مہوش، سحرش اور ماہ نور وہ تین بہنیں ہیں جنھوں نے انتھک محنت سے سکواش کے میدان میں اپنا لوہا منوایا اور سنہ 2024 میں بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کے لیے سونے کے 16 میڈل جیتے۔ لیکن یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کی والدہ نے اپنا 16 تولے سونا بیچ کر بیٹیوں کے لیے ایسے سازگار حالات پیدا کیے کہ وہ یہ میڈل جیتنے کے قابل ہوئیں۔خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے تعلق رکھنے والی ان تین بیٹیوں کو صرف والدہ ہی کی نہیں بلکہ والد کی بھی مکمل سپورٹ حاصل رہی جنہوں نے اپنی بچیوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے کسی چیز کی پروا نہیں کی۔ اس سفر میں انہیں کئی طرح کی مشکلات پیش آئیں مگر وہ ثابت قدم رہے اور حالات سے تنگ آ کر جب کبھی ان کی اہلیہ کا حوصلہ ٹوٹنے لگتا تو سہارے کے لیے وہ سب سے آگے ہوتے۔ان والدین کو ایک طرف بیٹیوں کے اچھے مستقبل کے لیے محنت کرنی پڑتی تو دوسری جانب اپنوں اور غیروں کے ان سوالوں کے جواب بھی دینے پڑتے۔ مگر بیٹیوں نے ماں باپ کے ایثار کی خوب لاج رکھی اور تین بہنوں نے مختلف ملکی اور بین الاقوامی مقابلوں میں اب تک مجموعی طور پر سونے کے 67 میڈل اپنے نام کیے ہیں۔یہ تینوں بہنیں نہ صرف سکواش کی دنیا میں اپنی پہچان بنا رہی ہیں بلکہ پاکستان کو سکواش کے میدان میں دوبارہ عالمی منظر پر لانے کا عزم بھی رکھتی ہیں۔ کبھی ان بہنوں کا مقابلہ کسی انجانے حریف سے ہوتا ہے تو کبھی یہ ایک دوسرے کے مدِمقابل ہوتی ہیں۔ مگر کہتی ہیں ’ہم بہنوں میں سے کوئی بھی جیتے، ٹرافی تو پاکستان کو ملتی ہے۔‘ان میں سب سے بڑی بہن مہوش علی اب تک 28 گولڈ میڈل جیت چکی ہیں، ماہ نور علی نے 21 اور سب سے چھوٹی بہن سحرش علی نے 18 گولڈ میڈل اپنے نام کیے ہیں۔ان کے بڑے بھائی شایان علی بھی سکواش کھیلتے ہیں جن کا شمار قومی سطح پر ٹاپ ٹین میں ہوتا ہے۔ان ایتھلیٹس کی والدہ نائلہ رانی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا جیسے روایت پسند معاشرے میں بیٹیوں کی بطور ایتھلیٹ پرورش اور ان کو بین الاقوامی سطح تک پہچانا آسان سفر نہیں تھا۔نائلہ رانی خود پیش اماموں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ ایک ایسے ماحول سے ہیں جہاں بیٹیوں کو باہر نکلنے، آگے بڑھنے حتٰی کہ خواب دیکھنے کی اجازت دینا بھی آسان نہیں تھا۔وہ بتاتی ہیں کہ ’ہم نے اپنے بچوں کے لیے نہ صرف اپنی توانائیاں، وقت اور وسائل مہیا کیے بلکہ لوگوں کے منفی رویوں کا مقابلہ بھی کیا۔ ہم نے اپنی بیٹیوں کو سمجھایا کہ آپ نے سب باتوں کا ایک ہی جواب دینا ہے کہ باقی کام تو پوری دنیا کر رہی ہے ہم وہ کام کریں گے جس سے ہمارے ملک کا نام روشن ہو۔‘
بڑی بیٹی مہوش علی اب تک چار مرتبہ نیشنل ویمن سینیئر سکواش چیمپئن بن چکی ہیں۔ (فوٹو: علی سسٹرز)
نائلہ رانی کے مطابق ’میرے شوہر نے مجھے اور میری بیٹیوں کو دل برادشتہ نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے مجھے بھی میٹرک کے بعد ماسٹرز تک تعلیم دلوائی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے لیے مشکلات مالی بھی تھیں اور سماجی بھی، بیٹے کی بائیک اور رننگ مشین تک فروخت کی اور ایسا وقت بھی آیا جب کراچی جانے کے لیے ٹکٹ کے پیسے نہیں تھے۔ کبھی کبھی میری آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ میرے پاس 16 تولے سونا تھا۔ ان بیٹیوں کے مستقبل کی خاطر میں نے وہ بھی بیچ دیا۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’مسائل اتنے زیادہ تھے کہ میں کبھی کبھی تنگ آ جاتی اور کہتی کہ ہم اپنی بچیوں کو تعلیم دلوا دیں گے اور شادیاں کر دیں گے تو میرے شوہر جواب دیتے کہ آپ کی سوچ گاؤں والی ہے۔ میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ میں اپنی بیٹیوں کو ورلڈ نمبر ون بناؤں گا۔‘بچوں کی کامیابی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کی والدہ کہتی ہیں کہ ’جب بیٹیاں کھیل میں اچھا نتیجہ دیتی ہیں تو ساری تھکن اتر جاتی ہے۔ اگر یہ اچھا ریسپانس نہ دیتیں تو ہم بھی ہتھیار پھینک دیتے۔‘نائلہ رانی کے شوہر محمد عارف پیشے کے لحاظ سے فارماسسٹ ہیں لیکن وہ کرکٹ اور بیڈمنٹن کے بھی شوقین ہیں۔اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’شروع میں اندازہ نہیں تھا لیکن جب 2021 میں بڑی بیٹی نے پہلی نیشنل سکواش چیمپیئن شپ جیتی تو اپنی بیٹیوں کی صلاحیت کا مکمل اندازہ ہوا۔‘پھر انہوں نے اپنی بیٹیوں کے ٹیلنٹ پر بھر پور توجہ دی اور محدود وسائل کے باوجود سکواش کے کھیل میں ان کی تربیت کا انتظام کیا۔
نائلہ رانی خود اپنی بیٹیوں کی ڈائٹ کا خیال رکھتی ہیں۔ (فوٹو: علی سسٹرز)
وہ 2021 سے ہر مقابلے میں اپنی بیٹیوں کے ہمراہ ہوتے ہیں اور ان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔
محمد عارف کہتے ہیں کہ ان کی بیٹیوں نے جو میڈلز جیتے ہیں وہ آج تک پاکستان میں کسی لڑکی نہیں جیتے۔ تاہم وہ یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ اس وقت سکواش کی 41 فیڈریشنز ہیں جن میں مردوں کی بالادستی ہے اور ان میں لڑکیوں کے لیے جگہ بنانا انتہائی مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ مہینے امریکہ سے کوریا کے لیے ہمارے ٹکٹ کا بندوبست نہیں ہو رہا تھا، حکومت بھی مدد نہیں کر رہی تھی۔ ہمارے بچے سپانسرشپ کے ذریعے مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔’ہماری کامیابی کا آدھا کریڈٹ تو ہماری امی کو جاتا ہے‘ماہ نور علی بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں اور انڈر 13 کیٹگری میں پاکستان اور ایشیا کی نمبر ون کھلاڑی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ اور سحرش کسی ٹورنامنٹ میں فائنل میں کھیلتی ہیں تو لوگ اکثر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔’کچھ لوگ یقین نہیں کرتے کہ ہم بہنیں ہیں اور ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھیل رہی ہیں۔ لیکن ہمارے لیے جیتنے والا کوئی بھی ہو، ٹرافی پاکستان اور ہمارے گھر ہی آتی ہے۔‘ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنے کے بارے میں ماہ نور نے کہا کہ ’ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ اس میں کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہوتی۔ میں اپنی بہن کو بھی میچ کے دوران حریف کے طور پر لیتی ہوں۔ لیکن جیسے ہی میں کورٹ سے باہر آتی ہوں تو ہم ایک دوسرے کو چھیڑنے لگتے ہیں کہ ہار گئی ہو مجھ سے، اگلے میچ میں بھی مقابلہ ہوگا۔‘
محمد عارف ہر ٹوئر پر اپنی بیٹیوں کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ (فوٹو: علی سسٹرز)
مسلسل ٹریننگ کے باعث یہ تینوں بہنیں آن لائن کلاسز کے ذریعے اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی روزانہ چھ گھنٹے ٹریننگ ہوتی ہے جس کے لیے انہیں صبح چھ بجے کورٹ پہنچنا ہوتا ہے۔ والد نے سکواش کے لیے تینوں بیٹیوں کی ٹریننگ کراچی سے کروائی ہے۔
13 برس کی سحرش علی آل پاکستان انڈر 15 میں نمبر ون سکواش کی کھلاڑی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے امریکہ میں تین مقابلوں میں حصہ لیا اور تینوں مقابلوں میں اپنی بہن کو ہرایا۔ان کے مطابق ’ہماری کامیابی کا آدھا کریڈٹ تو ہماری امی کو جاتا ہے جو ہماری ضرورتوں کا خیال رکھتی ہیں۔‘سحرش علی نے کہا کہ پاکستان کے لیے ٹائٹلز جیتنا بہت اچھا لگتا ہے۔ ’میری خواہش ہے کہ پاکستان کا نام روشن کروں اور خواتین کھلاڑیوں میں الگ پہنچان بناؤں۔ مسقتبل میں بھی بہت جدوجہد کرنی ہے۔ ہم خود کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’پہلے رشتہ دار کہتے تھے کہ یہ پشاور ہے اور یہاں لڑکیاں کیسے کھیلیں گی لیکن اب جب ٹائٹلز دیکھتے ہیں تو سراہتے ہیں۔‘عالمی نمبر ون رہنے والے پاکستان کے سکواش لیجنڈ قمر زمان نے، جو تین بہنوں کی کامیابیوں کے بارے میں جانتے ہیں، اردو نیوز کو بتایا کہ ان بچیوں کے والدین خصوصاً ان کے والد نے ان کے ساتھ بہت محنت کی اور آج تینوں ٹاپ لیول پر کھیل رہی ہیں۔
ماہ نور علی انڈر 13 کیٹگری میں پاکستان اور ایشیا کی نمبر ون کھلاڑی ہیں۔ (فوٹو: علی سسٹرز)
انہوں نے کہا کہ پشاور میں لڑکیوں کے کھیلنے کا کوئی خاص رجحان نہیں تھا۔ ’صرف چند لڑکیاں کھیل رہی تھیں لیکن پاکستان سپورٹس فیڈریشن اور خیبر پختونخوا سکواش ایسوسی ایشن کی کوششوں کی بدولت اب لڑکیاں سکواش کی جانب آ رہی ہیں۔ سکواش میں خواتین کے لیے جگہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ پنجاب سے لڑکیاں سکواش کی ٹرنیننگ کے لیے آیا کرتی تھیں لیکن اب خیبر پختوا کی لڑکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد اس کھیل میں ہے۔‘
پشاور نے ماضی میں ہاشم خان، جہانگیر خان، جان شیر خان اور قمر زمان جیسے سکواش کے عظیم ترین کھلاڑی پیدا کیے ہیں۔ ان کھلاڑیوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا اور جہاں کہیں سکواش کا نام لیا جاتا، خیبرپختونخوا کے ان سپوتوں کے نام کے ساتھ لیا جاتا۔ دہائیاں گزرتی رہیں مگر سکواش کے میدان میں صرف پاکستانی پرچم لہراتا رہا۔سکواش کے میدان میں ایک بار پھر پاکستانی پرچم کو لہرانا، اب پشاور کی ان تینوں بہنوں کا بھی خواب ہے۔مہوش، سحرش اور ماہ نور سکواش کی دنیا میں اپنی انفرادی پہچان بنانا تو چاہتی ہیں لیکن ان کا مقصد ماضی کے عظیم کھلاڑیوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ملک کا نام روشن کرنا بھی ہے۔