ایڈم برٹن: کتوں سے ’اذیت ناک سیکس‘ کرنے والا ’عفریت‘ جو سامنے رہ کر بھی نظروں سے اوجھل رہا

اس مقدمے کی ہولناک تفصیلات نے آسٹریلیا میں ہر کسی کو ہلا کر رکھ دیا تھا جس کا اختتام ایک برطانوی ماہر حیوانیات کو 10 سال پانچ ماہ قید کی سزا پر ہوا ہے۔
bbc
BBC

کئی دہائیوں کے دوران 53 سالہ ایڈم برٹن نے دنیا کے معروف مگرمچھ ماہرین میں سے ایک کے طور پر شہرت حاصل کی۔

انھوں نے جنگلی علاقوں میں ان شکاریوں کے ساتھ تیراکی کی، اپنے پالتو مگرمچھ ’سموگ‘ کو ان گنت فلموں اور دستاویزی فلموں میں کاسٹ کروایا اور یہاں تک کہ آسٹریلیا میں اپنے گھر میں سر ڈیوڈ ایٹن برا کی میزبانی بھی کی۔

اس دوران وہ تمام مخلوقات کے لیے زیادہ سے زیادہ احترام کی ضرورت کا پرچار کرتے رہے۔

انتباہ: اس کہانی میں بدسلوکی کی تفصیلات شامل ہیں جو قارئین کو پریشان کن لگ سکتی ہیں۔

لیکن برٹن کو اب دنیا میں جانوروں کے ساتھ بدترین بدسلوکی کرنے والوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے جنھیں رواں ہفتے درجنوں کتوں کے ساتھ جنسی استحصال اور تشدد کی ویڈیو بنانے کے جرم میں ایک دہائی سے زائد قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

جانوروں پر ظلم و ستم کے 56 الزامات کے ساتھ ساتھ انھوں نے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے مواد تک رسائی کے چار الزامات کا بھی اعتراف کیا۔

اس خبر نے دنیا بھر میں صدمے اور نفرت کی لہر پیدا کی اور برٹن کو جاننے والوں میں سے کچھ نے سوال اٹھایا کہ وہ’عفریت‘ کیسے بن گئے۔

بہت سے لوگوں نے بی بی سی کوبتایا کہ وہ ایک شرمیلے لیکن دوستانہ شخص تھے جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ وہ توجہ کے متلاشی مغرور شخص ہیں جو اس کام کا بھی کریڈٹ لیتے تھے جو ان کا اپنا نہیں تھا۔

لیکن ایک نکتہ تھا جس پر وہ سب متفق تھے کہ انھیں نہیں یاد کہ کوئی ایسا اشارہ ملا ہو کہ برٹن بدکردار تھے۔

ان کے سابق ساتھی برینڈن سائیڈلیو کا کہنا ہے کہ ’یہ واقعی ایسا ہے کہ آپ کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اس طرح کی چیز ممکن ہو گی۔‘

مگرمچھوں کے ساتھ ابتدائی کشش

سنہ 1971 میں ویسٹ یارکشائر میں پیدا ہونے والے برٹن نے بچپن سے ہی جانوروں میں جنسی دلچسپی لی اور 13 سال کی عمر میں گھوڑوں کے ساتھ بدسلوکی شروع کر دی تھی۔

لیکن اس کےبعد برطانیہ میں ان کی جوانی کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔

اپنے بلاگ پر برٹن نے کہا کہ انھیں تین لوگوں نے زوولوجسٹ بننے کی ترغیب دی تھی، ان کی والدہ جو ’فطرت پسند‘ تھیں، ان کے حیاتیات کے استاد ویل رچرڈز اور سر ڈیوڈ ان کے رول ماڈل تھے۔

انھوں نے لیڈز یونیورسٹی سے بیچلرز آف سائنس کی تعلیم حاصل کی، 1992 میں گریجویشن کیا۔ پھر 1996 میں برسٹل یونیورسٹی سے چمگادڑوں کے شکار کے طریقوں پر زوولوجی میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ لیکن ان کا خواب ہمیشہ سے برطانیہ سے فرار ہونا اور مگرمچھوں پر تحقیق کرنا تھا۔

انھوں نے 2008 کے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ بچپن سے ہی ان سے متاثر تھے اور انسانوں اور رینگنے والے جانوروں کے درمیان بڑھتے ہوئے کشیدہ تعلقات کو بحال کرنے میں مدد کرنا چاہتے تھے۔

انھوں نے انٹرٹینمنٹ نیوز سائٹ ڈین آف گیک سے بات کرتے ہوئے کہا ’اگر لوگ (انھیں) نہیں سمجھتے ہیں تو آپ کو لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرنے کی زیادہ امید نہیں ہوتی ہے ۔‘

لہٰذا 1990 کی دہائی کے وسط میں برٹن شمالی علاقے (این ٹی) کے گرد آلود میدانوں میں آ گئے جہاں کرہ ارض پر نمکین پانی کے مگرمچھوں کی سب سے بڑی آبادی رہتی ہے۔

وہاں گراہم ویب جو اس شعبے میں پیش پیش تھے نے ایک چھوٹے سے چڑیا گھر اور تحقیقی مرکز کروکوڈائلز پارک میں ’بہت پرجوش‘ نوجوان کو اپنے ساتھ رکھ لیا۔

برٹن فلم بندی کے منصوبوں کی طرف راغب ہوئے لیکن تحقیق میں بھی حصہ لیا جس میں مگرمچھ کے خون کی طاقتور اینٹی بائیوٹک خصوصیات پر 2005 کی ایک تحقیق بھی شامل ہے جس نے عالمی سطح پر سرخیوں میں جگہ بنائی۔

سنہ 2006 میں انھوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر اپنا الگ مگرمچھ کنسلٹنسی کاروبار شروع کیا اور بعد میں چارلس ڈارون یونیورسٹی میں ایک معاون محقق کا کردار بھی ادا کیا۔

پروفیسر ویب خود کو ایک ایسا سرپرست سمجھتے تھے جس نے برٹن کو انڈسٹری میں آغاز اور فلم سازی کی مہارت حاصل کرنے کا موقع دیا لیکن برٹن نے جب انھیں چھوڑا تو تمام رابطے ختم کر دیے۔

پروفیسر ویب کا الزام ہے کہ ’وہ ایک مغرور شخص تھے جنھوں نے کروکوڈائلز پارک میں ٹیم کے زیادہ تر کام کو اپنا بتایا اور پھر ان کے گاہکوں کو راغب کر لیا۔‘

پروفیسر ویب نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہاں سائنسدان ہیں۔ وہ سب کو جانتا تھا اور اس کے پاس بہت علم تھا، لیکن یہ مختلف ہے۔ ایک لائبریرین کے پاس بھی بہت زیادہ علم ہوتا ہے۔ ایڈم جیسے لوگ صرف خبروں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘

سنہ 2013 میں برٹن کے ساتھ مل کر مگرمچھوں سے متعلق کروک بی آئی ٹی ای کے نام سے ایک اٹیک ڈیٹا بیس قائم کرنے والے سیڈلیو نے بھی بی بی سی کو ایسی ہی کہانی سنائی۔

سائڈلیو کا کہنا ہے کہ ’برٹن کو اس آرکائیو کا کریڈٹ لینا بہت پسند تھا لیکن انھوں نے اس میں کبھی ایک بھی واقعہ پیش نہیں کیا۔ اس نے صرف ویب سائٹ ڈومین کے لیے رقم ادا کی۔‘

crocodile
Getty Images

اپنے شعبے کے لیڈر

لیکن وسیع تر کمیونٹی میں برٹن اور اس کے پالتو مگرمچھ سٹار بن گئے تھے۔

کروکوڈائلز پارک چھوڑنے کے بعد انھوں نے مگرمچھوں کے طرزِعمل کے ماہر کے طور پر پہچان بنائی اور میک مینس لیگون جو ان کی سرسبز جاگیر تھی اسے آٹھ مگرمچھوں کا گھر اور ایک دنیا میں مگرمچھوں کی فلم بندی کی منزل بنا دیا۔

سنہ 2006 میں جب سر ڈیوڈ کی ’لائف ان کولڈ بلڈ‘ دستاویزی سیریز منظر عام پر آئی تو برٹن نے سموگ کے لیے ایک خصوصی انکلوژر بنایا جس سے پروگرام کو مگرمچھوں کے ملاپ کی فوٹیج حاصل کرنے کا موقع ملا۔

برٹن نے کئی سال بعد روزنامہ ٹیلی گراف کو بتایا کہ ان کے آئیڈیل کے ساتھ کام کرنا ایک ’خواب کی تعبیر‘ تھی۔

چونکہ جنگلی علاقوں میں مگرمچھوں کے بہت سے رویّوں کو فلمانا مشکل ہے اس لیے کسی نے کسی ٹی وی چینل کا عملہ میک مینس لیگون کے چکر لگاتا رہتا۔

برٹن نے 2018 میں این ٹی نیوز کو بتایا تھا کہ ’اگر آپ نے کبھی نمکین پانی کے مگرمچھ کی پانی کے اندر عکس بندی دیکھی ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ سموگ ہے۔‘

سٹیو بیکشال نے اپنی ’ڈیڈلی60‘ نامی دستاویزی فلم، مین ورسِز وائلڈز بیئر گریلز کے مناظر فلمائے اور یہاں تک کہ فلم پروڈیوسرز کے پاس برٹن کا نمبر بھی موجود تھا۔

بیرون ملک بھی ان کی مہارت سے فائدہ حاصل کی گئی۔ انھوں نے 2011 میں فلپائن میں پکڑے گئے دنیا کے سب سے لمبے مگرمچھ کی پیمائش میں مدد کی اور 2016 میں ٹی وی میزبان اینڈرسن کوپر کے ساتھ بوٹسوانا میں سی بی ایس کے 60 منٹس کی ایک قسط میں جنگلی مگرمچھوں کے ساتھ غوطہ لگایا۔

آسٹریلوی ہدایت کار اور مصنف اینڈریو ٹروکی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ اپنے شعبے میں ایک لیڈر تھے۔۔۔ ایک اچھے آدمی۔‘

برٹن نے کیا کیا ہے؟

ٹروکی نے برٹن کے ساتھ 2008 میں کروک ہارر فلم ’بلیک واٹر‘ اور 2019 کے سیکوئل کی شوٹنگ کے دوران کام کیا تھا۔

انھوں نے برٹن کی املاک پر کئی خوشگوار گھنٹے گزارنے کے بارے میں بتایا جہاں ان کے ساتھ ان کے ’حیرت انگیز‘ سوئس شیفرڈز بھی تھے۔

عدالت نے بتایا کہ اس وقت زولوجسٹ اپنے پالتو جانوروں کا استحصال کر رہے تھے اور دوسرے کتوں کے مالکان کو ان کے پالتو جانور انھیں دینے کے لیےبہلا پھسلا رہے تھے۔

آن لائن مارکیٹ ’گمٹری آسٹریلیا‘ کا استعمال کرتے ہوئے وہ ایسے لوگوں کو تلاش کرتے جو اکثر اپنے پالتو جانوروں کو چھوڑ دیتے ہیں اوران کے لیے ’اچھا گھر‘ تلاش کرتے ہیں۔

اگر کوئی اپ ڈیٹس مانگتا تو وہ انھیں ’جھوٹی کہانیاں‘ بتاتے اور انھیں پرانی تصاویر بھیجتے۔

زیادہ تر کتے پہلے ہی مر چکے تھے ریکارڈنگ کے سامان سے لیس شپنگ کنٹینر کے اندر ناقابل بیان تکلیف کا سامنا کرنا پڑا تھا جسے برٹن نے اپنا ’ٹارچر روم‘ کہا تھا۔

اپنی گرفتاری سے پہلے 18 مہینوں میں انھوں نے کم از کم 42 کتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جن میں سے 39 کو ہلاک کر دیا۔

ٹروکی کہتے ہیں کہ ’یہ وہ چیز ہے جو مجھے اس وقت سے پریشان کر رہی ہے جب سے میں نے سنا ہے۔۔۔ آپ نے اسے اس سب کے لیے کبھی منتخب نہیں کیا ہو گا۔‘

اسی طرح اس خبر نے وسیع تر کمیونٹی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

دنیا بھر میں سینکڑوں افراد ان کے کیس کی پیروی کرنے کے لیے وقف سوشل میڈیا گروپس میں شامل ہو گئے ہیں اور کچھ نے ان کی عدالت کی سماعتوں میں یہ دلیل دی ہے کہ انھیں سزائے موت دی جانی چاہیے حالانکہ آسٹریلیا میں 1985 سے اس سزا کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔

یہاں تک کہ کچھ لوگ برٹن کو سزا سناتے ہوئے دیکھنے کے لیے ڈارون گئے اور جب ان کے جرائم کی تفصیلات بلند آواز سے پڑھی جا رہی تھیں تو وہ سب کمرہ عدالت کے اندر رورہے تھے۔

وہ برٹن کی جانب سے دھوکا کھانے والے پالتو جانوروں کے مالکان کے لیے آواز بننا چاہتے تھے جن میں سے زیادہ تر اب بھی اتنے صدمے میں ہیں اور احساسِ جرم میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ ان کے بارے میں بات نہیں کی جا سکتی۔

شرکا میں سے ایک نیٹلی کیری کہتی ہیں’میں اس شخص کو دیکھتی اور سوچتی تھی کہ ’کتنا ذہین اور مہربان آدمی ہے‘ اور پھر اس کے بارے میں جاننے کے بعد کہ اس نے کیا کیا ہے میں تین ہفتوں تک سوئی نہیں۔‘

برٹن کو جاننے والے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے لمحات بھی آتے تھے جب ان میں ہمدردی کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ لیکن سبھی کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں تھا کہ وہ متشدد یا ظالم تھے۔

پروفیسر ویب کہتے ہیں ’ایسا نہیں تھا کہ ہم نے انھیں ٹڈیوں کے پر کھینچتے ہوئے دیکھا تاکہ انھیں تکلیف میں دیکھا جا سکے۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک نہیں تھا۔‘

’یہ افسوس ناک ہوتا ہے جب آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کا کوئی جاننے والا ذہنی طور پر اتنا خراب ہو گیا ہے اور آپ اسے بروقت دیکھ اور اس کے لیے کچھ کر نہیں پائے۔ آپ کو ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے۔‘

برٹن کے وکیل نے دلیل دی کہ وہ بچپن سے ہی ایک نایاب عارضے میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے شدید اور غیر معمولی جنسی دلچسپیاں پیدا ہوئی تھیں۔

لیکن اپنے معافی نامے میں برٹن نے اس ’درد اور صدمے‘ کی ’مکمل ذمہ داری‘ قبول کی جس کی وہ وجہ بنے اور علاج کرانے کا وعدہ کیا۔

انھوں نے لکھا کہ ’میں نجات کا راستہ تلاش کروں گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts