بلوچستان میں خاتون اور مرد کے قتل کی وائرل ویڈیو: چیف جسٹس کا ازخود نوٹس، ’مقتولہ خاتون کو سات، مرد کو نو گولیاں لگیں‘

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایک مرد اور عورت کو مبینہ طور پر نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کرنے کی ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد پولیس نے اس ’قتل کا حکم دینے والے‘ قبائلی سردار سمیت دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایک مرد اور عورت کو مبینہ طور پر نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کرنے کی ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد پولیس نے اس ’قتل کا حکم دینے والے‘ قبائلی سردار سمیت دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں ماورائے عدالت مقامی جرگے اور سردار مرد و خواتین کو ناجائز تعلق کے الزام میں قتل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں جسے بلوچستان میں سیاہ کاری اور سندھ کے کچھ علاقوں میں کاروکاری کا نام دیا جاتا ہے۔

ایس ایس پی انویسٹیگیشن ونگ سید صبور آغا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے 11 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا جن میں سے دو کی باضابطہ گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے جبکہ باقیوں سے ابھی تفتیش جاری ہے۔‘

پولیس کے مطابق یہ واقعہ عید سے تین روز پہلے کا ہے اور اس کی ویڈیو واقعے کے 35 روز بعد وائرل ہوئی جس کے بعد اعلیٰ حکام کی جانب سے تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا۔

اتوار سے وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں بظاہر چند مسلح افراد ایک مرد اور خاتون کو گولیاں مار کر قتل کر رہے ہیں۔ اگرچہ بی بی سی اس ویڈیو کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے تاہم حکام نے اس ویڈیو کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ اسی واقعے کی ویڈیو ہے۔

یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد شدید ردِ عمل سامنے آیا تھا جس کے بعد صارفین کی جانب سے حکام سے اس واقعے پر فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کوئٹہ کی پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ مقتولین کی قبر کشائی کے بعد ان کا پوسٹ مارٹم مکمل کر لیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’مقتولہ خاتون کو سات گولیاں لگیں جن میں سے ایک ان کے سر پر ماری گئی تھی، جبکہ مرد کو نو گولیاں لگی تھیں اور یہ گولیاں اس کے سینے اور پیٹ میں لگیں۔'

انھوں نے بتایا کہ یہ واقعہ چار جون 2025 کو پیش آیا تھا اور خاتون کی عمر 35 برس کے قریب ہے۔'

دوسری جانب بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ، آئی جی پولیس کو 22 جولائی کو طلب کرلیا ہے۔

https://twitter.com/PakSarfrazbugti/status/1946928844923195709

’فیصلہ دینے والے قبائلی سردار کو بھی گرفتار کیا گیا ہے‘

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے پیر کو کوئٹہ میں کی گئی ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے کہ ’یہ نوبیاہتا جوڑا نہیں تھا جیسے سوشل میڈیا پر متعدد افراد نے دعویٰ کیا ہے بلکہ ان کے درمیان کوئی ازدواجی تعلق نہیں تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جو خاتون ہلاک ہوئی ہیں ان کے پانچ بچے ہیں اور جو آدمی مارا گیا ہے اس کی عمر 50 سال کے قریب ہے اور اس کے بھی چار، پانچ بچے ہیں۔‘

پولیس کی جانب سے موصول ہونے والیایف آئی آر کے مطابق یہ واقعہ کوئٹہ کے تھانہ ہنہ سے 40 سے 45 کلومیٹر دور سنجیدی ڈیگار نامی علاقے میں پیش آیا۔ پولیس نے 15 افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کیا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کا اپنی پریس کانفرنس میں مزید کہنا تھا کہ ’میں ہلاک ہونے والوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہرانا چاہوں گا لیکن حقائق بھی پاکستان کے لوگوں کو معلوم ہونے چاہییں کیونکہ اس بارے میں مختلف افواہیں چل رہی ہیں۔

’لیکن یہ قتل ہے، جرم ہے، چاہے کچھ بھی کسی نے کیا ہو، کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ اس بے دردی کے ساتھ، اس گھناؤنے انداز میں ویڈیوز بنا کر کسی انسان کا قتل کرنے کی نہ کوئی حکومت، نہ کوئی معاشرہ اجازت دے سکتے ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ 'اس ضمن میں ہم نے فیصلہ دینے والے قبائلی سردار کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔'

ایک سوال کے جواب میں وزیرِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’ہم کارروائی کر چکے ہیں، اس علاقے کے سپیشل برانچ کے ڈی ایس پی کو معطل کر دیا ہے اور اس کو اسی بنیاد پر معطل کیا گیا ہے کہ اس نے حکومت کو بتانا تھا، اس کی یہ ذمہ داری ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کیس میں ایک شخص بھی مدعی بننے کو طور نہیں ہے اور آپ اس حد تک اس معاشرے کی پستی کو دیکھیں کہ جب پولیس چھاپے مارنے جا رہی ہے تو خواتین ان پر پتھراؤ کر رہی تھیں۔‘

ویڈیو میں کیا ہے؟

اس ویڈیو میں تمام لوگ براہوی زبان میں بات کر رہے ہیں اور ان کا لہجہ وہی ہے جو کہ کوئٹہ اور مستونگ کے مختلف علاقوں میں بولا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا بشمول ایکس پر اس ویڈیو کو درجنوں افراد نے شیئر کیا ہے اور اسے لاکھوں مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔

ویڈیو بظاہر کسی پہاڑی مقام پر بنائی گئی ہے جہاں کچی سڑک کے اردگرد ویرانہ ہے۔ شروعات میں متعدد ویگو ڈالے اور جیپیں دیکھی جا سکتی ہیں جن کے باہر دن کی روشنی میں کئی افراد موجود ہیں۔

بظاہر یہ افراد سرخ لباس اور گندمی چادر میں ملبوس ایک خاتون کو گاڑیوں سے کچھ دور کھڑا ہونے کا کہتے ہیں۔ اس دوران خاتون براہوی زبان میں کہتی ہیں کہ ’صرف گولی کی اجازت ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔‘

جس کے بعد وہاں پر موجود مرد یہ کہتے ہیں کہ ہاں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے۔

اس مکالمے کے بعد وہاں پر موجود مرد یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ’قرآن مجید ان کے ہاتھ سے لے لو‘۔ یہ واضح نہیں ہے کہ قرآن خاتون کے ہاتھ میں تھا یا مرد کے جبکہ اس کے ساتھ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’خاموشی خاموشی۔‘ اس کے ساتھ ایک مرد گالیاں بھی دیتا سنائی دیتا ہے۔

خاتون اس کے بعد کوئی مزاحمت نہیں کرتیں بلکہ خاموشی سے گاڑیوں سے دور کھڑی ہو جاتی ہیں۔

اس بات چیت کے بعد ویڈیو میں چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے جبکہ اس کے بعد ایک، ایک کر کے چند گولیاں چلائی جاتی ہیں۔

ویڈیو میں یہ معلوم نہیں ہو رہا ہے کہ پہلے مرد کو گولی ماری گئی یا خاتون کو تاہم پہلے مرحلے کی گولیاں چلانے کے بعد یہ آواز سنائی دی جاتی ہے کہ 'اُس کو مار دو'، جس پر بہت زیادہ گولیاں چلانے کی آواز آتی ہے۔

اس دوران ایک شخص کسی ویڈیو بنانے والے پر ناراضگی کا اظہار بھی کرتا سنائی دیتا ہے جس کے بعد خاتون پر کوئی شخص دوبارہ چند گولیاں چلاتا ہے۔

ترجمان بلوچستان حکومت کا مزید کہنا تھا کہ کہ ’ویڈیو میں دکھائی گئی بربریت انسانیت سوز ہے۔ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘

ڈگاری کہاں واقعہ ہے؟

غیرت کے نام پر قتل کیے جانے والے مرد اور خاتون کا تعلق ضلع کوئٹہ کے علاقے ڈگاری سے تھا۔ ڈگاری کوئٹہ شہر سے اندازاً 45 کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق میں واقع ہے۔

ڈگاری اور اس کے ساتھ دیگر ملحقہ علاقے مارواڑ اور مارگٹ دشوار گزار پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہیں۔

ان علاقوں میں بلوچوں کے ساتکزئی اور سمالانی قبائل کے علاوہ دیگر بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں۔

ان علاقوں میں بڑی تعداد میں کوئلے کی کانیں ہیں جبکہ مقامی قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد کے معاش اور روزگار کا ذریعہ گلہ بانی یعنی بھیڑ بکریاں چرانے کا کام کرنا ہے۔

جہاں یہ علاقے انتہائی دشوار گزار ہیں وہاں ان علاقوں میں کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی سرگرمیاں بہت زیادہ ہیں۔

ایف آئی آر میں کیا واقعہ بیان کیا گیا؟

پولیس کے مطابق سوشل میڈیا کی وائرل ویڈیو کو دیکھنے کے بعد پولیس کی ٹیم کو واقعے کی تصدیق کے لیے متعلقہ علاقے میں بھجوایا۔

پولیس کے مطابق مخبر نے پولیس ٹیم کو بتایا ہے کہ ’یہ واقعہ عید الضحیٰ سے تین روز قبل سنجیدی ڈیگاری علاقے میں پیش آیا ہے۔‘

بتایا گیا ہے کہ ’مقتولین بانو بی بی اور احسان اللہ کو سردار کے پاس فیصلے کے لیے لایا گیا۔‘

ایف آئی آر رپورٹ کے مطابق مقتولین کو کل ’پندرہ افراد تین گاڑیوں میں لے کر وہاں پہنچے۔‘

سردار نے ’فیصلے میں کہا کہ بانو بی بی اور احسان اللہ کاروکاری کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘

’سردار نے انھیں قتل کرنے کا فیصلہ سنایا اور 15 افراد جن میں سے دو نامعلوم ہیں نے ملکر آتشیں اسلحے سے سنجیدی میدانی میں بانو بی بی اور احسان اللہ کو کارکاری کے الزام میں قتل کر دیا۔ ‘

پولیس ایف آئی آر کے مطابق ان افراد نے مقتولین کی ویڈیو بھی ساتھ ساتھ بنائی اور ’واقعے کے 35 دن بعد اسے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔‘

پولیس نے سردار کے فیصلے پر عمل کرنے والے 15 افراد کے خلاف بانو بی بی اور احسان اللہ کو قتل کرنے اور اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے لوگوں میں خوف و حراس پھیلانے کی کوشش کرنے کے جرم میںدفعہ 302 اور انسداد دہشت گردی کے ایکٹ 7 اے ٹی اے سمیت دیگر دفعات کو شامل کیا ہے۔

انتظامیہ کا کیا مؤقف ہے؟

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے مطابق ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد ’ریاست کی مدعیت میں دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور اب تک ایک مشتبہ قاتل گرفتار ہو چکا ہے۔‘

بعد ازاں انھوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک اور پیغام میں دعویٰ کیا کہ ’اب تک 11 ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں، آپریشن جاری ہے۔ تمام ملوث افراد کو کیفرِکردار تک پہنچایا جائے گا۔ ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہے!‘

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ایسی سفاکانہ حرکات ناقابل برداشت ہیں، مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘

کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر میجر ریٹائرڈ مہراللہ بادینی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ویڈیو کے بارے میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ویڈیو گذشتہ روز منظرِعام پر آئی تھی جس کا وزیر اعلیٰ نے نوٹس لے کر اس بارے میں تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’ابھی ابتدائی طور پر یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ ویڈیو پرانی ہے۔ اس علاقے کا تعین کیا جا رہا ہے اور یہ دیکھا جا رہا ہے کہ آیا یہ کوئٹہ کا علاقہ مارواڑ ہے یا ضلع مستونگ میں دشت کا علاقہ ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ضلع کوئٹہ میں پولیس حکام اس بارے میں تحقیقات کررہے ہیں جبکہ مستونگ میں لیویز فورس کے حکام بھی اس بارے میں تحقیقات کررہے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ حکومت نے اس واقعے کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور اس واقعے کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow