انڈیا نیکوبار کے علاقے میں واقع سب سے بڑے جزیرے پر ’ہانگ کانگ طرز‘ کا منصوبہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے لیے نو ارب ڈالرز کی رقم مختص کی گئی ہے جو 166 مربع کلومیٹر پر محیط ہو گا۔
’یہ جنگل دراصل ہماری سُپر مارکیٹ ہے، ہم ان جزائر پر اپنی ضرورت کی تمام چیزیں اسی جنگل سے حاصل کرتے ہیں۔‘
اینسٹائس جسٹن ایک ماہرِ بشریات ہیں جو انڈیا کے مشرق میں واقع جزائر انڈمان اور نیکوبار میں پلے بڑھے ہیں۔ یہ خطہ انڈیا کی مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام ہے اور یہاں 836 جزائر ہیں، جن میں صرف 38 آباد ہیں۔
نیکوبار جزائر اس خطے کے جنوبی حصے میں جزائر انڈمان سے تقریباً 150 کلومیٹر دور واقع ہیں۔
اب انڈیا نیکوبار کے علاقے میں واقع سب سے بڑے جزیرے پر ’ہانگ کانگ طرز‘ کا منصوبہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے لیے نو ارب ڈالرز کی رقم مختص کی گئی ہے جو 166 مربع کلومیٹر پر محیط ہو گا۔
اس منصوبے کے تحت نیکوبار جزیرے پر ایک پورٹ، پاور پلانٹ، ایئر پورٹ اور ایک نیا قصبہ بنایا جائے گا۔ اس منصوبے کا مقصد بحیرہ ہند کے تجارتی راستوں کو نہرِ سوئز سے جوڑنا ہے۔
انڈیا جہاں یہ جزیرہ بنا رہا ہے وہ علاقہ آبنائے ملاکا کے قریب ہے جس کا شمار دنیا کے مصروف ترین بین الاقوامی تجارتی اور سیاحتی راستوں میں ہوتا ہے۔
انڈین حکومت کا خیال ہے کہ سنہ 2030 میں اس منصوبے کی تکمیل تک انڈمان جزیرے پر تقریباً ساڑھے چھ لاکھ لوگ آباد ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اربوں ڈالر کا نیا انڈین منصوبہ دراصل خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کو روکنے کی کوشش ہے۔
لیکن اس منصوبے سے نیکوبار جزیرے کے باسی خوش نہیں اور انھیں ڈر ہے کہ ان کی زمین چھن جائے گی، کلچر ختم ہو جائے گا اور ان کی شناخت خطرے میں پڑ جائے گی۔
انڈمان اور نیکوبار جزائر میں رہنے والے قبیلوں کا شمار دنیا کے سب سے تنہائی پسند قبیلوں میں ہوتا ہے۔ یہاں آباد جاراوا اور شمالی سینٹینیلیز تو دنیا سے رابطے میں ہی نہیں رہتے جبکہ نیکوبار جزائر میں رہنے والا تقریباً 400 افراد پر مشتمل شومپن قبیلہ بھی بیرونی دباؤ کے سبب متعدد خطرات کا شکار ہے۔
نیکوبار جزائر اس خطے کی جنوبی حصے میں جزائر انڈمان سے تقریباً 150 کلومیٹر دور واقع ہیںیہ خانہ بدوش قبیلہ ہے جو اپنے کلچر کو بچانے کے لیے گھنے جنگلات میں رہتا ہے اور ان کے زندگی گزارنے کے طریقے کے حوالے سے زیادہ معلومات موجود نہیں کیونکہ ان کا بیرونی دنیا سے رابطہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
ماہرِ بشریات جسٹن ان قبائل پر سنہ 1985 سے تحقیق کر رہے ہیں۔ نئے انڈین منصوبے کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ نہ صرف ان (شومپن قبیلے) کے لیے بڑا نقصان ہو گا بلکہ صدمے کا باعث بھی ہو گا۔‘
’بیرونی دنیا میں جسے ہم ترقی کہتے ہیں اس میں جزیرے کے باسیوں کی کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کا زندگی گزارنے کا اپنا ایک روایتی طریقہ ہے۔‘
ماہر ماحولیات کا کہنا ہے کہ خطے کی آب و ہوا پر بھی نئے انڈین منصوبے کے مضر اثرات پڑیں گے۔
نیکوبار جزیرہ تقریباً 921 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کا 80 فیصد حصہ صرف آبی جنگلات پر مشتمل ہے جہاں جانوروں کی 1800 سے زائد قسمیں آباد ہیں۔
انڈیا کی مرکزی وزارت برائے ماحولیات کا کہنا ہے کہ اس جزیرے کے صرف 14 فیصد علاقے پر نیا منصوبہ قائم کیا جائے گا لیکن صرف اس علاقے میں تقریباً 9 لاکھ چار ہزار درخت ہیں جبکہ ماہرین ماحولیات کا خیال ہے کہ یہاں موجود درختوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
ماہرِ ماحولیات مادھو گادگل کہتے ہیں کہ ’حکومت نے ہمیشہ یہی دعویٰ کیا ہے کہ اس جنگل کا صرف ایک حصہ کاٹا جائے گا لیکن جو انفراسٹرکچر آپ بنا رہے ہیں اس سے آلودگی میں اضافہ ہوگا اور اس کے نتیجے میں جزیرے کی ہر شے پر اثر پڑے گا۔‘
انڈیا کے وزارت برائے ماحولیات سے بی بی سی نے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
تاہم رواں برس اگست میں انڈیا کے وزیر برائے ماحولیات نے کہا تھا کہ یہ منصوبہ ’لوگوں کی نقل مکانی یا ان کے لیے پریشانی‘ کا باعث نہیں بنے گا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس منصوبے کی منظوری دینے سے قبل ’ماحول کو بہتر رکھنے کے لیے حفاظتی اقدامات لیے گئے ہیں‘ لیکن حکومتوں کی یہ تاویلیں لوگوں کو قائل کرنے کے لیے کافی نہیں۔
رواں برس 39 بین الاقوامی ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ شومپن قبیلے کے لیے ’سزائے موت‘ کے مترداف ہو گا۔
جسٹن بھی ایسے ہی تاثرات رکھتے ہیں کہ ’شومپن افراد کو کوئی معلومات ہی نہیں کہ باہر کی کاروباری یا انڈسٹریل دنیا میں زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔‘
سنہ 2004 میں سونامی کے باعث یہاں ایک جزیرے پر موجود کچھ دیہات تباہ ہو گئے تھے جس کے بعد وہاں آباد سب سے بڑے قبیلے کو نقل مکانی کرنی پڑی تھی۔ جسٹن کا خیال ہے کہ انڈین منصوبے کے باعث دیگر جزائر پر بھی ایسے مناظر دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے جانوروں اور پرندوں کی آماجگاہیں متاثر نہیں ہوں گیبرسوں سے حکومت ان افراد کی دیگر علاقوں میں منتقلی اور بحالی کی کوشش کر رہی ہے۔ جسٹن کے مطابق ’ان میں سے زیادہ تر افراد اپنے آباؤ اجداد کی زمین چھوڑ کر کہیں اور مزدوری کر رہے ہیں۔ ان کے پاس اناج اُگانے یا جانور پالنے کی کوئی جگہ نہیں۔‘
لوگوں کو یہ بھی خوف ہے کہ نئے انڈین منصوبے کے سبب شومپن قبیلے کے افراد کو نئی بیماریاں بھی لگ سکتی ہیں۔
بین الاقوامی گروپ سروائیول انٹرنیشنل سے منسلک کیلم رسل کہتے ہیں کہ ’دنیا سے دور رہنے والے افراد کی نزلے اور خسرے جیسی بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت بہت کم ہوتی ہے۔ عام طور پر ان بیماریوں کے لاحق ہونے سے ان کی دو تہائی اکثریت جانوں سے ہاتھ دھو سکتی ہے۔‘
دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے ’ہانگ کانگ طرز‘ کے منصوبے کے سمندری زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
اس جزیرے کے جنوب مشرقی علاقے میں گلاتھیا بے واقع ہیں جہاں صدیوں سے کچھوے اپنے گھونسلے بنا رہے ہیں۔
نیکوبار جزیرہ تقریباً 921 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کا 80 فیصد حصہ صرف آبی جنگلات پر مشتمل ہےسوشل ایکولوجسٹ ڈاکٹر منیش چاندی کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ ایک ایسے علاقے میں بنایا جا رہا ہے جہاں کھارے پانی کے مگر مچھ، مختلف اقسام کی مچھلیاں اور پرندے بھی آباد ہیں۔
انڈین حکومت کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ ان کے نئے منصوبے سے جانوروں اور پرندوں کی آماجگاہیں متاثر نہیں ہوں گی۔
ڈاکٹر منیش کہتے ہیں کہ یہاں سمندری کچھوے اور کیکڑے شاید اس منصوبے کے سبب نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں۔
اس منصوبے کو مکمل ہونے میں تقریباً 30 برس لگیں گے لیکن لوگ اس کے اثرات سے ابھی سے پریشان ہیں۔