برٹش ایسوسی ایشن فار سیکسول ہیلتھ اینڈ ایچ آئی وی کا کہنا ہے کہ اس تحقیق طویل عرصے سے موجود اس شبہ کی تصدیق کے لیے اہمشواہدمہیا کیے جس کے مطابق اندام نہانی کی انفیکشن کا باعث بننے والے بیکٹیریا جنسی طور پر منتقل ہوتے ہیں۔

خواتین کی اندام نہانی میں صحت مند بیکٹیریا کی ایک توازن میں موجودگی اس کے نظام کو بہتر رکھنے میں مدد گار ہوتا ہے تاہم اگر ان بیکٹیریا میں عدم توازن آ جائے تو یہ طبی کیفیت بیکٹیریل ویجینوسس(بی وی) کہلاتی ہے۔
وجائنا میں بیکٹیریا کا عدم توازن یوں تو ایک عام کیفیت ہو سکتی ہے تاہم محققین خبردار کرتے ہیں کہ یہ درحقیقت ایک جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن (STI) بھی ہو سکتا ہے۔
برطانیہ کے طبی ادارے نیشنل ہیلتھ سروسز کا حالیہ موقف ہے کہ بی وی قدرتی بیکٹیریائی توازن میں تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ کوئی ایس ٹی آئی نہیں تاہم یہ جنسی تعلقات سے متحرک ہو سکتا ہے۔
تاہم ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے دنیا بھر میں تقریباً ایک تہائی خواتین کو متاثر کرنے والا انفیکشن بیکٹیریل ویجینوسس درحقیقت جنسی تعلقات کے ذریعے پھیلتا ہے اور ایس ٹی آئی کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔
اس تحقیق کے مطابق ہے یہ انفیکشن بانجھ پن، قبل از وقت پیدائش یہاں تک کے نومولود بچوں کی اموات کا سبب بن سکتا ہے۔
نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی یہ تحقیق آسٹریلیا میں کی گئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس انفیکشن کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے صرف متاثرہ خاتون ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ سیکس کرنے والے کا علاج بھی ضروری ہے۔

بیکٹیریل ویجینوسس اندام نہانی کی غیر معمولی رطوبت (ڈسچارج) کی ایک عام وجہ ہے۔ اس انفکیشن کی علامات میں وجائنا کی رطوبت سے ناگوار بو کا آنا شامل ہے جبکہ اس رطوبت کے رنگ اور ساخت میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے جیسے کہ یہ سرمئی یا سفید رنگ کا ہو سکتا ہے اور یہ پتلا یا پانی جیسا ڈسچارج بھی ہو سکتا ہے۔
تاہم اس انفیکشن میں مبتلا نصف خواتین کو اس کی کوئی علامات محسوس نہیں ہوتیں۔ عام طور پر اس انفیکشن سے کسی قسم کی جلن یا خارش نہیں ہوتی۔
ماہرین کے مطابق اس کا علاج اینٹی بایوٹک گولیوں، جیل یا کریم کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
اس تحقیق میں 164 جوڑوں کو شامل کیا گیا جس میں سائنس دانوں نے بی وی کا علاج ایک ایس ٹی آئی کے طور پر کیا اور اس دوران اس میں صرف خاتون کے بجائے دونوں جنسی پارٹنرز کو اینٹی بایوٹکس دی گئیں اور اس طریقہ سے علاج کی کامیابی کی شرح بھی زیادہ رہی۔
تاہم محققین نے یہ مطالعہ وقت سے پہلے اس وقت روک دیا جب واضح ہوا کہ اس طریقہ سے اس مخصوص بی وی کے دوبارہ ہونے کے امکانات نصف رہ جاتے ہیں۔
پروفیسر کیٹریونا بریڈشا اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے ماہرین میں سے ایک ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ’ہمارے مطالعے نے ثابت کیا ہے کہ بی وی کا علاج کے بعد دوبارہ ہو جانا اکثر اوقات سیکس پارٹنر کے اندر موجود انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہے جبکہ اس تحقیق سے ثابت ہو رہا ہے کہ بی وی درحقیقت ایک جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ثابت کرنا ابھی مشکل ہے کہ بی وی جنسی طور پر منتقل ہوتا ہے یا نہیں کیونکہ ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ کون سے بیکٹیریا اس کی وجہ ہیں لیکن جینومک سیکوئنسنگ میں پیش رفت ہمیں اس راز سے پردہ اٹھانے میں مدد دے رہی ہے۔‘
یہ تحقیق موناش یونیورسٹی اور میلبورن سیکسول ہیلتھ سینٹر کے محققین نے الفریڈ ہیلتھ کے تعاون سے کی جہاں اس دوران، آدھے مرد شرکا کو ایک ہفتے کے لیے اینٹی بایوٹک گولیاں اور جلد پر لگانے والی ایک اینٹی بایوٹک کریم دی گئی، جبکہ باقی مرد شرکا کا کسی قسم کا علاج نہیں کیا گیا۔
ان نتائج کے پیش نظر کلینک نے اب اپنی طبی پریکٹس میں تبدیلی کرتے ہوئے دونوں جنسی پارٹنرز کا علاج اپنے معمول میں شامل کر لیا ہے۔
برٹش ایسوسی ایشن فار سیکسول ہیلتھ اینڈ ایچ آئی وی کا کہنا ہے کہ اس تحقیق طویل عرصے سے موجود اس شبہ کی تصدیق کے لیے اہم شواہد مہیا کیے جس کے مطابق اندام نہانی کی انفیکشن کا باعث بننے والے بیکٹیریا جنسی طور پر منتقل ہوتے ہیں۔