پوجا شرما انڈیا کی وہ باہمت نوجوان لڑکی کہ جس نے سماج اور صدیوں سے چلے آنے والے رسم و رواج سے ٹکر لی اور اپنی زندگی کے مقصد کو آگے بڑھایا۔
27 سالہ پوجا شرما اب تک تقریباً پانچ ہزار لاوارث لاشوں کی آخری رسومات اپنے ہاتھوں سے ادا کر چکی ہیںدلی کے شمال میں اپنے چھوٹے سے فلیٹ میں ایک جانب بیٹھی پوجا شرما اپنے موبائل پر ہسپتال میں کسی سے بات کر رہی ہیں۔
اس ٹیلیفونک گفتگو کے دوران انھیں بتایا گیا کہ جنوبی دلی کے ایک ہسپتال میں ایک لاوارث لاش کا پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے اور اب انھیں اس لاوارث اور گُمنام لاش کی آخری رسومات ادا کرنی ہیں۔
پوجا اپنی ایمبولینس میں اُس ہسپتال پہنچتی ہیں۔ وہاں کاغذی کارروائی اور ضروری خانہ پُری کے بعد میت اُن کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ وہ اس میت کو ہندوؤ ں کے ایک جدید الیکٹرک شمشان گھاٹ (جہاں میت کو نذر آتش کیا جاتا ہے) میں لا کر پوری مذہبی رسومات کے ساتھ نذر آتش کر دیتی ہیں۔
وہ دن میں کئی بار اسی طرح مختلف ہسپتالوں کے مردہ خانوں سے لاوارث لاشیں شمشان گھاٹ میں لے جا کر ان کی آخری رسومات ادا کرتی ہیں اور یہ اُن کا روز کا معمول ہے۔
27 سالہ پوجا شرما کے مطابق وہ اب تک تقریباً پانچ ہزار لاوارث لاشوں کی اسی طرح آخری رسومات اپنے ہاتھوں سے ادا کر چکی ہیں۔
لاوارث یا گُمنام لاشیں شہر کے مختلف علاقوں میں مردہ پائے جانے والے لوگوں کی ہوتی ہیں جن کی شناخت کرنے والا یا کوئی وارث اور رشتہ دار سامنے نہیں آتا۔ پوجا شرما کہتی ہیں کہ وہ اُن کی آخری رسومات اس لیے ادا کرتی ہیں کہ کم از کم کوئی تو اُن کی اب مر جانے کے بعد پرواہ کرنے والا ہو۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر مرنے والا مسلمان ہو تو میں انھیں قبرستان لے جاتی ہوں، اگر مسیحی ہو تو سمیٹری لے جاتی ہوں اور اگر سناتنی یعنی ہندو ہے تو شمشان گھاٹ۔ میں اب تک پانچ ہزار سے زیادہ لاوارث لاشوں کی آخری رسومات ادا کر چکی ہوں۔‘
پوجا لاوارث لاشوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے دلی میں ایک غیر سرکاری تنظیم بھی چلاتی ہیں۔ لاوارث لاشوں کا پتہ لگانے اور انھیں شمشان گھاٹ تک پہنچانے کے لیے وہ شہر کے ہسپتالوں اور پولیس سے رابطے میں رہتی ہیں۔ جب بھی جہاں بھی ضرورت ہوتی ہے وہ وہاں پہنچ جاتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ابتدا میں تو انھوں نے سماجی خدمت کا یہ کام اپنے والدین سے پیسے لے کر یا پھر اپنے خرچ پر کیا۔
’تاہم بعد میں سوشل میڈیا پر میرے بارے میں لوگوں کو پتہ چلا جس کے بعد لوگوں نے میری مدد کرنی شروع کر دی۔ میں نے لوگوں کی مدد سے ایک ایمبولینس خرید لی جو ان گُمنام اور لاوارث لاشوں کی آخری رسومات اور غریب لوگوں کی مدد کے لیے وقف ہے۔‘
پوجا کو یہ سب کرنے کا خیال اپنے سگے بھائی کی وفات کے بعد آیا، کیونکہ اپنے گھر میں اپنے والد کے بعد وہی تھیں کہ جنھیں یہ سب کرنا تھاانھیں یہ سب کرنے کا خیال اپنے سگے بھائی کی وفات کے بعد آیا، کیونکہ اپنے گھر میں اپنے والد کے بعد وہی تھیں کہ جنھیں یہ سب کرنا تھا۔
پوجا اُس مُشکل وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’13 مارچ 2022 وہ دن تھا کہ جب میرے بڑے بھائی کی وفات ہوئی جس کا صدمہ میرے والد کے لیے اس قدر شدید تھا کہ وہ اسے برداشت نہ کر سکے اور کوما میں چلے گئے۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ’اپنے والد کی حالت اور بڑے بھائی کے وفات کے بعد اب جو کرنا تھا وہ میں نے ہی کرنا تھا، ایسے میں جب ہمت کر کے سب خود کرنے کی ٹھان لی تو پتا چلا کہ بھائی کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے تو گھر میں کُچھ بھی نہیں۔‘
پوجا نے بتایا کہ ’ہندو مذہب کے مطابق تو روایتی طور پر صرف مرد ہی آخری رسومات ادا کر سکتا ہے۔ مگر جب کُچھ سمجھ نہیں آئی تو میں نے سر پر پگڑی باندھ لی اور ہمت کر کے رسم و رواج سے آگے نکل کر اپنے بھائی کی آخری رسومات خود تن تنہا ادا کیں۔‘
اپنی اس ذاتی تکلیف، صدمے اور مُشکل کی اس گھڑی میں کسی کے ساتھ کھڑے نہ ہونے کے تجربے نے ان کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالا۔ پوجا بتاتی ہیں کہ ’انھوں نے سوچا کہ جب سماج میں لوگ مدد کے لیے آگے نہیں آتے تو ان لوگوں کو تو کوئی پُرسانِ حال نہیں ہو گا جن کا اس دُنیا میں کوئی نہیں۔‘
پوجا کے لیے یہ راستہ آسان نہیں تھا ایک جانب سماج اور دوسری جانب اُن کا گُمنام لوگوں کی خدمت کا جذبہبس یہ وہ وقت تھا کہ جب پوجا نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اُن گُمنام اور لاوارث لاشوں کی آخری رسومات خود ادا کریں گی کہ جن کو اس دُنیا میں کوئی والی وارث نہیں۔
پوجا کہتی ہیں ’اس وقت میں نے یہ سوچا کہ اب میں ان فرسودہ رسم و رواج کو ختم کر دوں گی۔ جب اس سماج، اس معاشرے میں رہتے ہوئے میری کسی نے مدد نہیں کی تو ان لوگوں کی کون مدد کرتا ہو گا جو سڑکوں پر لاوارث پڑے ہیں۔‘
لیکن یہ راستہ آسان نہ تھا۔ پوجا کو اس سماجی خدمت میں بہت سی مشکلوں اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے اس کام میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ دہائیوں سے چلے آنے والے رسم و رواج کو توڑنے کی وجہ سے وہ بے جا تنقید کا بھی نشانہ بنیں۔
پوجا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے بچپن سے سنا کہ خواتین شمشان گھاٹ نہیں جاتیں۔ میں یہ کام کر کے سماج کی اس سوچ اور فرسودہ روایت کو توڑنے کی کوشش کر رہی تھی مگر ہمارا معاشرہ یہ سب برداشت نہیں کر پا رہا تھا کہ ایک خاتون یہ سب آخر کیوں کر رہی ہے۔‘
لیکن پوجا جو سامجی خدمت کا جذبہ اپنے اندر لیے ہوئے تھیں اس معاشرے کے آگے ڈٹی رہیں اور اسی وجہ سے ایک وہ دن بھی آیا کہ مخالفت کرنے والوں کی تعداد کم اور ساتھ کھڑے ہونے والے دن بدن بڑھتے چلے گئے۔
ہندو مذہب میں مرنے والوں کی آخری رسومات گھر کا مرد رکن ہی ادا کرتا ہے۔ پوجا نے اس روایت کو توڑا۔ہندو مذہب میں مرنے والوں کی آخری رسومات گھر کا مرد رکن ہی ادا کرتا ہے۔ پوجا نے اس روایت کو توڑا۔
پوجا کہتی ہیں کہ ’میں نے پڑھنا شروع کیا۔ میں نے وید کو پڑھا، گرنتھ پڑھی، اور دیگر مذاہب کی کتابیں بھی پڑھیں۔ ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ کسی بھی مذہبی کتاب میں یہ نہیں لکھا ہے کہ ایک خاتون آخری رسومات ادا نہیں کر سکتی۔‘
لاوارث لاشوں کی آخری رسومات ادا کرنا ایک انتہائی مشکل کام تو ہے ہی مگر اس سماجی خدمت کے جذبے نے پوجا کی ذاتی زندگی پر بھی گہرا اثر ڈالا۔
پوجا شرما نے بتایا کہ ’جب میں نے یہ کام شروع کیا تو میرے آس پاس کے لوگوں نے مجھ سے بات کرنا بند کردی۔ ان کا یہ خیال ہے کہ میرے پیچھے آتمائین (روحیں) چلتی ہیں۔ میرے گھر والوں سے کہا جاتا ہے کہ تمہاری بیٹی کی شادی نہیں ہو گی۔ یہ جس گھر میں جائے گی اُسے تباہ کر دے گی۔ یہاں تک کہ میری بچپن کی سہیلیاں بھی اب مجھ سے بات نہیں کرتیں۔‘
لیکن یہ تمام مشکلیں بھی پوجا کو ان کے راستے سے ہٹا نہیں سکیں۔ پوجا کا سماج کی خدمت کا سفر جاری ہے۔
پوجا شرما کہتی ہیں کہ ’آج سماج میں ہر طرف ٹکراؤ، لڑائی جھگڑے اور بس تقسیم ہے۔ یہ دنیا کھل کر جینے کے لیے ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں ہر مذہب کے لوگوں کی بلا تفریق خدمت کر رہی ہوں میرے لیے سب برابر ہیں۔ اگر ہم سبھی مل جل کر کام کریں اور ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو یہ دنیا اور بھی خوبصورت ہو جائے گی۔‘