بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی تقاریر پر پابندی: کیا وہ دوبارہ سیاست میں متحرک ہو رہی ہیں؟

انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مصری ایک ایسے وقت میں بنگلہ دیش کا دورہ کرنے جا رہے ہیں جب وہاں سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی 'نفرت انگیز تقریر' پر پابندی عائد کی گئی ہے اور گذشتہ ہفتے انڈین شہر اگرتلہ میں بنگلہ دیش کے سب ہائی کمیشن کی عمارت میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی جس پر سخت ردعمل دیا گیا۔
شیخ حسینہ
Getty Images

انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مصری ایک ایسے وقت میں بنگلہ دیش کا دورہ کرنے جا رہے ہیں جب وہاں سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی 'نفرت انگیز تقریر' پر پابندی عائد کی گئی ہے اور گذشتہ ہفتے انڈین شہر اگرتلہ میں بنگلہ دیش کے سب ہائی کمیشن کی عمارت میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی جس پر سخت ردعمل دیا گیا۔

جمعے کو انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ وکرم مصری اس دورے کے دوران کئی ملاقاتیں کریں گے۔

5 اگست کو حکومت گِرنے کے بعد سے شیخ حسینہ انڈیا میں مقیم ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں محمد یونس کی عبوری حکومت قائم ہے۔

شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد انڈیا نے کئی بار بنگلہ دیش میں ہندوؤں سمیت دیگر اقلیتوں کے تحفظ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم بنگلہ دیش نے ان تحفظات کو مسترد کیا ہے، اور یہاں تک کہا ہے کہ انڈیا اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔

رندھیر جیسوال نے جمعے کو وزارت خارجہ کی پریس کانفرنس میں کہا کہ '9 دسمبر کو سیکریٹری خارجہ بنگلہ دیش جائیں گے اور اپنے ہم منصب سے ملاقات کریں گے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی ملاقاتیں ہوں گی۔'

سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے طلبہ کے احتجاج اور اپنی حکومت جانے کے بعد قریب چار ماہ تک انڈیا میں رہتے ہوئے خاموشی اختیار کی۔ مگر اب ان کا حالیہ سیاسی بیان توجہ حاصل کر رہا ہے۔

گذشتہ ہفتے انھوں نے نیو یارک میں اپنی جماعت عوامی لیگ کے پروگرام میں آن لائن شرکت کی۔ وہ آٹھ دسمبر کو لندن کے پروگرام میں بھی آن لائن شرکت کا ارادہ رکھتی ہیں۔

شیخ حسینہ نے اس سے قبل دو یورپی ممالک میں منعقد ہونے والے پروگرامز میں بھی گفتگو کی تھی۔

دوسری طرف بنگلہ دیش کی نیشنلسٹ پارٹی کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ ایسے بیانات دے کر دوبارہ سیاست میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مگر کیا وہ واقعی دوبارہ بنگلہ دیش کی سیاست میں فعال کردار نبھائیں گی؟

سیاسی طور پر متحرک

بعض مبصرین نے شیخ حسینہ کے بیانات کو ایک بار پھر سیاسی طور پر متحرک ہونے کے مترادف قرار دیا ہے۔

تاہم عوامی لیگ کے سیکریٹری خالد محمود چوہدری نے کہا کہ 'عوامی لیگ ہمیشہ سے سیاست میں سرگرم رہی ہے۔'

شیخ حسینہ نے نیو یارک میں تقریب کے دوران کہا تھا کہ بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں اور ان کی بہن شیخ ریحانہ کو قتل کرنے کی سازش تیار کی گئی تھی۔

خالد محمود چوہدری نے کہا کہ 'شیخ حسینہ جو کچھ بھی کہتی ہیں وہ ملک کے مفاد میں کہتی ہیں۔ ملک اب شرپسندوں کے ہاتھوں میں ہے۔ عوامی لیگ کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی سلامتی اور لوگوں کو تحفظ کا خیال رکھے۔ عوامی لیگ ملک کی تعمیر میں شراکت دار رہی ہے۔'

شیخ حسینہ
BBC
شیخ حسینہ نیویارک سے لائیو خطاب کر رہی ہیں

دریں اثنا جمعرات کو بنگلہ دیش کے سرکاری ادارے 'انٹرنیشنل کریمنل ٹریبونل' (آئی سی ٹی بنگلہ دیش) نے نیویارک کے ایک پروگرام میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جانب سے دی گئی تقریر پر پابندی لگا دی ہے۔ عدالت نے بنگلہ دیش ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹری کمیشن (بی ٹی آر سی) کو حکم دیا کہ شیخ حسینہ کے تمام ’نفرت انگیز بیانات‘ کو جلد از جلد تمام میڈیا سے ہٹا دیا جائے۔

آئی سی سی پی آر کے مطابق قومی سلامتی کے مفاد میں بعض معاملات میں پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔

مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ عوامی لیگ کی سابقہ حکومت کے دوران خالدہ ضیا کی سیاسی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کے قائم مقام صدر طارق رحمان کے ہر قسم کے بیانات پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ تاہم ہائی کورٹ نے رواں برس اگست میں اس حکم کو کالعدم کر دیا تھا۔

قابل ذکر امر یہ ہے کہ طارق رحمان بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کے بیٹے ہیں۔ بنگلہ دیش کی سیاست میں خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ ایک عرصے سے حریف ہیں۔

دوسری جانب محمود چوہدری نے شیخ حسینہ کی تقاریر پر پابندی کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے 'آزادی اظہار کی خلاف ورزی' قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ عوامی لیگ کو اپنے قیام کے بعد سے اس قسم کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

شیخ حسینہ کی تقریر پر ردعمل

عوامی لیگ کا کہنا ہے کہ 'وہ تمام مشکل حالات کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرے گی۔'

لیکن مصنف اور محقق محی الدین احمد کہتے ہیں کہ 'شیخ حسینہ یا ان کی عوامی لیگ پارٹی کے رہنما جو کچھ کہہ رہے ہیں اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔'

بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حریف جماعت بی این پی کی قائمہ کمیٹی کے رکن صلاح الدین احمد نے بی بی سی بنگلہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'شیخ حسینہ جو کچھ کہہ رہی ہیں وہ بنگلہ دیش کی سیاست کے لیے نفرت انگیز تقریر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دے رہی ہیں۔'

صلاح الدین احمد کے مطابق شیخ حسینہ اس طرح کے بیانات کے ذریعے سیاست میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 'ان کے بیانات بنگلہ دیش کے عوام کے مفادات کے خلاف ہیں اور بنگلہ دیش کی آزادی اور استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ ہم اسے سیاست نہیں کہہ سکتے۔'

صلاح الدین احمد نے شیخ حسینہ کی مبینہ ’نفرت انگیز تقریر‘ کی اشاعت پر پابندی کے عدالتی حکم کو 'درست' اور 'قابل تائید' قرار دیا ہے۔

ملک کی دیگر جماعتوں کے سیاسی اتحاد عوامی یکجہتی موومنٹ کے چیف کنوینر جنید ساقی نے کہا ہے کہ 'گذشتہ جولائی اگست میں ان کی حکومت نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کی۔ ان کے پاس ملک میں ہلاکتیں کرنے اورفرار ہونے کے بعد سیاست کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اس واقعے کے بعد شیخ حسینہ اور ان کی پارٹی چاہے کچھ بھی کر لے، وہ اپنی باتوں سے بنگلہ دیش کے عوام کو گمراہ نہیں کر سکیں گی۔ کیونکہ ان کے تمام راز افشا ہو چکے ہیں۔'

جنید ساقی الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ 'ہندو برادری پر حملوں کو اکسا رہی ہیں۔'

انڈیا بنگلہ دیش
Getty Images

شیخ حسینہ اور انڈیا بنگلہ دیش تعلقات

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں خارجہ امور کے مشیر توحید حسین شیخ حسینہ کا انڈیا جانا اور پھر مختلف مواقع پر بیان دینے کو درست نہیں سمجھتے۔

عہدہ سنبھالنے کے چند دنوں بعد توحید حسین نے انڈین ہائی کمشنر سے کہا تھا کہ شیخ حسینہ انڈیا میں بیٹھ کر سیاسی بیانات نہ دیں۔

بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی کے بعد کے ابتدائی دنوں میں شیخ حسینہ کو انڈیا سے کسی موقع پر براہ راست تقریر کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، مگر انھوں نے وہاں سے وقتاً فوقتاً دو تحریری بیانات جاری کیے تھے۔ اور اب پھر نیویارک میں آن لائن منعقد ہونے والے پروگرام میں شریک ہوئی ہیں۔

بی بی سی بنگلہ نے توحید حسین اور کئی سرکاری اہلکاروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ شیخ حسینہ کی جانب سے حالیہ دنوں میں دیے جانے والے بیانات کے بارے میں حکومت کا موقف معلوم کیا جا سکے۔

بنگلہ دیش کی سیاسی جماعتوں کا مطالعہ کرنے والے مصنف اور تجزیہ کار محی الدین احمد کہتے ہیں کہ 'بیرون ملک بیٹھے کچھ لوگ محفوظ پناہ گاہ سے بنگلہ دیش کے بارے میں یہ مہم چلا رہے ہیں۔ یہ سب انڈیا کا لکھا سکرپٹ ہے۔'

شیخ حسینہ کو اس سکرپٹ کا صرف ایک حصہ قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'انڈیا کی تشویش یہ ہے کہ اسے جو عسکری اور اقتصادی فائدہ مل رہا تھا، وہ اب تبدیل ہو رہا ہے۔'

لیکن اگر شیخ حسینہ کا بیان کسی سکرپٹ کا حصہ ہے تو بنگلہ دیش اسے روکنے کے لیے کیا کر سکتا ہے؟

محی الدین احمدکا کہنا ہے کہ 'اگر وہ (عبوری حکومت) جواب نہیں دیتے ہیں تو یہ موجودہ سیاسی جماعتوں کے لیے ایک چیلنج ہو گا، اگر وہ اس قابل ہیں تو اس کا جواب جوابی پروپیگنڈے سے دیں گے، اگر ان میں یہ صلاحیت نہیں ہے تو وہ کیسی سیاست کرتے ہیں؟'

وہ کہتے ہیں کہ 'یعنی جو سیاسی جماعتیں عوامی لیگ کی مخالف ہیں ان کی بھی بیرون ملک شاخیں ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ جماعتیں اس پروپیگنڈے پر کیا کہتی ہیں؟‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر انڈیا بنگلہ دیش کی طرف ’جارحانہ رویہ‘ اپناتا ہے تو اسے مستقبل میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow