دمشق پر قبضے کا دعویٰ کرنے والا عسکریت پسند گروہ ’ہیئت تحریر الشام‘ جو ماضی میں القاعدہ کا اتحادی تھا

شام میں باغی فورسز نے ملک کے دارالحکومت دمشق پر قبضے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک تاریک دور کا خاتمہ ہوا اور یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ اب سے کچھ دیر قبل باغی گروہ ہیئت تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی کا کہنا ہے کہ اقتدار کی باضابطہ منتقلی تک عوامی ادارے وزیرِ اعظم محمد الجلالی کے ماتحت کام کرتے رہیں گے۔
Syria
Getty Images

شام میں باغی فورسز ملک کے دارالحکومت دمشق میں داخل ہو گئی ہیں اور یہ اطلاعات بھی ہیں صدر بشارالاسد طیارے میں سوار ہو کر کسی اور ملک منتقل ہو چکے ہیں۔ باغی فورسز نے دمشق پر قبضے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک تاریک دور کا خاتمہ ہوا اور یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔

باغیوں کے دارالحکومت میں داخل ہونے پر بشارالاسد کی افواج نے یا تو اپنی پوسٹیں چھوڑ دیں یا پھر وہ ان باغیوں کے ساتھ ہی مل گئیں۔

ٹی وی پر کیے جانے والے ایک اعلان میں گروپ نے کہا کہ ’بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا گیا ہے اور شہر کو آزاد کرا لیا گیا ہے۔‘ اس گروپ نے کہا ہے کہ ’تمام شامیوں اور تمام مکاتب فکر کا آزاد اور خودمختار شام زندہ باد۔‘

اب سے کچھ دیر قبل باغی گروہ ہیئت تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی کا کہنا ہے کہ اقتدار کی باضابطہ منتقلی تک عوامی ادارے وزیرِ اعظم محمد الجلالی کے ماتحت کام کرتے رہیں گے۔

باغیوں کی جانب سے صدر بشارالاسد کی شام سے فرار ہونے کے دعوے کے بعد وزیرِ اعظم محمد الجلالی نے اعلان کیا ہے کہ عوام جس کو بھی چنیں گے وہ اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔

شام کے دو سینیئر فوجی حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ صدر بشار الاسد طیارے میں سوار ہو کر دمشق سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔

ابو محمد الجولانی کی قیادت میں نومبر کے آخر میں حلب پر اچانک قبضے کے ساتھ شروع ہونی والی کارروائیوں کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے دو ہفتوں سے بھی کم عرصے میں حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے۔

Sryian rebels
Reuters

دمشق شہر پر تازہ حملے ہیئت تحریر الشام کی قیادت میں ہوئے ہیں۔ اس سے قبل یہ گروپ ملک کے دوسرے بڑے شہر حلب اور تیسرے بڑے شہر حمص کے اکثریتی علاقے پر بھی قبضہ کر چکا ہے۔

سنہ 2016 میں صدر بشارالاسد کی افواج نے حلب سے باغیوں کو علاقہ بدر کر دیا تھا اور اس کے بعد سے یہاں پر کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا تھا۔

سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کےمطابق گذشتہ ہفتے شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک 111 عام شہریوں سمیت 820 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

باغی کمانڈر حسن عبدالغنی کا کہنا ہے کہ شام کی بدنامِ زمانہ صیدنایا جیل سے تقریباً ساڑھے تین ہزار قیدیوں کو رہا کروایا جا چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق باغیوں کی کارروائی کے نتیجے میں اب تک کم از کم تین لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔

یاد رہے سنہ 2011 میں اس ملک میں جمہوریت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

شام
Getty Images
سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق جمعے کو حلب میں روس نے 23 فضائی حملے کیے تھے

اس وقت صدر بشارالاسد کے مخالفین بشمول جہادی گروہ نے اس خانہ جنگی کا فائدہ اُٹھایا تھا اور ملک کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

تاہم بعد میں شامی حکومت نے روس، ایراناور دیگر اتحادیوں کی مدد سے تقریباً تمام علاقوں کا کنٹرول واپس لے لیا تھا۔

صرف ادلب وہ واحد علاقہ تھا جس کا کنٹرول ہیئت تحریر الشام کے پاس تھا۔ اس صوبے میں کچھ علاقوں میں ترکی کے حمایت یافتہ جنگجو بھی موجود ہیں۔

دمشق پر حملہ کرنے والے باغی کون ہیں؟

دمشق پر تازہ حملے کرنے والے گروپ ہیئت تحریر الشام کا شامی تنازع میں ایک عرصے سے کردار رہا ہے۔ اقوام متحدہ، امریکہ، ترکی اور دیگر کئی ممالک نے ایچ ٹی ایس کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔

ہیئت تحریر الشام کا وجود سنہ 2011 میں جبهة النصرہ کے نام سے سامنے آیا تھا، جو کہ القاعدہ سے منسلک ایک گروہ تھا۔

نام نہاد دولت اسلامیہ کے سابق سربراہ ابو بکر البغدادی کا بھی اس گروہ کو بنانے میں کردار تھا۔

اس گروہ کو شام میں صدر بشارالاسد کا سب سے خطرناک ترین مخالف سمجھا جاتا تھا۔

سنہ 2016 میں جبهة النصرہ کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے قطع تعلق کر لیا اور اس تنظیم کو تحلیل کرکے دیگر گروہوں سے اتحاد کر کے ہیئت تحریر الشام کی بنیاد رکھ دی۔

القاعدہ سے تعلق توڑنے کے بعد ہیئت تحریر الشام کا مقصد دنیا میں خلافت قائم کرنا نہیں بلکہ شام میں بنیاد پرست مذہبی حکومت قائم کرنا ہے۔

’ایران کو دھچکا‘

گذشتہ چار برسوں میں ایسا لگ رہا تھا جیسے شام میں جنگ اب ختم ہو گئی ہے اور صدر بشار الاسد کی حکومت ملک کے بڑے حصوں پر کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

بشار الاسد کی اس فتح کے پیچھے روسی فضائیہ اور اہم اتحادی ایران کی عسکری قوت کا بھی ہاتھ تھا۔

دوسری جانب ایران یہ ماننے کو تیار نہیں کہ حلب کا کنٹرول شامی حکومت کے ہاتھ سے چلا گیا ہے۔

ایرانی نیوز ایجنسی اِرنا کے مطابق لبنان میں ایرانی سفیر مجتبیٰ امانی کا کہنا ہے کہ حلب پر ’دہشتگردوں کے قبضے‘ کی غلط افواہیں ’سائبر آرمی‘ کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہیں۔

مجتبیٰ امانی کا کہنا تھا کہ ’اب شامی حکومت مضبوط ہے اور روسی حکومت بھی شام کا دفاع کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ مزاحمتی محاذ اور ایران شامی حکومت اور اس کے عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔‘

شام
Getty Images
بشار الاسد کی اس فتح کے پیچھے روسی فضائیہ اور اہم اتحادی ایران کی عسکری قوت کا بھی ہاتھ تھا

لیکن دوسری جانب عرب میڈیا حلب میں باغی جنگجوؤں کی پیش قدمی کو ’ایران کے لیے ایک دھچکا‘ قرار دے رہا ہے۔

ممتاز سعودی لکھاری مشاری التھیدی نے عرب اخبار الشرق الاوسط کو بتایا کہ شام میں باغیوں کی پیش قدمی روس اور شامی حکومت کے ساتھ ساتھ ایران کے لیے بھی ایک ’دھچکا‘ ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ حلب اور دیگر علاقوں میں جاری تازہ لڑائیاں شام میں ایران اور دیگر غیرملکی طاقتوں کی مداخلت کا نتیجہ ہیں۔

ایک اور عرب اخبار العرب نے شام کے حوالے سے ایک مضمون کی سرخی کچھ اس انداز میں دی: ’پانچ برسوں کے امن کے بعد حلب بشار الاسد کے لیے ایک پیچیدہ امتحان ثابت ہوگا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow