شیخ حسینہ کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ ہونے کے بعد انڈیا کو ’بہترین کی امید، بدترین کی تیاری‘

شیخ حسینہ کی امریکہ روانگی کی تجویز کو ابتدائی رکاوٹوں کا سامنا رہا۔ اس کے بعد انڈیا نے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور یورپ کے دو چھوٹے ممالک سے بات کی۔ لیکن اگر کوئی تیسرا ملک شیخ حسینہ کو سیاسی پناہ دینے پر راضی ہو بھی گیا تو وہ کس پاسپورٹ پر سفر کریں گی؟
شیخ حسینہ
Getty Images
انڈین پی ایم مودی اور بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ

شیخ حسینہ گذشتہ ماہ کی پانچ تاریخ تک بنگلہ دیش کی وزیر اعظم تھیں لیکن افراتفری کے عالم میں انھیں وہاں سے نکلنا پڑا جس کے بعد وہ تین ہفتے سے زائد عرصے سے انڈیا میں مقیم ہیں۔

انڈین حکومت نے یقینی طور پر ان کے اور ان کی چھوٹی بہن شیخ ریحانہ کے قیام کے لیے انتہائی رازداری کے ساتھ سخت حفاظتی انتظامات کیے ہیں لیکن ابھی تک باضابطہ طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ اس معاملے پر ان کا حتمی فیصلہ کیا ہوگا۔

دریں اثنا بنگلہ دیش کی نگراں حکومت نے گذشتہ ہفتے شیخ حسینہ کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ کیا تھا۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ اب انڈیا میں ان کے قیام کی قانونی حیثیت کیا ہو سکتی ہے۔

موجودہ پس منظر میں دلی میں انڈین حکومت کے اعلیٰ حکام اور تجزیہ کاروں کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں بی بی سی کو یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ شیخ حسینہ کے معاملے پر اس وقت انڈیا کے سامنے تین راستے یا متبادل ہیں۔

شیخ حسینہ کے معاملے پر انڈیا کے پاس تین راستے

پہلا آپشن یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم کے لیے کسی تیسرے ملک میں پناہ دلانے کے انتظامات کیے جائیں لیکن وہ ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں ان کی حفاظت یقینی ہو۔

دوسرا آپشن یہ ہے کہ شیخ حسینہ کو انڈیا میں ہی سیاسی پناہ دی جائے اور ان کے لیے یہاں عارضی قیام کا انتظام کیا جائے۔

تیسرا آپشن فی الوقت ممکن نظر نہیں آتا تاہم انڈین حکام اور مبصرین کے ایک گروپ کا خیال ہے کہ اگر کچھ دنوں کے بعد صورتحال بہتر ہوتی ہے تو انڈیا شیخ حسینہ کی بنگلہ دیش میں سیاسی واپسی کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ عوامی لیگ بحیثیت پارٹی یا سیاسی قوت ابھی ختم نہیں ہوئی اور شیخ حسینہ اپنے ملک واپس آنے کے بعد پارٹی کی کمان سنبھال سکتی ہیں۔

سفارتی حلقوں اور تھنک ٹینک کے رہنماؤں کو ان آپشنز میں سے پہلے آپشن پر کوئی شبہ نہیں کہ یہ موجودہ صورتحال میں انڈیا کے لیے بہترین ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر شیخ حسینہ انڈیا میں مقیم رہتی ہیں تو اس کا دہلی- ڈھاکہ تعلقات پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی یقینی ہے کہ اگر ڈھاکہ سے شیخ حسینہ کی حوالگی کے لیے کوئی درخواست آتی ہے تو دہلی کس دلیل کی بنیاد پر اسے مسترد کرے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کو عدالتی عمل کا سامنا کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے حوالے کرنا انڈیا کے لیے کوئی عملی متبادل نہیں ہے۔

ایسی صورتحال میں شیخ حسینہ کے معاملے پر انڈیا کے لیے وہی تین آپشنز کھلے ہیں جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ اس رپورٹ میں ان تینوں آپشنز کے تمام پہلوؤں اور ان کے امکانات پر بات کی جا رہی ہے۔

گذشتہ ماہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے خلاف غصہ اس قدر بھڑک اٹھا کہ انھیں انڈیا میں پناہ لینی پڑی
Getty Images
گذشتہ ماہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے خلاف عوام کا غصہ اس قدر بھڑک اٹھا کہ انھیں انڈیا میں پناہ لینی پڑی

شیخ حسینہ کو کسی اور دوست ملک بھیجا جا سکتا ہے؟

انڈیا کے آخری باضابطہ بیان کے مطابق شیخ حسینہ کا دورہ انڈیا 'بروقت قدم' تھا۔

وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے 6 اگست کو پارلیمنٹ میں بنگلہ دیش کی صورت حال پر اپنے بیان کے دوران شیخ حسینہ کے انڈیا آنے کا ذکر کرتے ہوئے لفظ 'فار دی مومنٹ' یعنی فی الحال کا استعمال کیا تھا۔ اس کے بعد سے حکومت کی طرف سے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ حسینہ کو بحفاظت کسی تیسرے ملک بھیجنے کی کوششیں جاری ہیں۔ لیکن اگر اس میں فوری کامیابی نہ بھی ملی تو انڈیا انھیں سیاسی پناہ دینے اور انھیں طویل عرصے تک ملک میں رکھنے سے دریغ نہیں کرے گا۔

محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے کہا: 'ہم بہترین کی امید کر رہے ہیں جبکہ بدترین کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔'

ان کے اس بیان کا مقصد یہ تھا کہ انڈیا کو اب بھی امید ہے کہ شیخ حسینہ کے معاملے میں کچھ بہتر ہو گا، یعنی وہ تیسرے دوست ملک میں جا کر رہ سکیں گی۔

لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو دہلی بدترین حالات کے لیے تیار رہے گا، یعنی شیخ حسینہ کو طویل عرصے تک انڈیا میں مقیم رکھے گا۔

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ شیخ حسینہ کی امریکہ روانگی کی تجویز کو ابتدائی رکاوٹوں کا سامنا رہا ہے۔ اس کے بعد انڈیا نے اس معاملے پر متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور یورپ کے دو چھوٹے ممالک سے بات کی ہے۔

تاہم ابھی تک اس معاملے میں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ لیکن اب یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ انڈیا شیخ حسینہ کو سیاسی پناہ دینے کے معاملے پر مشرق وسطیٰ کے ایک اور بااثر ملک قطر کے ساتھ بھی بات چیت کر رہا ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ شیخ حسینہ نے ابھی تک بذات خود امریکہ یا مذکورہ ممالک میں سے کسی بھی ملک سے سیاسی پناہ کی تحریری درخواست نہیں کی ہے۔ انڈین حکومت اس معاملے پر تمام بات چیت ان کی طرف سے اور ان کی زبانی رضامندی کی بنیاد پر کر رہی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی تیسرا ملک شیخ حسینہ کو سیاسی پناہ دینے پر راضی ہو جاتا ہے تو وہ دہلی سے کس پاسپورٹ پر اس ملک کا سفر کریں گی؟

ڈھاکہ میں انڈیا کی سابق سفیر، ریوا گنگولی داس بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ’یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر بنگلہ دیش کی حکومت نے ان کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا ہے تو وہ انڈیا کی طرف سے جاری کردہ سفری دستاویز یا اجازت نامے کی مدد سے کسی تیسرے ملک کا سفر کر سکتی ہیں۔

’مثال کے طور پر، تبت کے ہزاروں پناہ گزین ہیں جنھوں نے کبھی پاسپورٹ نہیں بنایا لیکن وہ انڈین دستاویزات کے ساتھ پوری دنیا کا سفر کرتے ہیں۔‘

فرض کریں کہ اگر کوئی ملک شیخ حسینہ کو سیاسی پناہ دینے کے لیے تیار ہے تو وہ انڈین حکومت کی طرف سے جاری کردہ سفری دستاویز پر متعلقہ ملک کا ویزا لے کر وہاں باآسانی جا سکتی ہیں اور قیام کر سکتی ہیں۔

ریوا گنگولی کہتی ہیں: 'یہ اصول کسی بھی فرد کے لیے ہے۔ لیکن اس معاملے میں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ شیخ حسینہ کی بہت بڑی ’سیاسی پروفائل‘ ہے۔ اس کی وجہ سے ان کے معاملے میں بہت سے قواعد و ضوابط آسان ہو سکتے ہیں۔‘

شیخ حسینہ
Getty Images
اس سے قبل شیخ حسینہ سنہ 1975 میں انڈیا میں پناہ لے چکی ہیں

سیاسی پناہ

دہلی سے ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ اگر بہت ضروری ہوا تو انڈیا شیخ حسینہ کو سیاسی پناہ دینے اور انھیں اپنے ملک میں رکھنے سے دریغ نہیں کرے گا۔

انڈیا اس سے قبل تبت کے مذہبی رہنما دلائی لامہ، نیپال کے بادشاہ تریبھون بیر وکرم شاہ اور افغانستان کے صدر محمد نجیب اللہ کو سیاسی پناہ دے چکا ہے۔ شیخ حسینہ خود بھی 1975 میں اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا میں رہ چکی ہیں۔

لیکن اس آپشن کو منتخب کرنے کی صورت میں دہلی کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ اس کا انڈیا اور بنگلہ دیش کے باہمی تعلقات پر کیا اثر پڑے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ 1959 میں دلائی لامہ کو سیاسی پناہ دینے کے بعد انڈیا اور چین کے تعلقات میں جو تلخی پیدا ہوئی تھی وہ 65 سال گزرنے کے بعد بھی نظر آتی ہے۔

دلائی لامہ کو انڈیا یا باقی دنیا میں کتنی ہی عقیدت کی نگاہ سے کیوں نہ دیکھا جائے لیکن وہ دہلی اور بیجنگ کے تعلقات میں ہمیشہ کانٹے کی طرح چبھتے ہیں۔

انڈیا میں کئی تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر انڈیا شیخ حسینہ کو سیاسی پناہ دیتا ہے تو یہ بنگلہ دیش کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

دہلی میں آئی ڈی ایس اے کی سینیئر فیلو سمرتی پٹنائک کہتی ہیں: 'جس تحریک کے ذریعے شیخ حسینہ کی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا تھا، اس میں بھی انڈیا مخالف پہلو تھا۔ اگرچہ وہ تحریک براہ راست حسینہ کے خلاف تھی لیکن وہ انڈیا کے خلاف بھی تھی۔ اب ایسی صورتحال میں اگر انڈیا شیخ حسینہ کو سیاسی پناہ دیتا ہے تو بنگلہ دیش کو ایک غلط پیغام جائے گا اور اس سے اس ملک میں انڈیا مخالف جذبات مزید بھڑکیں گے۔

حکومت ہند بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ پہلے آپشن میں کامیاب نہیں ہوتی تو وہ دوسرے آپشن کے انتخاب پر پر مجبور ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے کسی بھی صورت میں یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی دیرینہ دوست شیخ حسینہ کو بحران میں تنہا چھوڑ دیں۔

آئی ڈی ایس اے کی سینیئر فیلو سمرتی پٹنائک
BBC
آئی ڈی ایس اے کی سینیئر فیلو سمرتی پٹنائک

سیاسی بحالی میں مدد

انڈیا کے اعلیٰ پالیسی سازوں کا ایک طاقتور طبقہ اب بھی یہ مانتا ہے کہ بنگلہ دیش کی سیاست میں شیخ حسینہ کی اہمیت یا کردار ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور مناسب وقت آنے پر انڈیا کے لیے ان کی سیاسی بحالی میں مدد کرنا مناسب ہوگا۔

ایسی سوچ رکھنے والے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا: 'ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش کی سیاست میں تین بار (سال 1981، 1996 اور 2008 میں) زبردست واپسی کی ہے۔ ہر بار بہت سے لوگوں نے سوچا تھا کہ شاید اب کی بار یہ ممکن نہیں ہو گا۔ حسینہ نے واپسی اور انھوں نے ہر بار ایسے لوگوں کو غلط ثابت کیا ہے۔'

لیکن یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ وہ اس وقت جوان تھیں لیکن وہ اگلے ماہ 77 سال کی ہونے والی ہیں۔ کیا ان کی عمر ان کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی؟

اس کے جواب میں انڈین عہدیدار نے کہا کہ 'شاید عمر پوری طرح ان کی طرف نہیں ہے لیکن جب 84 سال کی عمر میں محمد یونس زندگی میں پہلی بار حکومت کے سربراہ بن سکتے ہیں تو پھر ہم کیوں مانیں کہ شیخ حسینہ ایسا نہیں کر سکتی، حالانکہ وہ ان سے عمر میں کافی چھوٹی ہیں۔

'بنیادی بات یہ ہے کہ دہلی میں ایک گروپ سنجیدگی سے یہ مانتا ہے کہ شیخ حسینہ ایک دن بنگلہ دیش واپس آکر عوامی لیگ کی قیادت سنبھال سکتی ہیں۔ اس گروپ کی دلیل ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو انڈیاکو اس ملک کی عبوری حکومت اور فوج پر دباؤ ڈالنا ہو گی۔'

ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی اور پورے ملک میں اس کا طاقتور نیٹ ورک ہے۔ اس پارٹی کی سپریم لیڈر کے طور پر شیخ حسینہ آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش واپس آ سکتی ہیں۔

اس گروپ کی رائے میں شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش میں اپنے خلاف درج مقدمات میں عدالت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور وہ اگلے انتخابات بھی نہیں لڑ سکیں گی۔ لیکن ان کی وطن واپسی اور سیاست میں آنے پر کوئی پابندی لگانا مشکل ہے۔

او پی جندل گلوبل یونیورسٹی میں ماہر سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کی پروفیسر سری رادھا دت کا خیال ہے کہ اگرچہ انڈیا عوامی لیگ کو بحال کرنے میں مدد کر سکتا ہے لیکن شیخ حسینہ کی بحالی بہت مشکل ہو گی۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: 'مجھے نہیں لگتا کہ عوامی لیگ مستقبل قریب میں شیخ حسینہ کی قیادت میں دوبارہ سیاست کے میدان میں کھڑی ہو سکے گی۔ عوامی لیگ ایک سیاسی قوت کے طور پر ضرور رہے گی کیونکہ اسے سیاست سے مکمل طور پر ہٹانا آسان نہیں ہے لیکن اس کے لیے پارٹی میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔'

یہی وجہ ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے اگلے انتخابات میں عوامی لیگ کے شیخ حسینہ کی قیادت میں الیکشن لڑنے کا تصور کرنا بھی عملی نہیں سمجھتے۔

لیکن گذشتہ پچاس برسوں کے دوران شیخ حسینہ پر انڈیا نے جو سیاسی سرمایہ کاری کی ہے، اس کی وجہ سے دہلی کا ایک بااثر طبقہ انھیں (حسینہ کو) کسی بھی حالت میں سیاسی طور پر ختم تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

پاسپورٹ کی منسوخی کے بعد

گذشتہ ہفتے بی بی سی بنگلہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شیخ حسینہ جب بنگلہ دیش سے انڈیا پہنچیں تو ان کے پاس سفارتی پاسپورٹ تھا اور اس کی مدد سے وہ کم از کم 45 دن تک بغیر ویزا کے انڈیا میں رہ سکتی ہیں۔

لیکن بی بی سی کی اس رپورٹ کے بعد بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اگلے ہی روز شیخ حسینہ سمیت تمام وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کو جاری کردہ سفارتی پاسپورٹ منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔

ایسے میں اب یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ شیخ حسینہ کے بغیر پاسپورٹ کے انڈیا میں رہنے کا کیا جواز ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے میں نے سابق انڈین سفارتکار پناک رنجن چکرورتی سے بات کی۔ وہ طویل عرصے تک وزارت خارجہ میں پروٹوکول ڈویژن کے سربراہ رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کا انڈیا میں قیام تکنیکی طور پر مکمل طور پر قانونی ہے۔ پناک رنجن کہتے ہیں: 'چاہے وہ ویزا فری مدت کے دوران آئے ہوں یا کسی اور خاص حالات میں، ان کے انڈیا پہنچنے کے وقت ان کے پاسپورٹ پر انٹری کی مہر لگا دی گئی تھی۔ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ اس وقت سے ان کا پاسپورٹ انڈیا میں قانونی تھا اور یہاں ان کا رہنا قانونی ہے۔ اس کے بعد اگر ان کا ملک ان کا پاسپورٹ منسوخ کردے تو بھی انڈیا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔'

یہاں تک کہ اگر انڈیا کو سفارتی ذرائع سے پاسپورٹ کی منسوخی کے بارے میں مطلع کیا جاتا ہے تو انڈیا پھر اس کی بنیاد پر متبادل اقدامات کرسکتا ہے۔

پناک چکرورتی کا کہنا ہے کہ 'اس کے بعد بھی شیخ حسینہ کو درست پاسپورٹ کے لیے درخواست دینے کا حق حاصل ہو گا۔ چاہے بنگلہ دیش کی نئی حکومت ان کی درخواست قبول نہیں کرے لیکن ایک بار جب وہ درخواست دے دیتی ہیں، تو ان کا یہاں رہنا انڈیا کی نظر میں قانونی ہی مانا جائے گا۔'


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US