اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر کی پر اسرار اور افسوسناک موت نے پورے پاکستان کو غمزدہ کر دیا ہے۔ عوام اس ہائی پروفائل اور حساس کیس میں نہ صرف گہری دلچسپی لے رہی ہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تحقیقات میں سامنے آنے والی نئی معلومات کو بھی توجہ سے دیکھ رہی ہے۔ پولیس کی جانب سے اس کیس کی تفتیش مسلسل جاری ہے اور آج اس حوالے سے کئی اہم تفصیلات منظرِ عام پر آئی ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق حمیرا اصغر کے پاس دو قومی شناختی کارڈ (CNICs) موجود تھے جن میں سے ایک میں جعلسازی کی گئی تھی۔ اس جعلی شناختی کارڈ پر ان کی تاریخِ پیدائش 10 اکتوبر 1997 درج تھی، جبکہ اصل شناختی کارڈ پر ان کی تاریخ پیدائش 10 اکتوبر 1983 تھی۔ ذرائع کے مطابق، حمیرا اصغر نے یہ جعلی شناختی کارڈ شوبز میں کام حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔
اسی سلسلے میں پولیس نے بتایا کہ حمیرا اصغر کے ذاتی بینک اکاؤنٹ میں 3 لاکھ 98 ہزار روپے موجود تھے۔ یہ معلومات پبلک نیوز کی جانب سے بھی شیئر کی گئی ہیں۔
حمیرا اصغر کے اسٹائلسٹ دانش مقصود نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حمیرا سے آخری بات 2 اکتوبر کو ہوئی تھی، جب وہ اپنے حالیہ فوٹو شوٹ کی تصاویر کی منظوری کے لیے ان سے رابطے میں تھے۔ دانش نے کہا، "ہم نے ان کا فوٹو شوٹ اپنی سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا اور اس کے بعد اُن سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن کال مسلسل بجتی رہی اور کسی نے اُٹھایا نہیں۔ اُن کا واٹس ایپ لاسٹ سین 7 اکتوبر کو دکھا رہا تھا، لیکن اُس کے بعد اچانک ان کا ڈسپلے پکچر اور لاسٹ سین دونوں غائب ہو گئے۔"
دانش نے مزید کہا کہ، "ہم نے بعد میں سوشل میڈیا پر ان کے لاپتہ ہونے سے متعلق پوسٹ کی، لیکن انڈسٹری سے کسی نے رابطہ نہیں کیا، سوائے رابعہ کلثوم کے، جنہوں نے ان کے بارے میں دریافت کیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ جیسے انڈسٹری میں ان کا بائیکاٹ کیا جا رہا تھا۔ انہیں کام کی آفرز نہیں مل رہی تھیں اور کچھ لوگ تو میرے ان کے ساتھ کام کرنے پر بھی نالاں تھے۔"
دانش نے انکشاف کیا کہ، "میری شوٹ کے بعد ان سے گفتگو ہوئی تھی، وہ خوش دکھائی دے رہی تھیں۔ میں ان کے وائس نوٹس شیئر نہیں کر سکتا کیونکہ وہ ذاتی نوعیت کے ہیں، البتہ ان کے پیغامات ضرور دکھا سکتا ہوں۔"
ان تفصیلات کے بعد کیس مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ دو شناختی کارڈ، سماجی بائیکاٹ، اور پر اسرار خاموشی کے درمیان یہ سوال اہم ہے کہ کیا حمیرا کی موت واقعی قدرتی تھی، یا اس کے پیچھے کوئی گہری سازش چھپی ہے؟ عوام اور میڈیا کی نظریں اب پولیس کی مکمل اور شفاف تحقیقات پر لگی ہوئی ہیں، تاکہ اس ہولناک موت کے تمام پہلو سامنے آ سکیں۔