آن لائن توہین مذہب کے کیسز میں اضافہ، عدالت کا حکومت کو تحقیقات کا حکم

image
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سینکڑوں خاندانوں کی اپیل کے بعد حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کرے کہ نوجوانوں کو آن لائن توہین مذہب کے مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے۔

فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 2022 سے واٹس گروپس میں توہین مذہب کے الزام میں نوجوانوں پر مقدمات میں اضافہ ہوا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ ’حکومت 30 دن کے اندر کمیشن بنائے اور کمیشن چار ماہ میں اپنی رپورٹ جمع کروائے۔‘

پاکستان میں توہین مذہب کی سزا موت ہے، حتیٰ کہ بے بنیاد الزامات بھی لوگوں کو بھڑکا دیتے ہیں جس سے سرعام کسی کو مار دیا جاتا ہے اور خاندانوں کو معاشرے سے الگ کر دیا جاتا ہے۔

گذشتہ برس اکتوبر میں نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق 767 افراد، جن میں سے زیادہ نوجوان ہیں، جیل میں ہیں جو توہین مذہب کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

گرفتار ملزمان کی وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ ’امید کی کرن پیدا ہوئی ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہے کہ خاندانوں کو سنا گیا ہے۔ نوجوانوں کو ایسے حساس نوعیت کے مقدمات میں جھوٹے طریقے سے پھنسایا گیا اور وہ بری ہو بھی جائیں تو یہ بدنامی ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گی۔‘

پنجاب پولیس کی 2024 کی رپورٹ میڈیا میں لیک ہوئی جس کے مطابق ’مشتبہ گینگ نوجوانوں کو توہین مذہب کے کیسز میں پھنسا رہا تھا۔‘، اور ہو سکتا ہے کہ وہ ایسا مالی فائدے کے لیے کر رہا ہو،

لیگل کمیشن آن بلاسفیمی پاکستان (ایل سی بی پی) پاکستان میں نوجوانوں پر مقدمہ چلانے والے وکلا گروپوں میں سب سے زیادہ فعال ہے۔

گروپ کے لیڈروں میں سے ایک شیراز احمد فاروقی نے اکتوبر میں اے ایف پی کو بتایا کہ ’خدا نے انہیں اس نیک مقصد کے لیے منتخب کیا ہے۔‘

حالیہ برسوں میں متعدد نوجوانوں کو مجرم ٹھہرایا گیا ہے اور انہیں موت کی سزائیں سنائی گئی ہیں حالانکہ پاکستان میں توہین مذہب کے جرم میں کبھی کسی کو پھانسی نہیں دی گئی۔

ایک ملزم کے رشتہ دار نے کہا کہ ’ہم تحقیقاتی کمیشن کی مکمل حمایت کریں گے اور ہمیں یقین ہے کہ آخر کار ہماری آواز سنی جائے گی، ہمارے تحفظات کو سنا جائے گا، اور سچ سامنے آئے گا۔‘

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts