انڈیا کی دائیاں جنھوں نے لڑکیوں کو قتل کرنے کے بجائے انھیں بچانا شروع کیا

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست کے دیہی علاقے میں دائیوں کا ایک گروپ معمول کے مطابق نوزائیدہ لڑکیوں کو قتل کر دیتا تھا لیکن پھر انھوں نے اس کے خلاف مزاحمت شروع کر دی۔
دائی سیرو دیوی مونیکا تھٹّے سے لپٹ کر رو رہی ہیں
BBC
پیلی ساڑھی میں ملبوس دائی سیرو دیوی مونیکا تھٹّے سے لپٹ کر رو رہی ہیں

دائی سیرو دیوی مونیکا تھٹّے سے لپٹ کر رو رہی ہیں۔ مونیکا کی عمر 20 کے پیٹے میں ہے اور وہ انڈیا میں اپنی جائے پیدائش پہ واپس آئی ہیں اور جہاں سینکڑوں بچوں نے ان کے ہاتھوں جنم لیا ہے۔

لیکن یہ کوئی عام سا ملن نہیں ہے۔ سیرو کے آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کے پیچھے ایک دردناک تاریخ ہے۔ مونیکا کی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل تک سیرو اور ان جیسی کئی دائیوں پر انڈیا میں باقاعدگی سے دباؤ ڈالا جاتا تھا کہ اگر نومولود لڑکی ہے تو اسے قتل کر دیں۔

شواہد بتاتے ہیں مونیکا ان بچیوں میں سے ایک ہیں جنھیں سیروب دیوی نے بچایا تھا۔

میں 30 برسوں سے سیرو دیوی کی کہانی پر کام کر رہا ہوں۔ میں اس وقت سے اس پر کام کر رہا ہوں جب میں سنہ 1996 میں انڈیا کی شمالی ریاست بہار میں ان کے ساتھ دیگر چار دیہی دائیوں کا انٹرویو کرنے گیا تھا۔

ایک غیر سرکاری تنظیمنے یہ نشاندہی کی تھی کہ کٹیہار ضلع میں نوزائیدہ بچیوں کے قتل کے پیچھے وہ ہیں۔ وہ نوزائیدہ بچوں کے والدین کے دباؤ میں انھیں کسی قسم کا کیمیائی مادہ کھلا کر یا پھر ان کی گردنیں مروڑ کر مار دیتی تھیں۔

میں نے جن دائیوں کا انٹرویو کیا ان میں سے سب سے بڑی دایہ ہکیہ دیوی نے مجھے اس وقت بتایا کہ انھوں نے 12 یا 13 بچیوں کو مارا تھا۔ دھرمی دیوی نامی ایک اور دائی نے اعتراف کیا کہ انھوں نے اس سے زیادہ بچوں کی جان لی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کم از کم 15-20 تو ہوں گے۔‘

اعداد و شمار کو جس طرح سے اکٹھا کیا گیا اس کے تحت مرنے والی بچیوں کی صحیح تعداد کا پتہ لگانا ناممکن ہے۔

لیکن سنہ 1995 میں ایک این جی او کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ان کا ذکر نمایاں طور پر کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ مذکورہ دائيوں کے علاوہ 30 دیگر دائیوں کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔ اگر رپورٹ کے اندازے درست ہیں تو ہر سال ایک ضلع میں ان 35 دائیوں کے ذریعے 1,000 سے زیادہ بچیوں کو قتل کیا جا رہا تھا۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت بہار میں پانچ لاکھ سے زیادہ دائیاں تھیں اور نوزائیدہ بچیوں کا قتل صرف بہار تک محدود نہیں تھا۔

دایا ہکیہ کا کہنا ہے کہ دائیوں کے لیے حکم عدولی کی گنجائش بالکل نہیں تھی۔

ہکیہ دیوی کہتی ہیں کہ ’خاندان والے کمرے کو بند کر دیتے اور لاٹھیاں لے کر ہمارے سر پر کھڑے ہو جاتے اور کہتے کہ ہماری پہلے ہی چار پانچ بیٹیاں ہیں۔ اس سے ہماری دولت ختم ہو جائے گی۔ جب ہمیں اپنی لڑکیوں کے لیے جہیز دینا پڑے گا تو ہم بھوکے مر جائیں گے۔ اب ایک اور لڑکی کی پیدائش ہوئی ہے۔ اسے مار ڈالو۔‘

انھوں نے مجھے بتایا کہ ’ہم کس سے شکایت کر سکتے تھے؟ ہم خوفزدہ تھے۔ اگر ہم پولیس کے پاس جاتے تو ہم مصیبت میں پڑ جاتے۔ اگر ہم بولتے تو لوگ ہمیں ڈراتے اور دھمکیاں دیتے۔‘

سینیئر صحافی امیتابھ پراشر
BBC
سینیئر صحافی امیتابھ پراشر نے دائیوں سے سنہ 1990 کی دہائی میں جو انٹرویوز کیے تھے وہ دیکھ رہے ہیں

انڈیا کے دیہی علاقوں میں دائی ایک روائتی کردار رہا ہے جس کی جڑیں انڈین معاشرے میں غربت اور ذات پات کی تلخ حقیقتوں سے جڑتی ہے۔ میں نے جن دائیوں کا انٹرویو کیا ان کا تعلق انڈیا میں ذات پات کی درجہ بندی میں نچلی اور پسماندہ ذاتوں سے تھا۔ دائی کا کام ان کے لیے ایک ایسا پیشہ تھا جو انھیں ماؤں اور دادیوں سے وراثت میں ملا تھا۔ وہ ایک ایسی دنیا میں رہتی تھیں جہاں طاقتور، اعلیٰ ذات کے خاندانوں کے حکم سے انکار ناقابل تصور تھا۔

کسی نوزائيدہ کو مارنے کے لیے دائی کو معاوضے کے طور پر ایک ساڑھی، اناج کی ایک بوری یا کچھ رقم دینے کا وعدہ کیا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات اس کی ادائیگی بھی نہیں ہوتی تھی۔ ایک لڑکے کی پیدائش پر انھیں تقریباً ایک ہزار روپے ملتے تھے جبکہ لڑکی کی پیدائش پر انھیں اس کی نصف کمائی ہوتی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ اس عدم توازن کی وجہ انڈیا میں بیٹیوں کو جہیز دینے کی رسم ہے۔ اگرچہ اس رواج کو ملک میں سنہ 1961 میں غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا، لیکن یہ 90 کی دہائی میں بھی رائج تھا اور حقیقتاً آج تک جاری ہے۔

لڑکیوں کے جہیز میں نقدی، زیورات، برتن وغیرہ میں سے کچھ بھی ہو سکتا ہے یا سب کچھ ہو سکتا ہے۔ لیکن بہت سے خاندانوں کے لیے یہ شادی کی شرط ہے۔ اس میں امیر یا غریب کی قید نہیں۔اور یہی وہ چیز ہے جو بہت سے لوگوں کے لیے اب بھی بیٹے کی پیدائش کو جشن اور بیٹی کی پیدائش کو بوجھ بناتی ہے۔

جن کا میں نے سنہ 1990 کی دہائی میں انٹرویو کیا تھا ان میں سے سیرو دیوی واحد دایہ ہیں جو آج بھی زندہ ہیں۔ انھوں اس سماجی طبقاتی تقسیم کی وضاحت سے تصویر کشی کی ہے۔

سیرو ایک بچے کے ساتھ
BBC
سیرو نے بچپن سے ہی ایک دائی کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا

’بیٹے کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی ہے اور بیٹی کو کم تر سمجھا جاتا ہے چاہے بیٹا اپنے والدین کا خیال رکھے یا نہ رکھے، سب لڑکا ہی چاہتے ہیں۔‘

بیٹوں کو ترجیح دینے کی بات انڈیا کے قومی سطح کے اعداد و شمار میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سنہ 2011 میں کی جانے والی آخری مردم شماری کے لحاظ سے ملک میں ہر 1,000 مردوں کے مقابلے میں 943 خواتین کا تناسب ریکارڈ کیا گیا۔ بہر حال یہ سنہ 1990 کی دہائی کے تناسب سے بہتر ہے کیونکہ سنہ 1991 کی مردم شماری میں یہ تناسب 1,000 مردوں پر 927 خواتین کا تھا۔

سبز ساڑھی میں انیلا کماری
BBC
سماجی کارکن انیلا کماری (بائيں سے دوسری) نے 1990 کی دہائی میں دائیوں کو ایک مختلف انداز کی طرف راغب کرنے کے لیے سیشنز کیے

جب میں نے سنہ 1996 میں دائیوں کی شہادتوں کی فلم بندی مکمل کی تب تک ان میں ایک چھوٹی سی خاموش تبدیلی شروع ہو چکی تھی۔ وہ دائیاں جنھوں نے پہلے بچیوں کو مار دینے کے احکامات پر عمل کیا تھا اب انھوں نے مزاحمت شروع کر دی تھی۔

اس تبدیلی کی ترغیب سماجی کارکن انیلا کماری کی جانب سے آئی تھی۔ انھوں نے کٹیہار کے آس پاس کے دیہاتوں میں خواتین کی حمایت کی، اور انھوں نے ان نومولود ہلاکتوں کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے خود کو وقفکردیا تھا۔

انیلہ کا طریقہ کار سادہ اور آسان تھا۔ وہ دائیوں سے پوچھتیں کہ ’کیا تم اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا کر سکتی ہو؟‘

ان کے سوال نے بظاہرانڈین معاشرے میں برسوں سے جاری منطق اور تردید کو ہلا کر رکھ دیا۔ دائیوں کو کمیونٹی گروپس کے ذریعے کچھ مالی مدد ملنے لگی اور آہستہ آہستہ بچیوں کے خلاف تشدد میں کمی آنے لگی۔

سنہ 2007 میں مجھ سے بات کرتے ہوئے سیرو نے اس تبدیلی کی وضاحت کی۔ ’اب، جو بھی مجھ سے (کسی نوزائیدہ کو) مارنے کے لیے کہتا ہے، میں ان سے کہتی ہوں دیکھو، یہ بچہ مجھے دے دو اور میں اسے انیلا میڈم کے پاس لے جاؤں گی۔‘

ان دائیوں نے کم از کم پانچ نوزائیدہ لڑکیوں کو ان خاندانوں سے بچایا جو انھیں قتل کرنا چاہتے تھے، یا انھیں چھوڑ چکے تھے۔ ایک بچی تو مر گئی لیکن انیلا نے باقی چار کو بہار کے دارالحکومت پٹنہ بھیجنے کا انتظام کیا جہاں انھیں گود لینے والوں کے حوالے کر دیا گیا۔

یہ کہانی گود لینے پر ختم ہو سکتی تھی لیکن میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ جو لڑکیاں گود لے لی گئیں ان کا کیا حال ہوا اور زندگی انھیں کہاں لے گئی۔

انیلہ نے بہت باریک بینی اور محنت سے یہ ریکارڈ اکٹھا کیا تھا لیکن ان کے پاس گود لینے کے بعد کے بارے میں تفصیلات نہیں تھیں۔

بی بی سی ورلڈ سروس کی ٹیم کے ساتھ کام کرتے ہوئے میرا رابطہ میدھا شیکر نامی ایک خاتون سے ہوا جو 90 کی دہائی میں بہار میں بچوں کے قتل پر تحقیق کر رہی تھیں جب انیلا اور دائیوں کے ذریعے بچائے گئے بچے ان کی این جی او میں آنا شروع ہوئے تھے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ میدھا اب بھی ایک نوجوان خاتون کے ساتھ رابطے میں تھیں جو ان کے خیال میں ان بچائے گئے بچوں میں سے ایک تھیں۔

انیلا نے مجھے بتایا کہ انھوں نے دائیوں کے ذریعے بچائی گئی تمام لڑکیوں کو ان کے نام سے پہلے ’کوسی‘ لفظ جوڑ دیا تھا، یہ بہار کے دریا کوسی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کیا گيا تھا۔ میدھا کو یاد آیا کہ مونیکا کو گود لینے سے پہلے اس کے نام کے آگے ’کوسی‘ شامل کیا گيا تھا۔

گود لینے والی ایجنسی ہمیں مونیکا کے ریکارڈ کو دیکھنے نہیں دے گی اس لیے ہم کبھی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ ان بچائی گئی لڑکیوں میں سے ایک ہے۔ لیکن پٹنہ میں اس کی ابتدا، اس کی اسی دور کی تاریخ پیدائش، اور ان کے نام کے ساتھ لگے ’کوسی‘ لفظ سب ایک ہی نتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ غالباً مونیکا ان پانچ بچیوں میں سے ایک ہیں جنھیں انیلا اور دائیوں نے 90 کی دہائی میں پیدائش کے وقت مرنے سے بچایا تھا۔

جب میں پٹنہ سے تقریباً 2,000 کلومیٹر (1,242 میل) دور پونے میں ان کے والدین کے گھر ان سے ملنے گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ خوش قسمت محسوس کرتی ہیں کہ انھیں ایک پیار کرنے والے خاندان نے گود لیا۔

مونیکا اپنے والد کے ساتھ جنھوں نے تین سال کی عمر میں انھیں گود لیا
BBC
مونیکا اپنے والد کے ساتھ جنھوں نے تین سال کی عمر میں انھیں گود لیا

مونیکا نے کہا کہ ’میرے خیال سے یہ ایک خوشحال زندگی ہے جو میں گزار رہی ہوں۔‘

مونیکا کو معلوم تھا کہ انھیں بہار سے گود لیا گیا ہے۔ لیکن ہم ان کے گود لینے کے حالات کے بارے میں مزید تفصیلات دینے کے قابل تھے۔

رواں سال کے شروع میں مونیکا نے انیلا اور سیرو سے ملنے کے لیے بہار کا سفر کیا۔ مونیکا نے خود کو انیلا اور دائیوں کی برسوں کی محنت کا نتیجہ سمجھا۔

'کوئی امتحان میں اچھا کرنے کے لیے بہت زیادہ تیاری کرتا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے۔ انھوں نے سخت محنت کی اور اب وہ اپنی محنت کے نتیجہ کو دیکھنے کے لیے بہت پرجوش ہیں۔۔۔ تو یقینی طور پر میں ان سے ملنا چاہوں گی۔‘

اتنے برسوں بعد مونیکا سے مل کر انیلا بہت خوش نظر آئیں۔ انیلا نے سیاہ اور مرون ساڑھی پہن رکھی ہے
BBC
اتنے برسوں بعد مونیکا سے مل کر انیلا بہت خوش نظر آئیں

مونیکا سے مل کر انیلا کی آنکھیں خوشی سے چھلک پڑیں۔ لیکن سیرو کا ردعمل مختلف لگا۔ انھوں نے زاروقطار روتے ہوئے مونیکا کو زور سے پکڑ لیا اور اس کے بالوں میں کنگھی کی۔

انھوں نے کہا کہ ’میں تمھاری جان بچانے کے لیے تمھیں (یتیم خانے) لے گئی تھی ۔۔۔ میری روح کو اب سکون مل گیا ہے۔‘

لیکن جب چند دنوں کے بعد میں نے سیرو سے ان کے ردعمل کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے مزید بتانے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں جو ہوا وہ ماضی کا حصہ ہے۔

لیکن اب بھی کچھ لوگ بچیوں کے خلاف ایک تعصب رکھتے ہیں۔

نوزائیدہ بچوں کے قتل کی رپورٹیں اب نسبتاً کم ہیں، لیکن سنہ 1994 میں جنسی بنیاد پر اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے باوجود اس بنیاد پر اسقاط حمل عام ہے۔

اگر کوئی بچے کی پیدائش پر شمالی ہند کے بعض حصوں میں گائے جانے والے لوک گیت جنھیں سوہرکہا جاتا ہے سنے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ گیت لڑکے کی پیدائش پر خوشی کے اظہار کے لیے مخصوص ہے۔

سنہ 2024 میں بھی یہ کوشش جاری ہے کہ مقامی گلوکار سوہر کے بول بدلیں تاکہ ان گیتوں اور ان کے بول میں لڑکی کی پیدائش کا بھی جشن ہو۔

جب ہم اپنی دستاویزی فلم بنا رہے تھے تو اسی دوران کٹیہار میں دو لاوارث بچیاں پائی گئیں۔ ایک جھاڑیوں میں ملی تھی تو دوسری سڑک کے کنارے اپنی پیدائش کے صرف چند گھنٹے بعد چھوڑ دی گئی تھی۔ ان میں سے ایک بعدازاں مر گئی جبکہ دوسری کو گود لینے کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔

جھاڑیوں میں ملنے لاوارث والی بچی
BBC
جب بی بی سی دستاویزی فلم بنا رہی تھی اس دوران کٹیہار میں جھاڑیوں میں ایک لاوارث بچی ملی تھی

مونیکا نے بہار سے پونے جانے سے قبل کٹیہار میں قائم سپیشل ایڈوپشن سینٹر میں اس بچے کی عیادت کی۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ اس احساس سے پریشان ہیں کہ اگرچہ بچیوں کے قتل میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن نوزائدہ بچیوں کو پیدائش کے بعد پھینک دینے یا چھوڑ دینے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

’یہ ایک گھن چکر ہے۔۔۔ میں کچھ سال قبل خود کو اس حال میں دیکھ سکتی ہو اور آج پھر میرے جیسی ایک اور لڑکی ہے۔‘

لیکن میرے جیسی خوش کن مثالیں بھی ہیں۔اس بچی کو شمال مشرقی ریاست آسام میں ایک جوڑے نے گود لیا ہے۔ انھوں نے اس کا نام ایدھا رکھا ہے جس کا مطلب خوشی ہوتا ہے۔

گورو اور ان کی اہلیہ نے اس بچی کو گود لیا ہے
BBC
لاوارث چھوڑ دی جانے والی بچی کو آسام کے ایک جوڑے نے گود لیا ہے اور اس کا نام ایدھا رکھا ہے

اس بچی کو گود لینے والے والد انڈین فضائیہ میں ایک افسر ہیں جن کا نامگؤریوہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے اس کی تصویر دیکھی تو ہم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ایک بار چھوڑ دی جانے والے بچی کو دو بار نہیں چھوڑا جا سکتا۔‘

ہر چند ہفتوں بعدگؤریو مجھے ایدھا کی طرح طرح کی حرکتوں والی تازہ ترین ویڈیوز بھیجتے ہیں۔ میں کبھی کبھی انھیں مونیکا کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔

جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ اس کہانی پر گزارے 30 سال صرف ماضی کے بارے میں نہیں تھے۔ یہ بے چین کرنے والی سچائیوں کا مقابلہ کرنے کے بارے میں تھے۔ ماضی کو ختم نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

اور اس تبدیلی میں ایک امید کی کرن ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US