"یہ میری پہلی اور شاید آخری غلطی تھی، میں نے کوئی جرم نہیں کیا... صرف دل کا بوجھ ہلکا کیا تھا، وہ بھی ذہنی دباؤ میں۔ نہ کسی رہنما کو گالی دی، نہ کسی جماعت کا حصہ ہوں۔ پولیس کا رویہ عزت دار تھا، عدالت نے سنا، اور ریاست نے معاف کر دیا۔ اب مقدمہ ختم ہو چکا ہے، اور میں دوبارہ عام زندگی میں واپس آ چکا ہوں۔"
یہ تھے وہ الفاظ جن کے ذریعے حالیہ دنوں میں وائرل ہونے والی متنازع ویڈیو کے مرکزی کردار, جنہیں سوشل میڈیا پر عوامی طور پر "چاچا" کہا جا رہا ہے, نے اپنی خاموشی توڑی۔
ویڈیو نے ملک بھر میں بحث چھیڑ دی تھی، جس میں وہ کچھ سخت اور جذباتی جملے ادا کرتے سنائی دیے، جنہیں ریاستی اداروں اور سیاسی شخصیات کے خلاف سمجھا گیا۔ ویڈیو کے وائرل ہونے پر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے انہیں حراست میں لیا، جس کے بعد ایک قانونی عمل شروع ہوا۔
اب، جب معاملہ عدالت سے کلیئر ہو چکا ہے اور مقدمہ خارج کر دیا گیا ہے، "چاچا" نے نہ صرف اپنی غلطی کا اعتراف کیا بلکہ میڈیا کے سامنے آ کر اپنی ذہنی حالت، بیماری اور اس وقت کے حالات کا بھی ذکر کیا۔ ان کے وکیل نے بھی بتایا کہ ان کا بلڈ پریشر بے قابو تھا، اور بارش میں دوبار گرنے سے ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی تھی، جس کا اثر ان کی زبان اور مزاج پر بھی پڑا۔
یہ واضح کیا گیا کہ انہوں نے کسی جماعت کی توہین یا کسی مخصوص شخصیت کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی تھی۔ ان کا رویہ محض ذاتی پریشانیوں کا اظہار تھا، جو جذبات میں بدل گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں پولیس کا رویہ غیر متوقع طور پر نرم اور تعاون پر مبنی رہا، اور عدالت میں بھی انہیں مکمل عزت کے ساتھ سنا گیا۔
یہ واقعہ سوشل میڈیا کے اس دور میں ایک سبق کی صورت سامنے آیا ہے کہ لمحاتی جذبات، اگر الفاظ میں بدل جائیں، تو ان کے اثرات غیر متوقع ہو سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے "چاچا" اب اس سب سے باہر نکل چکے ہیں، مگر ان کا یہ جملہ شاید بہت سے لوگوں کے لیے آئندہ کی رہنمائی بن جائے:
"بولنے سے پہلے دل سے نہیں، دماغ سے بھی رجوع کرنا چاہیے!"