریحانہ سمیت چار ديگر ملزمان کو سات، سات برس کی سزائے قید سنائی گئی۔ اس مقدمے میں عدالت نے چار ملزموں کو باعزت بری کرنے کا بھی حکم دیا۔

ذیلی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ عارف لشکر طیبہ کے دو شدت پسندوں، ابو بلال اور ابو حیدر کے ہمراہ 1999 میں غیر قانونی طور پر انڈین علاقے میں داخل ہوئے اور انھوں نے لال قلعہ پر حملے کی سازش سری نگر کے ایک گھر میں تیار کی تھی۔

اہم بات یہ ہے کہ عارف کے ساتھ جن دو افراد پر الزامات عائد تھے وہ دونوں انڈین پولیس کے ساتھ الگ الگانکاؤنٹر میں ہلاک ہوئے۔

ذیلی عدالت نے لال قلعہ پر حملے کی سازش میں عارف کو اکتوبر 2005 میں موت کی سزا سنائی جس کے بعد دلی ہائی کورٹ نے ستمبر 2007 میں موت کی سزا کی توثیق کر دی تھی۔

عدالتوں میں اپیلیں

India
Getty Images

عارف نے اس فیصلے کے خلاف انڈیا کی سپریم کورٹ میں اپیل کی تاہم عدالت عظمی نے بھی اس مقدمے کی سماعت کے بعد اگست 2011 میں عارف کی سزائے موت برقرار رکھی۔

عدالت عظمی کا کہنا تھا کہ لال قلعہ پر حملہ ملک کی سالمیت، اتحاد اور اقتدار اعلیٰ پر براہ راست حملہ تھا۔ اس کیس میں ایسا کوئی پہلو نہیں ہے جس کی بنیاد پر موت کی سزا کو کم کیا جا سکے۔

سنہ 2022 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ ’ملزم محمد عارف عرف اشفاق ایک پاکستانی شہری ہیں اور وہ انڈین علاقے میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہوئے۔‘

محد عارف نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کی تو عدالت عظمیٰ کے دو ججوں کے ایک بنچ نے اس درخواست کو بھی مسترد کر دیا۔

جنوری 2014 میں عارف کے وکیل نے ایک کیورییٹیو پٹیشن دائر کی لیکن عدالت عظمی نے اسے بھی خارج کر دیا۔ اس کے بعد عارف نے سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کی جس میں کہا گیا تھا کہ موت کی سزا پانے والے ملزموں کی نظر ثانی کی درخواست کی سماعت ‏عدالت عظمی کی ایک تین رکنی بنچ کے ذریعے کھلی عدالت میں کی جانی چاہیے نا کہ دو رکنی بنچ کے ذریعے، جیسا کہ ان کے کیس میں کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے ایک آئینی بنچ نے اس درخواست کی سماعت کرنے کے بعد ستمبر 2014 کے اپنے فیصلے میں کہا کہ ان تمام مقدمات کی سماعت جن میں ہائی کورٹ نے موت کی سزا سنائی تھی ایسے سبھی معاملات کی سماعت سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے ذریعے کی جانی چاہیے۔

جنوری 2016 میں ایک آئینی بینچ نے فیصلہ سنایا کہ عارف کو کھلی عدالت میں اپنی نظر ثانی کی درخواست مسترد کیے جانے کی ایک مہینے کے اندر ازسرنو سنوائی کی درخواست کا حق حاصل ہے۔

تین نومبر کو انڈین سپریم کورٹ نے نظر ثانی کی اس درخواست کو بھی مسترد کر دیا اور عارف کی موت کی سزا برقرار رہی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US