امروہہ میں مسلمان طالبعلم کے ’نان ویج‘ لنچ کا تنازعہ طول کیوں پکڑتا جا رہا ہے؟

سکول کے پرنسپل کے سات سالہ طالبعلم پر سنگین الزامات، بچے کی ماں کی پرنسپل سے تکرار اور پرنسپل کی بچے کو سکول سے نکالنے کی دھمکیاں، یہ مناظر انڈین ریاست اتر پردیش کے مغربی ضلعے امروہہ کے ایک پرائیویٹ سکول کی وائرل ہونے والی ان دو ویڈیوز کے ہیں جنھوں نے ضلع میں ایک بڑے تنازعے کو جنم دیا ہے۔
صابرہ بیگم
BBC
صابرہ بیگم کا کہنا ہے کہ وہ انصاف کے لیے سپریم کورٹ جائیں گی

سکول کے پرنسپل کے سات سالہ طالبعلم پر سنگین الزامات، بچے کی ماں کی پرنسپل سے تکرار اور پرنسپل کی بچے کو سکول سے نکالنے کی دھمکیاں، یہ مناظر انڈین ریاست اتر پردیش کے مغربی ضلعے امروہہ کے ایک پرائیویٹ سکول کی وائرل ہونے والی ان دو ویڈیوز کے ہیں جنھوں نے ضلع میں ایک بڑے تنازعے کو جنم دیا ہے۔

وائرل ویڈیو میں، ہلٹن سینیئر سیکنڈری سکول، امروہہ کے پرنسپل اونیش شرما سات سالہ طالب علم پر ’سکول کو بم سے اڑانے، ٹفن میں نان ویجیٹیرئن کھانا لانے اور مندروں کو منہدم کرنے کا منصوبہ بنانے‘ کے الزامات لگاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

مذکورہ طالب علم کے اہل خانہ نے ان الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکول میں ان کے بچے کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔

ان الزامات اور جوابی الزامات کے درمیان ضلعی مجسٹریٹ کے حکم پر تشکیل دی گئی تین رکنی کمیٹی نے اس تنازعے پر اپنی رپورٹ بھی تیار کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پرنسپل نے طالب علم اور اس کی والدہ کے لیے نامناسب زبان استعمال کی۔

لیکن اب تک انتظامیہ کی جانب سے پرنسپل یا سکول کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی۔

امروہہ کے ڈسٹرکٹ سکول انسپکٹر بی پی سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ سکول کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا ہے جبکہ سکول کی انتظامیہ نے پرنسپل سے بھی اس معاملے پر سات دن میں جواب طلب کیا ہے۔

ہلٹن سکول کے بانی آنجہانی منگل سنگھ سینی بی جے پی کی حکومت میں وزیر تھے جبکہ ان کے بیٹے انوراگ سینی نے کچھ سال قبل سماج وادی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

اب جہاں اس معاملے پر سکول پر سوال اٹھ رہے ہیں، انوراگ سینی نے نو ستمبر کو دوبارہ بی جے پی کے رکن بن گئے ہیں۔

ہلٹن کانونٹ سکول
BBC
ہلٹن کانونٹ سکول کے پرنسپل پر مذہبی بنیادوں پر طالب علم کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام ہے۔

ماں کیا کہتی ہے؟

صابرہ بیگم کے تین بچے ہلٹن سینیئر سیکنڈری سکول میں پڑھتے ہیں۔ بڑا بیٹا چھٹی کلاس میں ہے، وائرل ویڈیو میں نظر آنے والا بیٹا تیسری جماعت میں ہے اور سب سے چھوٹا بیٹا پہلی جماعت کا طالبعلم ہے۔

اس واقعے کے بعد ان تینوں بچوں نے سکول جانا چھوڑ دیا ہے۔

صابرہ بیگم بتاتی ہیں کہ کلاس میں ریکارڈ کی گئی ویڈیو دو ستمبر کی ہے، جبکہ پرنسپل اور ان کے درمیان جھگڑے کی ویڈیو اگلی صبح یعنی تین ستمبر کی ہے۔

صابرہ کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے کلاس میں پرنسپل کی اپنے بچے سے پوچھ گچھ کی ویڈیو دیکھی تو ان کا دل ڈوب گیا۔ ’ایک بچے پر ایسے الزامات کیسے لگ سکتے ہیں؟ اتنے چھوٹے بچے سے کوئی ایسے سوال کیسے کر سکتا ہے؟‘

ان کا کہنا ہے، ’اس دن جب میں بچے کو لینے سکول گئی تو اس کا چہرہ سرخ تھا۔ وہ کچھ نہیں بتا رہا تھا، اسے ایک کمرے میں بند کر رکھا تھا۔ جب میں نے اس کے استاد سے بات کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔

صابرہ کے مطابق ’جب میں نے پرنسپل سے اپنے بچے کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے گالم گلوچ کی اور میرے بچے کا نام سکول سے کاٹنے کی دھمکی دی۔‘

صابرہ نے سوال کیا کہ ’وہ کہہ رہے ہیں کہ بچہ سکول میں بم رکھے گا۔ وہ ہندو بچوں کو مسلمان بنانے کی بات کرتا ہے۔ وہ نان ویج کھانا کھاتا ہے۔ یہ لوگ سات سال کے بچے کے بارے میں ایسی بات کیسے کر سکتے ہیں؟‘

صابرہ بیگم
BBC
صابرہ بیگم کے تین بچے ہلٹن سکول میں پڑھتے ہیں۔

صابرہ نے خود 12ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی اور اب بچے بڑے ہونے کے بعد وہ خود بھی دوبارہ پڑھ رہی ہیں۔ وہ نرس بننے کی تیاری کر رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ان کا بڑا بیٹا ڈاکٹر بنے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرا بیٹا بڑا ہو کر ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔ اس لیے ہم تینوں بچوں کو اتنے مہنگے انگریزی سکول میں بھیج رہے ہیں۔ ہمارے لیے فیس ادا کرنا اتنا آسان نہیں، پھر بھی ہم ہمت کر رہے ہیں۔ لیکن اب اس سکول میں میرے بچے پر ایسے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ میرے بچوں کی پڑھائی رک گئی ہے۔‘

صابرہ کو یہ بھی لگتا ہے کہ ان کے بچے کے ساتھ ایسا سلوک اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ مسلمان ہے۔ ’اگر یہ ہندو- مسلم کا معاملہ نہیں ہے تو پرنسپل ایسی باتیں کیوں کہہ رہے ہیں۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ وہ خود ہندو- مسلم کر رہے ہیں۔‘

پرنسپل کیا کہتے ہیں؟

سکول کے پرنسپل اونیش شرما سے جب پوچھا گیا کہ وائرل ویڈیو میں وہ بچے کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کرتے نظر آ رہے ہیں اس کے بارے میں اب وہ کیا سوچتے ہیں؟

اس پر انھوں نے کہا کہ ’دکھ اور افسوس ہے لیکن جو ویڈیو میں نظر آ رہا ہے وہ پورا واقعہ نہیں ہے۔ وائرل ویڈیو میں ترمیم اور تدوین ہوئی ہے۔ میں نے کبھی بھی بچے کو دہشت گرد نہیں کہا۔‘

اونیش شرما نے بچے کے اہلخانہ کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ مذہب کی بنیاد پر طلبہ میں امتیاز نہیں کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں ہندو ہوں لیکن میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتا بلکہ محبت کا جذبہ رکھتا ہوں۔ اگر میرے سکول میں کسی قسم کا امتیازی سلوک ہوتا تو اس کے 40 فیصد بچے مسلمان نہیں ہوتے۔‘

خیال رہے کہ جس علاقے میں مذکورہ سکول واقع ہے وہ مسلم اکثریتی ہے۔ اونیش شرما کا دعویٰ ہے کہ اس سکول پر اس طرح کے الزامات پہلے کبھی نہیں لگائے گئے اور باقی ماندہ مسلم بچوں کے اہل خانہ سکول سے مطمئن ہیں۔

سکول کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ایک درجن سے زائد مسلم والدین انکوائری کمیٹی کے سامنے بھی پیش ہوئے اور ان کا کہنا تھا کہ ان کے بچوں کے ساتھ سکول میں کبھی زیادتی نہیں ہوئی۔

اونیش شرما
BBC
پرنسپل اونیش شرما نے امتیازی سلوک کے الزامات کو مسترد کیا ہے

تنازعے کی وجہ بتاتے ہوئے اونیش شرما کا کہنا ہے کہ ’بچے کی کلاس کے کئی طالب علموں کے گھر والوں نے شکایت کی تھی کہ وہ سکول میں نان ویج ٹفن لاتا ہے اور کلاس کے بچوں کو مسلمان بنانے کی بات کرتا ہے۔‘

’ان شکایات کی تحقیقات کے لیے، میں کلاس میں گیا اور دوسرے بچوں سے ان الزامات کے بارے میں پوچھا تو کلاس میں زیادہ تر بچوں کا کہنا تھا کہ یہ طالب علم اس طرح کرتا ہے۔‘

اونیش شرما کا کہنا ہے کہ اگرچہ سی بی ایس ای یا کسی بھی سٹیٹ بورڈ یا یونیورسٹی کے قوانین کے تحت اس بات پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ کس قسم کا کھانا لایا جا سکتا ہے، لیکن ہلٹن سکول کے اپنے اصول و ضوابط کے مطابق وہاں نان ویج کھانا لانے پر پابندی ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’بچہ گھر میں کیا کھاتا ہے اس کی مرضی ہوتی ہے، لیکن ہمارے سکول کے اپنے اصول ہیں، جنھیں خاندان نے قبول کیا ہے۔‘

تاہم اونیش شرما کے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے طالب علم کی والدہ صابرہ بیگم کا کہنا ہے کہ ان کا بچہ کبھی بھی نان ویج کھانا سکول نہیں لے گیا۔

واقعہ پر اہل علاقہ کا کیا کہنا ہے؟

اس معاملے میں ملوث طالب علم کا گھر سکول سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر دور ہے۔ اس تین منزلہ مکان کے باہر ہمیں کئی مقامی رہنما ملے جبکہ بچے کی والدہ صابرہ بیگم گھر کی چھت پر صحافیوں اور مقامی رہنماؤں میں گھری ہوئی تھیں۔

کئی رہنما بچے سے ملنا چاہتے تھے اور اس صورتحال میں وہ سات سال کا بچہ ماں کی گود میں چھپ کر رونے لگا۔ اس کی ماں اسے تسلی دیتے ہوئے کہنے لگیں ’کچھ نہیں ہوگا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘

اس دوران، جب مقامی رہنماؤں نے بار بار بچے سے سوال کیے تو وہ صرف اتنا کہہ کر چپ ہو گیا کہ ’میں نے باری (سویا بین) بریانی لی تھی۔‘ اس پر یہ مقامی رہنما ماں اور بچے کے ساتھ تصویریں کھنچوا کر یہ کہتے ہوئے چل دیے کہ 'ڈرو نہیں، ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔‘

اس واقعے پر مقامی مسلم کمیونٹی میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ دو نوجوان مسلمان، جو اس خاندان کا حال پوچھنے آئے تھے، کہتے ہیں، ’امروہہ مسلم اکثریتی شہر ہے۔ اگر یہاں کسی مسلمان بچے کو اس قسم کی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں مسلمانوں کی آبادی کم ہو وہاں کی کیا صورتحال ہو گی۔‘

ان نوجوانوں کا کہنا ہے کہ امروہہ کے سکول میں ایک بچے کے ساتھ ہونے والی یہ ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی۔

سنجے ہیگڑے
BBC
سنجے ہیگڑے کا استدلال ہے کہ جو کچھ ہوا وہ نہ تو بچے کے مفاد میں ہے اور نہ ہی سکول کے مفاد میں

قانون کیا کہتا ہے؟

سینیئر وکیل سنجے ہیگڑے کہتے ہیں کہ ’سپریم کورٹ کہتی ہے کہ آدمی کیا پہنتا ہے، کیا کھاتا ہے، یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ بچے کے بھی یہی حقوق ہیں۔ یہاں تک کہ اگر سکول کا اصول ہے کہ یہاں نان ویج نہیں لایا جا سکتا، تب بھی اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔‘

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’سکول میں اگر کوئی قاعدہ ہے تو اس میں ایک اصول ہونا چاہیے کہ اگر نان ویج کھانا لایا جائے تو اس کے لیے کچھ سزا، کچھ جرمانہ، لیکن سکول سے نکال دیا جانا ایک داغ کی طرح ہے۔ یہ بچے کی نفسیاتی نشوونما کے لیے اچھا نہیں ہے۔‘

سنجے ہیگڑے کا استدلال ہے کہ جو کچھ ہوا وہ نہ تو بچے کے مفاد میں ہے اور نہ ہی سکول کے مفاد میں۔ ’اس طرح کے الزامات لگانا سراسر ناانصافی ہے۔ اس سے سکول کی مخلوط آبادی میں ہم آہنگی خراب ہوتی ہے۔ اس پر ایکشن لیا جانا چاہیے۔‘

امروہہ ضلع میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی

امروہہ مخلوط آبادی والا شہر ہے اور یہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے امروہہ کے جے ایس ہندو کالج کے ریٹائرڈ پروفیسر مہیش شرن کہتے ہیں کہ اگرچہ آس پاس کے اضلاع میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں مگر امروہہ ہمیشہ پرامن رہا ہے۔

مہیش شرن کہتے ہیں کہ ’ہر بچہ استاد کے لیے برابر ہے، چاہے وہ ہندو ہو، مسلمان ہو یا کوئی اور۔ اس طرح کے واقعات ناشائستہ ہیں۔ یہ بہت سنگین واقعہ ہے، مقامی انتظامیہ کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ایسے اقدامات کرنے چاہییں کہ مستقبل میں کسی بھی سکول میں کسی دوسرے بچے کے ساتھ ایسا نہ ہو۔

مہیش شرن، جے ایس ہندو کالج، امروہہ سے ریٹائرڈ پروفیسر۔
BBC
مہیش سرن کے مطابق انتظامیہ کو اس معاملے پر فوری کارروائی کرنی چاہیے

سیاسی رنگ

اس معاملے پر سیاست بھی تیز ہوتی جا رہی ہے۔ ایم پی چندر شیکھر آزاد کی پارٹی کے کارکنوں نے ضلع ہیڈکوارٹر پر مظاہرہ کیا اور پرنسپل کو برخاست کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایس ڈی ایم کو ایک میمورنڈم بھی پیش کیا۔

مذکورہ طالب علم سے ملنے کے لیے آنے والے ایک مسلم رہنما کا کہنا تھا کہ ’ان کی جماعت اس واقعے کے حوالے سے صحیح سطح پر سوالات اٹھائے گی۔‘

متاثرہ طالب علم کے اہل خانہ نے پولیس سے شکایت تو کی ہے لیکن تاحال کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ ایس ایس پی کنور انوپم سنگھ نے اسے محکمہ تعلیم کا معاملہ قرار دیتے ہوئے تبصرہ کرنے سے گریز کیا جبکہ ڈسٹرکٹ سکول انسپکٹر بی وی سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ہم نے تحقیقات کی ہیں اور اعلیٰ حکام کو رپورٹ پیش کر دی ہے، یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ مزید کارروائی کرتے ہیں۔‘

بی بی سی نے نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس سے پوچھا کہ کیا کمیشن اس معاملے کا نوٹس لے رہا ہے تاہم ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

معراج حسین
BBC
معراج حسین کے مطابق اقلیتی کمیشن اور چلڈرن کمیشن کو بھی اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

والنٹیئرز اگینسٹ ہیٹ کے کنوینر ڈاکٹر معراج حسین کا کہنا ہے کہ ’اب تک اس معاملے میں ایف آئی آر درج کر لی جانی چاہیے تھی اور پرنسپل کو گرفتار کیا جانا چاہیے تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’پرنسپل کوعدالت میں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع مل جاتا، لیکن انتظامیہ نے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ اقلیتی کمیشن اور چلڈرن کمیشن کو بھی اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘

معراج حسین کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ بچہ مسلمان نہ ہوتا اور ٹیچر ہندو نہ ہوتا تو اتر پردیش حکومت اب تک اس معاملے میں کارروائی کر چکی ہوتی۔‘

انھوں نے کہا ’یہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے، یہ طالب علم کے حقوق کا سوال ہے، لیکن آج تک کوئی بھی طالب علم کے حقوق کے تحفظ اور متعلقہ استاد کو سزا دینے کے لیے آگے نہیں آیا۔‘

بچے کی والدہ صابرہ بیگم اب قانونی جنگ کی تیاری کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انتظامیہ نے میرے بچے کے ساتھ انصاف نہیں کیا تو میں عدالت جاؤں گی، اگر ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ بھی جاؤں گی۔

’یہ اب صرف میرے بچے کا سوال نہیں ہے، بلکہ ہر اس بچے کا سوال ہے جو سکول جاتا ہے۔‘

اس سب صورتحال میں وہ سات سالہ طالب علم صدمے میں ہے اور بار بار پوچھتا ہے کہ اس کی پڑھائی کب شروع ہو گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US