افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ ٹرانسپورٹ و ہوابازی کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال افغانستان کی فضائی حدود سے گزرنے والی بین الاقوامی مسافر بردار پروازوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ ٹرانسپورٹ و ہوابازی کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال افغانستان کی فضائی حدود سے گزرنے والی بین الاقوامی مسافر بردار پروازوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
طالبان حکومت کی سالانہ کارکردگی کی وضاحت کے لیےمنعقدہ پروگرام میں اس وزارت کے ایکٹنگ نائب وزیر مولوی فتح اللہ منصور نے کہا: 'گذشتہ ایک سال میں افغانستان کی فضاء سے تقریباً 96 ہزار 500 پروازیں گزریں، یعنی روزانہ اوسطاً 270 کے قریب پروازیں گزرتی ہیں۔'
ٹرانسپورٹ اور ہوابازی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، ہر 24 گھنٹے میں افغانستان کی فضائی حدود سے گزرنے والی پروازوں کی تعداد تقریباً 264 بنتی ہے، جو کہ گذشتہ سال اسی عرصے میں علاقے کی کشیدہ صورتِ حال کی وجہ سے ہونے والی پروازوں کے برابر ہے۔
گذشتہ سال اگست میں طالبان حکومت کے ٹرانسپورٹ اور ہوابازی کی وزارت نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ 'اس وقت روزانہ افغانستان کی فضائی حدود سے 265 مسافر بردار پروازیں گزرتی ہیں۔'
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس وقت ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ایران اور مشرق وسطیٰ میں کشیدہ حالات کے بعد دنیا کی مختلف ہوائی کمپنیوں نے افغانستان کا فضائی راستہ اختیار کیا کیونکہ ایران اور مشروق وسطی کے علاقوں کی فضا غیرمحفوظ سمجھی جا رہی تھی۔
رپورٹ کے مطابق، بہت سی بین الاقوامی فضائی کمپنیاں اب جنوبی اور مشرقی ایشیا کے لیے افغانستان کے فضائی راستے کو محفوظ تصور کرتی ہیں۔
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کی فضائی حدود سے گزرنے والی بین الاقوامی عبوری پروازوں کی تعداد انتہائی کم ہو گئی تھی۔
طالبان حکومت کے ٹرانسپورٹ اور ہوابازی کی وزارت کے ترجمان امام الدین احمدی نے نومبر 2022 میں بی بی سی کو بتایا تھا: 'پہلے ہر 24 گھنٹے میں افغانستان کی فضا سے گزرنے والی بین الاقوامی پروازوں کی تعداد 50 سے 70 کے درمیان ہوتی تھی، لیکن اب یہ تعداد 100 پروازوں تک پہنچ چکی ہے۔'
اگرچہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کی فضائی حدود سے گزرنے والی پروازوں کی تازہ تعداد میں قابل ذکر اضافہ دیکھا گیا ہے لیکن یہ تعداد اب بھی جمہوری دور کے مقابلے میں کم ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ طالبان حکومت پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جمہوری حکومت کے خاتمے سے پہلے افغانستان کی فضائی حدود سے ہر 24 گھنٹے میں 350 سے 400 پروازیں گزرتی تھیں۔
پروازوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کہاں جاتی ہے؟
افغانستان میں طالبان حکومت کے عہدیداروں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ہر گزرنے والی مسافر بردار پرواز سے 700 ڈالر اوور فلائٹ فیس وصول کرتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ان پروازوں سے حاصل ہونے والی یہ رقم طالبان حکومت کے خزانے میں جاتی ہے یا نہیں؟
طالبان حکومت کی سالانہ کارکردگی کے پروگرام میں ٹرانسپورٹ اور سول ایوی ایشن کی وزارت کے ترجمان حکمت اللہ اصفی نے کہا کہ افغانستان کی فضائی حدود مکمل طور پر محفوظ ہیں اور جو پروازیں وہاں سے گزرتی ہیں، ان کو معیاری، بروقت اور مناسب خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ افغانستان کی فضا سے گزرنے والی بین الاقوامی پروازوں سے وصول ہونے والی فیس بین الاقوامی فضائی ٹرانسپورٹ کی تنظیم آئی اے ٹی اے کے اکاؤنٹس میں جمع ہوتی ہے، جس تک طالبان حکومت کو رسائی حاصل نہیں ہے۔
ان کے مطابق ’عبوری پروازوں کی آمدنی آئی اے ٹی اے کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ چونکہ طالبان حکومت کی ٹرانسپورٹ اور ہوابازی کی وزارت کو اس ادارے کے ساتھ کوئی باضابطہ حیثیت حاصل نہیں، اس لیے اس راستے سے فی الحال آمدنی جمع نہیں ہو رہی۔‘
گذشتہ دنوں پاکستان نے انڈین پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی تھیفضائی حدود سے گزرنے والی پروازوں کی فیس کیا ہے؟
وہ ہوائی کمپنیاں جو کسی بھی ملک کی فضائی حدود سے گزرتی ہیں، انھیں ایک مخصوص رقم ادا کرنا پڑتی ہے جسے 'اوور فلائٹ فیس' فضائی حق العبور کہا جاتا ہے۔
جیسے ہر ملک زمین کے راستے اپنے حقوق، محصولات اور آمدنی رکھتا ہے، ویسے ہی اس کی فضائی حدود اور ان سے متعلقہ حقوق بھی متعین ہوتے ہیں۔
مختلف ممالک میں یہ فیس مختلف معیارات اور شرائط کے تحت طے کی جاتی ہے، مثلاً کینیڈا میں یہ فیس طیارے کے وزن اور فاصلے کے حساب سے مقرر ہوتی ہے، جبکہ امریکہ میں صرف فاصلے کی بنیاد پر فیس لی جاتی ہے۔
فضائی فیسوں سے متعلق ایک اصول یہ بھی ہے کہ سمندر یا پانی کے اوپر پرواز کرنے کا خرچ، زمین کے اوپر پرواز کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔
اگرچہ یہ حساب کتاب ہر ملک میں مختلف ہے، لیکن اس وقت افغانستان میں ہر گزرنے والی پرواز سے 700 ڈالر فیس وصول کی جا رہی ہے۔
پاکستان اور انڈیا میں یہ فیس طیارے کی نوعیت، ملک کے اندر اس کی طے مسافت کی بنیاد پر کی بنیاد پر لی جاتی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازعے کے بعد پاکستان کی جانب سے انڈین طیاروں پر ان کی فضائی حدود سے گزرنے پر پابندی کی وجہ سے اسے کافی خسارہ ہوا ہے۔