صوبہ خیبر پختونخوا میں ٹانک سے وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دیہی علاقے کے کچھ لوگ ایک بچی کی لاش اٹھائے سکیورٹی فورسز کی بکتر بند گاڑی کے سامنے کھڑے چیختے ہیں کہ ’نیچے تو اُتر آؤ۔‘ ویلج کونسل کے چیئرمین محمد علی کے مطابق ’ہم نے ان گاڑیوں کو روکا اور ان سے وجہ پوچھی کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ لیکن ان کے پاس جواب نہیں تھا۔‘
’ہم بھاگے کیونکہ ہمیں بچوں کا ڈر تھا۔ اس وقت بچے وہاں کھیل رہے تھے۔ اتنے میں فائرنگ کی آوازیں آئیں جس میں ایک بچی کو گولی لگی اور وہ وہیں دم توڑ گئی۔۔۔‘
یہ الفاظ مبینہ طور پر گولی کا نشانہ بننے والی بچی کے رشتہ دار اور مقامی طور پر ویلج کونسل کے چیئرمین محمد علی کے ہیں۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ خیبر پحتونخوا کے جنوبی ضلع ٹانک میں اما خیل کے علاقے وانڈہ ضلو کا ہے۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر رواں ہفتے ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ دیہی علاقے میں کچھ لوگ ایک بچی کی لاش اٹھائے سکیورٹی فورسز کی بکتر بند گاڑی کے سامنے کھڑے چیختے ہیں کہ ’نیچے تو اُتر آؤ۔‘
بی بی سی کی جانب سے اس ویڈیو کی آزادانہ تصدیق نہیں کی جا سکی ہے تاہم ویلج کونسل کے چیئرمین محمد علی کے مطابق ’ہم نے ان گاڑیوں کو روکا اور ان سے وجہ پوچھی کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ لیکن ان کے پاس جواب نہیں تھا۔ وہ ہم سے موبائل فون لینا چاہتے تھے لیکن ہم نے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دی۔‘
خیال رہے کہ یہ وہی علاقہ ہے جہاں گذشتہ دنوں مقامی لوگوں نے اما خیل کالج کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ یہ وہی کالج ہے جہاں سکیورٹی فورسز کے بعض اہلکار بھی مقیم ہیں۔
ویڈیو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد سنیچر کے روز ضلع ٹانک کے علاقے گل امام میں مقامی عمائدین کا ایک جرگہ منعقد ہوا ہے۔ اس جرگے کے سربراہ عبدالقیوم کنڈی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بچی کی ہلاکت کے بعد اما خیل دھرنے میں اعلان کیا گیا تھا کہ 29 جولائی کو پیزو کے مقام پر انڈس ہائی وے کو بلاک کیا جائے گا۔ ’ہمارا وہ اعلان اپنی جگہ برقرار ہے۔ اگر ہمارے مطالبات تسلیم کر لیے جاتے ہیں تو پھر ہم احتجاج نہیں کریں گے۔‘
جرگے کے مطالبات کیا ہیں؟
جرگے کے سربراہ عبدالقیوم کنڈی کے مطابق اس جرگے میں سرکاری افسران، پولیس اور سکیورٹی حکام فریقین کے درمیان صلح کے لیے نناواتے میں 25 لاکھ روپے اور ذبح کے لیے تین دنبے لائے تھے۔ یہ روایت ہے کہ مقامی طور پر فریقین کے درمیان صلح کے لیے نناواتے لائے جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس سرکاری جرگے کو عمائدین کی جانب سے امن کے قیام کے لیے مطالبات دیے گئے ہیں تاکہ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
جرگے کی جانب سے 11 مطالبات رکھے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ:
- علاقے میں پائیدار امن کو یقینی بنایا جائے
- پاکستان آرمی کے زیرِ حراست ایسے افراد جو ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں انھیں فوری رہا کیا جائے۔
- دہشتگردی میں ملوث افراد کے اہل و عیال کو گرفتار نہ کیا جائے
- سہولت کاری کے الزام میں بغیر ثبوت کے کسی کو گرفتار نہ کیا جائے
- جو اسلحہ پاکستانی فوج لوگوں کے گھروں سے لے کر گئی ہے وہ انھیں واپس کیا جائے
- جو مطلوب افراد ہیں وہ سرکل کنڈیان امن جرگہ کی کابینہ حاضر کریں گی، لیکن اس کی واپسی یقینی بنائی جائے
- گھر میں چھاپے کے دوران چادر اور چار دیواری کا خیال رکھتے ہوئے بغیر اجازت داخلے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
- سرکل کنڈیان میں جو حساس دیہات ہیں وہاں چیک پوسٹ بنائے جائیں
- سجاد ولد انعام اماخیل کو فوری رہا کیا جائے
- اس شخص کو گرفتار کیا جائے جو طالبان کے ساتھ بندوق اٹھائے یا اس کے لیے مخبری کرے۔ لیکن مخبری کے ثبوت پیش کرنے ہوں گے
- اس کے علاوہ آخری مطالبے میں مزید مقامات پر فوجی چوکیاں بنانے کا کہا گیا ہے
واقعہ کیسے پیش آیا؟
مبینہ طور پر گولی کا نشانہ بننے والی بچی کے رشتہ دار اور مقامی طور پر ویلج کونسل کے چیئرمین محمد علی نے اس واقعے کی تفصیلات بتایا کہ سب رشتہ دار نمازِ عصر کے لیے تیار تھے کہ اتنے میں گاڑیوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ 'ہمارا چھوٹا سا گاؤں ہے اور ایک پتلی سڑک ہے، (یہاں) زیادہ گاڑیاں نہیں آتیں۔'
ان کے بقول 23 جولائی کی شام گاؤں میں سکیورٹی فورسز کے لوگ گاڑیوں میں آئے تھے اور سکیورٹی فورسز کی بکتر بند گاڑی کے پیچھے پولیس کی نیلے رنگ کی بکتر بند گاڑیاں بھی تھی جو ویڈیو میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
محمد علی نے بتایا کہ 'ہم بھاگے کیونکہ ہمیں بچوں کا ڈر تھا۔ اس وقت بچے وہاں کھیل رہے تھے۔ اتنے میں فائرنگ کی آوازیں آئیں جس میں ایک بچی کو گولی لگی اور وہ وہیں دم توڑ گئی۔ باقی بچے گھروں میں چلے گئے تھے۔'
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ان گاڑیوں کو روکا اور ان سے وجہ پوچھی کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ لیکن ان کے پاس جواب نہیں تھا۔ وہ ہم سے موبائل فون لینا چاہتے تھے لیکن ہم نے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا یہاں مسلح شدت پسندوں کے خلاف کوئی آپریشن جاری تھا اور شدت پسندوں کے ساتھ جھڑپ کے دوران گولی بچی کو لگی تو انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جس گلی میں بچی موجود تھی، وہاں کوئی شدت پسند نہیں تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس بچی کے والد نیم فوجی اہلکار ہیں جو ڈیوٹی پر ضلع کرم کے پہاڑوں پر تعینات ہیں اور اس واقعے کے بعد انھیں بچی کے جنازے میں شرکت کے لیے چھٹی دی گئی ہے۔
درج کیے گئے مقدمے میں کیا کہا گیا؟
اس واقعے کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
محمد علی کی مدعیت میں تھانہ سی ٹی ڈی میں درج ایک مقدمے میں اس بچی کا نام ثانیہ بی بی بتایا گیا ہے جس کی عمر لگ بھگ 9 یا 10 سال تھی۔
مقدمے کے متن کے مطابق محمد علی اپنے علاقے میں موجود تھے جب فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ وہ بھاگ کر پہنچے تو ایک مکان کے ساتھ ثانیہ بی بی کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انھیں بتایا گیا کہ سکیورٹی فورسز نے دہشت گرد عناصر کی موجودگی پر بسلسلہ آپریشن کارروائی کی ہے۔
دوسری طرف ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ جب یہ واقعہ رونما ہوا تو اس سے قبل علاقے میں مسلح شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات تھیں جن کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی جاری تھی۔
پولیس افسر نے بتایا کہ اس علاقے میں مسلح شدت پسندوں کے ساتھ سکیورٹی فورسز کی جھڑپ ہوئی ہے اور اس دوران ایک گولی اس بچی کو لگی جس سے لڑکی کی جان چلی گئی۔
پولیس ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ مقامی لوگ سکیورٹی فورسز پر الزام عائد کر رہے ہیں تاہم اب تک کی تحقیقات کے مطابق بچی کو شدت پسندوں کی گولی لگی تھی۔
بی بی سی کی جانب سے اس حوالے سے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے رابطہ کیا گیا ہے اور اس واقعے سے متعلق سوال پوچھے گئے ہیں۔ لیکن اب تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
اس سے قبل خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپوں یا انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کے دوران خواتین اور بچوں سمیت عام شہری متاثر ہوئے ہیں۔
کچھ روز قبل ضلع ٹانک میں گومل کے علاقے راغزائی میں مقامی لوگوں کے مطابق ایک گھر پر ماٹر گولہ گرا تھا جس میں دو چھوٹے بچے جان کی بازی ہار گئے جبکہ اس واقعے میں کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے۔اس بارے میں پولیس حکام سے رابطہ کیا گیا تو ان کا یہی کہنا تھا کہ اس واقعے کے بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہے۔
مقامی افراد کیا کہتے ہیں؟
اس واقعے کے بعد مقامی لوگ اور قریبی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے احتجاج کیا ہے اور اما خیل کالج کے سامنے دھرنا دیا۔ اس بارے میں محمد علی شاہ نے بتایا کہ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ وہ حکومت کی موجودہ پالیسی میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ وہ یہ پالسی نہیں چاہتے جس میں 'بے گناہ پشتونوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔'
علاقے کے رہنما عبدالقیوم نے بتایا کہ حالات پریشان کن ہیں اور وہ اس بارے میں مشاورت کریں گے۔
مقامی سوشل ورکر اور قبائلی رہنما پٹو لالہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس طرح کے واقعات علاقے میں روزانہ کی بنیاد پر پیش آ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 'ان واقعات کی روک تھام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی پشتون لیڈرشپ کو ایک پیج پر آنا ہو گا اور ایک ہی موقف اختیار کرنا ہوگا۔'
پتو لالہ کے مطابق یہ سیاستدان 'الگ الگ جرگے اور قبائل سے ملاقاتیں کر کے بیانات جاری کر دیتے ہیں لیکن ان واقعات کی روک تھام کے لیے ایک ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔'
سوشل میڈیا پر اِن ویڈیوز پر سخت ردعمل دیا گیا ہے۔ فیس بک پر ایک صارف نے لکھا کہ 'ابھی ہم ایک احتجاج سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ اچانک ایک دوسرے المناک اور انسانیت سوز واقعے پر احتجاج کیلئے بیٹھ گئے ہیں۔ ہماری زندگی احتجاج بن گئی ہے۔'
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں کواڈ کاپٹر کے حملے میں چار بچے نشانہ بنے تھے جبکہ چند روز بعد اسی علاقے میں کرکٹ کھیلنے والے بچوں پر کواڈ کاپٹر سے دھماکہ کیا گیا تھا۔
اسی طرح جنوبی وزیرستان کے برمل کے علاقے میں فٹ بال کھیلتے بچوں کے قریب کواڈ کاپٹر حملے میں بڑی تعداد میں بچے زخمی ہوگئے تھے۔ اسی طرح لکی مروت میں شام کے وقت میدان میں موجود بچوں کے قریب کواڈ کاپٹر دھماکے سے 14 افراد زخمی ہوگئے تھے جن میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی۔
مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق صرف مئی کے مہینے میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپوں اور آپریشنز میں کم از کم 14 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔