فٹ بال پلیئر لیلیٰ بنارس نے 16 سال کی عمر میں برمنگھم سٹی کے لیے کھیلنے والی پہلی جنوبی ایشیائی خاتون بن کر ایک تاریخ رقم کی اور اب وہ پرامید ہیں کہ ان کا یہاں تک پہنچنا یقینا دوسروں کو ترغیب دینے کا باعث بن سکتا ہے۔

اگر پاکستان میں کسی سے اس کے پسندیدہ کھیل کا نام پوچھیں تو اکثریت کا جواب ہو گا کرکٹ۔
بہت ہی کم ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے جواب میں فٹ بال کہیں گے اور اگر خواتین کی فٹ بال گیم کے بارے میں پوچھا جائے تو شاید چند گنے چنے لوگ ہی اس پر بات کریں۔
تاہم پاکستان فٹ بال فیڈریشن (پی ایف ایف) کے نئے صدر سید محسن گیلانی کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ اب بدلنے والا ہے۔
محسن گیلانی کہتے ہیں کہ ’فٹ بال کے کھیل میں خواتین کی بڑے پیمانے پر شرکت کوفروغ دینا ہماری اولین ترجیح ہے۔‘
یاد رہے کہ پاکستان فٹبال فیڈریشن کو اس سے قبل فیفا کی گورننگ باڈی کی جانب سے معطل کر دیا گیا تھا اور پاکستان کی خواتین کی قومی ٹیم عالمی سطح پر کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی اور پچھلے دو سالوں میں صرف تین مقابلوں میں ہی کھیل پائی تھی۔
تاہم وہ لوگ جو پاکستان میں اس کھیل کو آگے بڑھانے کے لیے پر امید ہیں وہ اب باصلاحیت کھلاڑیوں کی کھوج میں ہیں تاکہ اس کھیل میں خواتین کھلاڑیوں کی شناخت کو آگے بڑھایا جا سکے۔
انھی میں سے ایک لیلیٰ بنارس ہیں جو بطور ڈیفینڈر پہچان رکھتی ہیں۔
برمنگھم سٹی کی سابق کھلاڑی لیلیٰ بنارس نے بی بی سی نیوز بیٹ کو بتایا کہ پاکستان کا فٹ بال سیٹ اپ ’اس وقت بہترین نہیں تاہم امید ہے کہ یہ بدل جائے گا۔‘

فٹ بال پلیئر لیلیٰ بنارس نے 16 سال کی عمر میں برمنگھم سٹی کے لیے کھیلنے والی پہلی جنوبی ایشیائی خاتون بن کر ایک تاریخ رقم کی اور اب وہ پرامید ہیں کہ ان کا یہاں تک پہنچنا یقیناً دوسروں کو ترغیب دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’آپ واقعی ویمنز سپر لیگ میں جنوبی ایشیائی ثقافت سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو محدود تعداد دیکھتے ہیں۔‘
لیلیٰ مزید کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میں وہ لڑکی بننا چاہتی ہوں جسے لوگ دیکھ کر متاثر ہوں اور دوسروں کو فٹ بال کھیلنے کی ترغیب دیں۔‘
گذشتہ سیزن کے اختتام پر بلیوز (برمنگھم فٹ بال ٹیم ) چھوڑنے کے بعد لیلیٰ فی الحال ایک آزاد کھلاڑی ہیں اور حال ہی میں انھوں نے پاکستان خواتین کی قومی ٹیم کے لیے ڈیبیو کیا تھا۔
لیلیٰ ایشین فٹ بال کنفیڈریشن (اے ایف سی) ویمنز ایشین کپ کوالیفائرز میں کھیلیں جہاں وہ ٹیم رنر اپ رہی۔
وہ کہتی ہیں ’پاکستان نے چند سال پہلے مجھ سے رابطہ کیا تھا لیکن مجھے لگا کہ یہ درست وقت نہیں ہے اور اب مجھے لگا کہ یہ صحیح وقت ہے۔‘
لیلیٰ پاکستانی نژٰاد برطانوی شہری ہیں۔ اس لیے جب برطانیہ یا پاکستان کے درمیان انتخاب کرنے کی بات آتی ہے تو وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا اور مجھے فخر ہے کہ میں کہاں سے ہوں۔ اس میں واقعی بحث کی کوئی گنجائش نہیں۔‘
19 سالہ لیلیٰ بنارس نے 2023 میں ہڈرز فیلڈ ٹاؤن کے خلاف اپنی پہلی ٹیم ڈیبیو کی تھیلیلی کے ساتھ اس سکواڈ میں 21 سالہ مریم محمود بھی شامل ہیں جو برطانیہ کے ویسٹ بروم وچ کی سابق کھلاڑی رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب انھوں نے مجھ سے رابطہ کیا تو میں واقعی خوش تھی۔ یہ جاننا کہ دنیا کے دوسری جانب سے بھی لوگ میرے بارے میں جانتے ہیں، انتہائی خوشی کا احساس ہے۔‘
جب انھوں نے فٹ بال میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تو مریم کو لیلیٰ کے برعکس اپنے خاندان کی جانب سے حوصلے شکنی کا سامنا رہا۔
’وہ بالکل ایسے ہی تھے کہ پاکستانی لڑکیاں فٹ بال نہیں کھیلتیں، وہ کھیل کود میں حصہ نہیں لیتیں اور یہ کیریئر بنانے کا راستہ نہیں ہے۔‘
مریم کہتی ہیں کہ ’ لیکن ثقافت آپ کو آگے جانے سے روک نہیں سکتی۔ آپ کو اپنے دل کی سننا ہو گی۔‘
مریم محمودلیلیٰ اور مریم کے ساتھ مزید چار پاکستانی نژاد کھلاڑیوں کو قومی ٹیم میں شامل کیا جا رہا ہے اور پاکستان فٹبال فیڈریشن کے صدر محسن گیلانی اس حوالے سے بہت پرجوش ہیں۔
انھوں نے نیوز بیٹ کو بتایا کہ ’جو بھی پاکستان کے لیے اہل ہے اسے قومی ٹیم کے لیے کھیلنا چاہیے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کہاں رہتے ہیں یا آپ کہاں سے ہیں۔‘
ان کے لیے اب ملک میں موجود کھلاڑیوں کو تیار کرنا اصل محاذ ہو گا۔
محسن گیلانی کا کہنا ہے کہ ’ہم خواتین کے مزید فٹ بال کلب بنانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہم فیڈریشن میں خواتین کے فٹ بال کا ایک فعال شعبہ قائم کر رہے ہیں۔ ہم اس کا دائرہ کار پورے ملک تک لے جانا چاہتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ فیڈریشن خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے لیے نئے مقابلے شروع کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔
لیلیٰ کہتی ہیں کہ پاکستان فٹبال فیڈریشن کو آگاہی پیدا کرنے اور نوجوان لڑکیوں کو فٹ بال میں شامل کرنے کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔
لیلیٰ جنوبی ایشیائی مسلم پس منظر سے تعلق رکھنے والی مزید لڑکیوں کو ’اکیڈمیوں، سسٹمز اور پاکستان کی فٹ بال ٹیم میں آتے دیکھنے کی خواہاں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اسے سکولوں اور مقامی کمیونٹیز میں متعارف کروانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر ایک کی اس (کھیل) تک رسائی ہو۔‘