فوجی صدر کا قاتل غدار یا انقلابی؟ جب ایک انٹیلیجنس سربراہ کو پھانسی دیے جانے کے بعد بھی معاملہ سلجھ نہ سکا

وہ بندوقیں جو یو سیوک نے دفن کیں صدر پارک چونگ ہی کو قتل کرنے کے لیے استعمال ہوئی تھیں۔ وہ پچھلے 18 سال سے جنوبی کوریا کے صدر تھے اور ان کا دورِ صدارت کسی بھی دوسرے صدر سے طویل تھا۔ جس شخص نے انھیں مارا وہ ان کے پرانے دوست کِم جے گیو تھے اور وہ خوف زدہ کر دینے والے ادارے کے سی آئی اے کے سربراہ تھے۔ یہ ادارہ صدر پارک کی آمریت کا ایک ستون سمجھا جاتا تھا۔
چونگ ہی
Getty Images

’دو گولیوں کی آواز آئی۔‘

26 اکتوبر سنہ 1979 یعنی جمعے کی رات کا ذکر کرتے ہوئے یو سیوک سُل نے اپنی کہانی شروع کی۔

کوریا سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (کے سی آئی اے) کے سابق سکیورٹی گارڈ یو سیوک کے پاس بہت سی ایسی کہانیاں ہیں مگر ان سب میں شاید یہ سب سے زیادہ بدنام زمانہ واقعہ تھا۔

انھیں سب یاد ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت تقریباً رات کو 7 بج کر 40 منٹ کا وقت تھا اور وہ بریک روم میں بیٹھے تھے۔ وہ اپنی شفٹ کے بعد آرام کر رہے تھے۔

وہ اس عمارت کے داخلی راستے کی حفاظت کرتے تھے جہاں صدر پارک چونگ اپنے سب سے قابلِ اعتماد افسران کے ساتھ موج مستیاں کرتے تھے۔ اسے ’سیف ہاؤس‘ کہا جاتا تھا۔

اب ان کی عمر ستر سال سے زیادہ ہے۔ دبلے پتلے اور تیز نگاہوں والے یو سیوک ابتدا میں ہچکچاتے ہوئے بات کرتے ہیں لیکن پھر انھیں سب چیزیں واضح طور پر یاد آنے لگتی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ پہلی دو گولیوں کے بعد مزید فائرنگ ہوئی۔ محافظ ہائی الرٹ پر تھے لیکن وہ باہر ہی احکامات کے منتظر رہے۔ صدر کی حفاظتی ٹیم کے سی آئی اے کے اعلیٰ افسران کے ساتھ اندر تھی۔

پھر یو سیوک کے افسر، جو سیف ہاؤس کی سکیورٹی کے نگران تھے باہر آئے اور مجھ سے کہا کہ ’باغ میں کچھ چیزیں دفنا دو۔‘

وہ دو بندوقیں، گولیاں اور جوتوں کا ایک جوڑا تھا۔ یو سیوک نے کہا کہ وہ گھبرا گئے لیکن احکامات پر عمل کیا۔

انھیں یہ علم نہیں تھا کہ کس کو گولی لگی تھی اور نہ ہی انھوں نے پوچھا۔

’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ صدر ہو سکتے ہیں۔‘

وہ بندوقیں جو یو سیوک نے دفن کیں صدر پارک چونگ ہی کو قتل کرنے کے لیے استعمال ہوئی تھیں۔ وہ پچھلے 18 سال سے جنوبی کوریا کے صدر تھے اور ان کا دورِ صدارت کسی بھی دوسرے صدر سے طویل تھا۔

جس شخص نے انھیں مارا، وہ ان کے پرانے دوست کِم جے گیو تھے اور وہ خوف زدہ کر دینے والے ادارے سی آئی اے کے سربراہ تھے۔ یہ ادارہ صدر پارک کی آمریت کا ایک ستون سمجھا جاتا تھا۔

وہ جمعہ جنوبی کوریا کے لیے ہلا دینے والا تھا، جس نے پارک چونگ ہی کے جابرانہ دور کا خاتمہ کیا اور ملک کو فوجی اقتدار کے ایک اور عشرے میں دھکیل دیا۔ کِم کو بغاوت کے الزام میں پانچ دیگر افراد کے ساتھ پھانسی دے دی گئی۔

اب 46 سال بعد وہ رات دوبارہ منظر عام پر آ گئی ہے کیونکہ ایک عدالت کِم جے گیو کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کر رہی ہے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ آیا انھوں نے غداری کے تحت یہ قدم اٹھایا تھا۔

وہ ایک متنازع شخصیت رہے ہیں۔ کچھ لوگ انھیں حب جاہ کے لیے قتل کرنے والا سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے انھیں ایک محب وطن مانتے ہیں جس نے جنوبی کوریا کو جمہوریت کی راہ پر ڈالنے کے لیے اپنی جان قربان کی۔

جس صدر کا انھوں نے قتل کیا، وہ بھی اتنے ہی متنازع رہے۔ کچھ انھیں ملک کی معاشی ترقی کا معمار مانتے ہیں تو کچھ انھیں جابرانہ حکمران سمجھ کر کوستے ہیں۔

کِم کے خاندان نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کے لیے جدوجہد کی۔ ان کا موقف ہے کہ وہ غدار کے طور پر یاد نہیں کیے جا سکتے۔ اب انھیں سیول ہائی کورٹ میں اپنی بات رکھنے کا موقع ملا ہے۔

سماعت بدھ کو بالکل اسی وقت شروع ہوئی جب معزول صدر یون سوک یول اسی الزام میں مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں جس میں کِم کو پھانسی کے پھندے تک پہنچایا تھا۔

گذشتہ دسمبر میں یون کی مارشل لا کے احکام عارضی طور پر رہے مگر اس نے جنوبی کوریا کی جمہوریت پر سوالات اٹھائے اور اس سب نے اس شخص کو از سر نو دیکھنے کی ترغیب دی جس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایک آمر کو قتل کر کے ملک کو تباہی سے بچانا چاہتے تھے۔

کیا کِم واقعی اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے یا جیسا کہ انھوں نے عدالت میں کہا، وہ ’انقلاب‘ لانا چاہتے تھے؟

جب اگلی صبح یہ خبر پھیلی تو پورے جنوبی کوریا میں ہلچل مچ گئی۔ ابتدائی خبروں میں اسے ’حادثہ‘ کہا گیا۔

متوفی صدر پارک کے قریبی حلقے والے لوگ اس واقعے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ پارک کے اقتدار پر قبضے کے وقت یعنی 1961 کی بغاوت سے کمِ اس کے قریبی ساتھی رہے تھے۔ دونوں کا تعلق ایک ہی شہر سے تھا اور انھوں نے ایک ساتھ ملٹری اکیڈمی میں تعلیم حاصل کی تھی۔

سینیئر صحافی چو گاب جے تسلیم کرتے ہیں کہ کِم صدر پارک کے بعض اقدامات سے نالاں دکھائی دیتے تھے مگر اس بات کا ’کوئی ریکارڈ نہیں کہ کم نے ان تحفظات پر کوئی عملی قدم اٹھایا ہو، نہ ہی ایسے شواہد ہیں کہ انھوں نے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا، یا پارک سے جھگڑا کیا یا باضابطہ اعتراضات داخل کیے۔‘

کم نے عدالت میں کہا کہ وہ کم از کم تین بار پارک کو قتل کرنے کے بارے میں غور کر چکے تھے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ انھوں نے پارک کا ساتھ دیا، یہاں تک کہ جب پارک نے صدارتی انتخابات اور مدت کی حدود ختم کر دیں، نیشنل اسمبلی کو کنٹرول میں لے لیا اور آئینی حقوق معطل کر دیے۔

اس وقت بھی کم نے پارک کا ساتھ دیا۔

کِم کی 86 سالہ بہن کِم جُونگ سوک کہتی ہیں کہ ’میرا بھائی ایسا شخص نہیں تھا جو صرف صدر بننے کے لیے ایسا کام کرتا۔‘

لیکن وہ کے سی آئی اے کا سربراہ تھا جو معصوم طلبہ، اختلاف رائے رکھنے والوں اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرنے، تشدد کرنے اور قید کرنے کے لیے بدنام تھا۔

پادری ہام سی وونگ کہتے ہیں کہ ’وہ لوگوں پر تشدد کرتے تھے، الزامات گھڑتے تھے، اور قید کرتے تھے۔۔۔ اور اگر آپ ان پر تنقید کرتے، تو آپ گرفتار بھی ہو جاتے۔‘

انھیں بھی سنہ 1970 کی دہائی میں دو بار حکومت پر تنقید کرنے کے جرم میں قید کیا گیا تھا۔

کِم کو سب نجات دہندہ قبول نہیں کر سکتے ہیں لیکن انھوں نے اپنے آپ کو اسی طرح پیش کیا اور عدالتی دستاویزات سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جو اس وقت زیادہ عام نہیں ہوئے تھے۔ انھوں نے ججوں سے کہا کہ انھیں لگتا تھا کہ پارک کو روکنا ضروری ہو گیا ہے کیونکہ ان کی بے رحمی جنوبی کوریا کو تباہی میں دھکیل سکتی تھی اور انھیں امریکہ جیسے اہم اتحادی سے بھی محروم کر سکتی تھی۔

انھوں نے عدالت سے کہا کہ ’میں اپنی جان کی بھیک نہیں مانگنا چاہتا کیونکہ مجھے ایک مقصد مل گیا ہے جس کے لیے مرنا بھی گوارا ہے‘ تاہم انھوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کے حکم پر عمل کرنے والے افراد کو معاف کر دیا جائے کیونکہ وہ ’معصوم بھیڑیں‘ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان کی یہ خواہش تھی کہ اقتدار کی پرامن منتقلی کا راستہ کھلے، جو اس وقت تک اس کے ملک کو نصیب نہ ہو سکی تھی۔

جب یہ بات اس وقت کے پادری ہیم کو معلوم ہوئی تو باوجود اس کے سخت مخالف ہونے کے انھوں نے کِم کے لیے ایک مہم شروع کرنے کی کوشش کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ خونریزی کو روکنا چاہتا تھا۔ اسی لیے ہمیں اسے بچانا تھا۔‘

پادری ہیم کو اس کوشش کے نتیجے میں دوبارہ جیل بھیج دیا گیا کیونکہ مقدمہ ایک حساس معاملہ بن چکا تھا۔ ملک مارشل لا کے تحت تھا۔ مقدمے کے آغاز کے کچھ ہی دن بعد یعنی 12 دسمبر کو قتل کی تحقیقات کرنے والے شخص جنرل چُن دو ہوان نے ہی ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

فوجی عدالت میں مقدمہ بہت تیزی سے چلا۔ 20 دسمبر کو عدالت نے کِم جے گیو کو قتل کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کا مجرم قرار دیا اور چھ دیگر افراد کو اس کا ساتھ دینے پر سزا سنائی۔ یو سیوک کو ہتھیار چھپانے پر تین سال قید کی سزا دی گئی۔

اگلے سال 20 مئی تک، کِم کی اپیلیں مسترد ہو چکی تھیں۔ چار دن بعد انھیں دیگر چار افراد کے ساتھ پھانسی دے دی گئی۔ ایک کو معاف کر دیا گیا اور ایک کو پہلے ہی پھانسی دی جا چکی تھی۔ کِم اس وقت مارے گئے جب فوج نے گوانگجو شہر میں جمہوریت کے حق میں اٹھنے والی تحریک کو وحشیانہ طریقے سے کچلا اور 166 عام شہریوں کو قتل کر دیا۔

کم جُونگ سوک کہتی ہیں کہ ’مجھے ایسا لگا کہ چُن دو ہوان پچھلے دورِ حکومت سے متعلق تمام معاملات کو جلدی ختم کرنا چاہتے تھے تاکہ خود اقتدار پر قبضہ کر سکیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ اس تمام عرصے میں وہ اپنے بھائی سے صرف ایک بار مل سکیں اور وہ بھی پھانسی سے ایک ہفتہ پہلے۔ انھوں نے کہا ’میرا خیال ہے کہ اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ آخری ملاقات ہو سکتی ہے۔ اسی لیے اس نے میری ماں کو بہت جھک کر الوداع کہا۔‘

یو سیوک زندہ تو بچ گئے لیکن وہ بتاتے ہیں کہ رہائی کے بعد کئی سال تک ان کا پیچھا کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے کہیں نوکری نہیں ملی۔ جب میں اپنے آبائی شہر واپس گیا، تب بھی وہ میرا پیچھا کرتے رہے۔ میں اس کیس کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا تھا۔‘

اب وہ سیئول کے باہر ایک نجی پارکنگ لاٹ میں اٹینڈنٹ کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔

کِم کہتی ہیں کہ ان کے خاندان نے تقریباً دس سال پہلے تک خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔ جب جنوبی کوریا ایک جمہوری ملک بن گیا تو وقت اور خوشحالی کے ساتھ پارک کی شبیہ بہتر ہو گئی۔ ان کی بیٹی صدر بنیں اور اکثر ان کے معاشی کارناموں کا دفاع کرتی رہیں۔

یہی ان کی سیاسی تباہی کا سبب بنی کیونکہ کرپشن سکینڈل پر زبردست عوامی مظاہرے ہوئے جس کے نتیجے میں کِم جے-گیو کے مقدمے پر دوبارہ غور کرنے کا راستہ کھلا۔

کم کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کی سربراہ اور وکیل لی سانگ ہی کہتی ہیں کہ ’یہ مقدمہ کبھی بھی فوجی عدالت میں نہیں جانا چاہیے تھا کیونکہ قتل مارشل لا کے نفاذ سے پہلے ہوا تھا۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ناقص عدالتی ریکارڈنگ‘ نے ان کی اپیل کو متاثر کیا کیونکہ دفاع کو کارروائی ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’جب میں نے دستاویزات کا جائزہ لیا، تو سمجھ نہیں آیا کہ انھیں بغاوت کا مجرم کیسے ٹھہرایا گیا جبکہ شواہد اتنے کمزور تھے اور سب سے بڑھ کر، ان پر تشدد کیا گیا تھا۔‘ عدالت نے جب فروری میں دوبارہ مقدمہ کھولنے کی اجازت دی، تو تشدد کو ایک درست بنیاد کے طور پر تسلیم کیا گيا۔

عدالت نے کم کا وہ بیان تسلیم کیا جو انھوں نے 1980 میں اپیل کے دوران جمع کرایا تھا، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’تفتیش کاروں نے مجھے بے تحاشہ مارا پیٹا اور ای ای 8 فون لائن میری انگلیوں کے گرد لپیٹ کر مجھے بجلی کا جھٹکا دیا۔‘

اس وقت کی خبروں میں یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ کِم جے گیو کی بیوی کو بھی حراست میں لے کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کے بہنوئی اور بھائیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا، جس کی اس وقت کے حکام نے تردید کی تھی۔

ان کی بیوی اب نوّے کی دہائی میں ہیں اور وہ ہمیشہ سے اس مقدمے کی دوبارہ سماعت کے خلاف رہی ہیں۔

کِم جے گیو کی بہن کم جُونگ سوک کہتی ہیں کہ ’انھوں نے کبھی بھی اپنے ساتھ بیتے حالات کا ذکر نہیں کیا اور آج بھی وہ (اسے یاد کر کے) کانپ جاتی ہیں۔‘

وہ اپنے بھائی کے دفاع کے لیے پُرعزم ہیں اور بار بار اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ’وہ ایک دیانت دار انسان تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انھوں نے صدر اور سکیورٹی چیف کو ذاتی مفاد کے لیے نہیں مارا، اسی لیے ہم یہ سب کچھ برداشت کر پائے۔‘

اس وقت سکیورٹی چیف چا جی چول تھے اور صدر پارک کے قریب تر آتے جا رہے تھے اور اکثر کِم سے ٹکرا جاتے تھے کیونکہ دونوں صدر پارک کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

قتل سے چند ہفتے قبل دونوں میں اس بات پر اختلاف ہوا کہ اپوزیشن لیڈر کِم یونگ سیم کے ساتھ کیا رویہ اپنایا جائے، جو کھل کر حکومت پر تنقید کر رہے تھے۔ انھیں صدر پارک اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ نیو یارک ٹائمز کے ساتھ انٹرویو میں کم یونگ سیم نے امریکہ سے پارک کی آمریت ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پارک کے زیرِ اثر نیشنل اسمبلی نے انھیں پارلیمان سے نکال دیا۔

اس فیصلے کے بعد کم یونگ سیم کے سیاسی گڑھ میں بڑے بڑے مظاہرے ہونے شروع ہو گئے۔ چا جی چول ان مظاہروں کو طاقت سے کچلنا چاہتے تھے جبکہ کِم جے گیو نے محتاط رہنے کا مشورہ دیا تاکہ واشنگٹن کو بھی مطمئن کیا جا سکے جو پارک کی آمریت سے بیزار ہوتا جا رہا تھا۔

کم نے عدالت میں بتایا کہ انھوں نے مظاہرین پر گولی چلانے سے خبردار کیا تھا کیونکہ ایسا کرنا عوامی غصے کو بھڑکا دے گا – جس پر چا جی چول نے کہا تھا کہ ’کمبوڈیا میں 30 لاکھ لوگ مارے گئے اور کچھ نہیں ہوا۔ اگر ہم دس لاکھ مظاہرین بھی مار دیں تو بھی کچھ نہیں ہوگا۔‘

سرکاری نشریاتی ادارے نے خبر دی تھی کہ اسی شام سیف ہاؤس میں امریکی سفیر کم یونگ سیم سے ملاقات کرنے والے تھے۔

غصے سے بھرے صدر پارک نے کِم جے گیو کو اپوزیشن لیڈر کو گرفتار نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ جب کِم نے اپنا مؤقف پیش کرنے کی کوشش کی تو پارک نے کہا کہ ’ایجنسی کو خوفناک ہونا چاہیے، اسے ان لوگوں کو سزا دینی چاہیے جو اس کے لائق ہیں۔‘

وہ ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے سکاچ پی رہے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ کھانا شیئر کر رہے تھے۔ صدر پارک دو خواتین کے درمیان بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک مشہور گلوکارہ اور ایک نوجوان ماڈل تھیں۔ چا جی-چول اور پارک کے چیف آف سٹاف بھی وہیں موجود تھے۔

مختصر اور تناؤ بھرے جملوں کے تبادلہ ہوتے رہے۔ ایک رومانوی گیت کے بیچ میں، کِم جے گیو نے بتایا کہ اُس نے اچانک پستول نکالا، پارک کی طرف نشانہ لیا اور کہا کہ اُنھیں اپنی سیاست بدلنی چاہیے: ’سر، آپ کو معاملات کو زیادہ فراخدلانہ نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔‘

اس کے بعد اُس نے حیرت زدہ چا جی چول کی طرف رُخ کیا، اُسے گالی دی اور گولی چلا دی۔ چا نے وار روکنے کی کوشش کی، جس سے اُن کا ہاتھ زخمی ہو گیا۔ پھر کم نے پارک کے سینے میں گولی مار دی۔ باہر کِم کے حکم پر ’کے سی آئی اے‘ کے ایجنٹوں نے صدر کے سکیورٹی گارڈز کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

کِم نے دوبارہ صدر پر گولی چلانے کی کوشش کی لیکن پستول جام ہو گیا۔ وہ باہر بھاگے اور اپنے ایک آدمی سے ریوالور لیا۔ واپس آ کر اُس نے بھاگتے ہوئے چا کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، پھر پارک کی طرف بڑھے جو ماڈل کے سہارے خون میں لت پت بیٹھے تھے، اور اُن کے سر میں گولی مار دی۔

دونوں خواتین کو کچھ رقم دے کر خاموش رہنے پر راضی کر کے چھوڑ دیا گیا۔ صدر کے چیف آف سٹاف اس حملے کا نشانہ نہیں بنے۔

اس کے بعد کِم اس عمارت میں گئے جہاں فوج کے سربراہ پہلے سے ان کے بلانے کا انتظار کر رہے تھے۔ دونوں ایک گاڑی میں سوار ہو کر ’کے سی آئی اے‘ کے ہیڈکوارٹر روانہ ہو گئے۔

ممکن ہے اُس فوجی جنرل نے کِم کی مخالفت نہ کی ہو۔ اگرچہ کم ننگے پاؤں اور گھبراہٹ میں تھے لیکن وہ اب بھی طاقتور تھے اور اس کے آدمی احاطے کی حفاظت کر رہے تھے۔ مگر راستے میں انھیں فوج کے ہیڈکوارٹر جانے پر قائل کر لیا گیا، جہاں انھیں آدھی رات کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔

کِم نے عدالت کو بتایا کہ اُنھوں نے فوج کے ذریعے ممکنہ طور پر مارشل لا نافذ کر نے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ ’انقلاب‘ کو مکمل کریں اور ملک کو جمہوریت کی طرف لایا جائے۔

یہی نقطہ دوبارہ سماعت کا مرکزی نکتہ ہے۔ استغاثہ نے مؤقف اپنایا کہ یہ ایک سوچی سمجھی فوجی بغاوت تھی جبکہ کِم نے اپنے مقاصد کو بلند تر، قومی مفاد میں قرار دیا تھا لیکن شکوک و شبہات رکھنے والے اس منصوبے پر سوالات اٹھاتے ہیں۔

جو پستول جام ہوا وہ کھانے سے محض تھوڑی دیر پہلے تجوری سے نکالا گیا تھا، وہاں اتنے گواہ موجود تھے کہ پوری سازش ناکام ہو سکتی تھی اور ’انقلاب‘ کے لیے کوئی واضح حکمت عملی بھی نظر نہیں آتی تھی۔ کِم تو کے سی آئی اے ہیڈکوارٹر تک بھی نہ پہنچ سکے۔

کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ دراصل ایک غیر متوقع، جذباتی بدلے کا عمل ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کا عمل تھا جس کی طاقت کم ہوتی جا رہی تھی۔

یہی بات اُس فوجی جنرل نے دو دن بعد کہی، جو قتل کی تحقیقات کر رہا تھا۔ کم، جو صدر کے بعد ملک کے دوسرے طاقتور ترین شخص تھے وہ اپنا سب کچھ کھو رہے تھے کیونکہ صدر پارک نے انھیں نظر انداز کر کے چا جی چول کو قریب کر لیا تھا۔

اگلے مہینے اسی جنرل نے کِم پر فوجی بغاوت کی کوشش کا الزام بھی عائد کیا۔

وکیل لی سانگ ہی کہتی ہیں کہ ’بغاوت کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ملزم آئینی اداروں کا کام زبردستی بند کرواتا، لیکن اس کیس میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ معزول صدر یون کے معاملے کے برخلاف جہاں عدالت کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا اُس نے فوج کو پارلیمان کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کا حکم دیا تھا، پرانے مقدمے کم جے-گیو کے خلاف ایسی کوئی شہادت موجود نہیں کہ اُنھوں نے ریاستی اداروں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہو۔

لیکن جنوبی کوریا کے لیے یہ مقدمہ اس سے بڑھ کر ہے۔ بہت سے لوگ اسے اس بات پر غور کرنے کے لیے ایک فیصلہ کن موقع سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کا سفر، جسے صرف چھ ماہ قبل خطرہ لاحق ہوا، کس سمت جا رہا ہے۔

یہ پارک چونگ ہی کے ورثے پر نظرثانی کا بھی موقع ہے جسے بعض لوگ ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا مانتے ہیں۔

میونگ جی یونیورسٹی کے معاشیات کے پروفیسر کِم ڈوئل کہتے ہیں کہ ’اُس کی کامیابیاں حقیقی تھیں لیکن اُس کی غلطیاں بھی اتنی ہی حقیقی تھیں۔ کیا جنوبی کوریا کی ترقی ایسی آمرانہ حکومت کے بغیر ممکن تھی؟‘

کِم کے خاندان کو امید ہے کہ اس کی دوبارہ سماعت اس کے کردار کو ہمدردی کی نظر سے دیکھنے کا باعث بنے گی۔ کِم نے عدالت میں کہا تھا کہ پارک کو قتل کرنا ’ایک تکلیف دہ فیصلہ‘ تھا لیکن اُنھوں نے ’جنگلی درندے کے دل یعنی یوسین (پارک کی آمریت) پر وار کیا تھا۔‘

کیا یہ باتیں سابقہ خفیہ ادارے کے سربراہ کو ہیرو بنانے کے لیے کافی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب عدالت نہیں دے سکتی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts