پانچویں دن کھیل کے تیسرے اور آخری سیشن میں جب انگلینڈ کے کپتان بین سٹوکس نے مقررہ اوورز سے پہلے کھیل کو برابری (ڈرا) پر ختم کرنے کی پیشکش کی تو کریز پر موجود رویندر جڈیجہ نے اسے مسترد کر دیا جس نے کرکٹ کے حلقوں میں ’ریکارڈ کی اہمیت‘ اور ’جنٹلمینز گیم‘ کی پرانی بحث کو تازہ کر دیا۔
میچ کے آخری لمحات میں بین سٹوکس کی ڈرا کی پیشکش کو انڈین بلے بازوں کی جانب سے مسترد کر دیا گیامانچسٹر کے اولڈ ٹریفرڈ سٹیڈیم میں اتوار کو انڈیا اور انگلینڈ کے درمیان سیریز کا چوتھا کرکٹ ٹیسٹ میچ بےنتیجہ ختم ہوا تو انڈین ٹیم اور دنیا بھر میں موجود انڈین مداحوں نے جیت سے بڑھ کر اس کا جشن منایا۔
اِس پانچ روزہ مقابلے میں انگلینڈ کی ٹیم حاوی رہنے کے بعد بھی جیت سے محروم رہی اور انڈیا نے اپنی دوسری اننگز میں جو مزاحمت پیش کی اسے ’تاریخی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
پانچویں دن کھیل کے تیسرے اور آخری سیشن میں جب انگلینڈ کے کپتان بین سٹوکس نے مقررہ اوورز سے پہلے کھیل کو برابری (ڈرا) پر ختم کرنے کی پیشکش کی تو کریز پر موجود رویندر جڈیجہ نے اسے مسترد کر دیا جس نے کرکٹ کے حلقوں میں ’ریکارڈ کی اہمیت‘ اور ’جنٹلمینز گیم‘ کی پرانی بحث کو تازہ کر دیا۔
بہت سے لوگ جہاں بین سٹوکس کی پیشکش کو غلط قرار دے رہے ہیں اور اسے جلدبازی میں اٹھایا گیا قدم قرار دے رہے ہیں وہیں بہت سے لوگ جڈیجہ کے رویے کو کرکٹ کے ’جنٹلمینز گیم کی روح کے منافی‘ قرار دے رہے ہیں۔
در اصل جب سٹوکس نے ڈرا کی پیشکش کی اس وقت جڈیجہ 89 رنز پر کھیل رہے تھے اور دوسرے اینڈ پر واشنگٹن سُندر 80 رنز پر کریز پر موجود تھے جبکہ انڈیا کا سکور چار وکٹوں کے نقصان پر 386 رنز تھا اور اس نے انگلینڈ کی پہلی اننگز کی 311 رنز کی سبقت کو ختم کر دیا تھا۔
جب میچ کے اختتام پر انڈین کپتان شبھمن گل سے پوچھا گیا کہ میچ کو ختم کرنے کا فیصلہ کس کا تھا؟ تو انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کریز پر موجود ’لڑکوں کا تھا۔ میرے خیال سے انھوں نے شاندار بیٹنگ کی، دونوں نوے سے زیادہ رنز پر کھیل رہے تھے۔ہم نے سوچا کہ وہ سنچری کے حقدار ہیں۔‘
بہرحال بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کرکٹ میں ذاتی ریکارڈ کو اہمیت نہیں دی جاتی اور بین سٹوکس بطور کپتان اس کا بہت خیال نہیں رکھتے ہیں لیکن انگلیند کے سابق کپتان اور کرکٹ کمنٹیٹر ناصر حسین کا کہنا تھا کہ 'انگلینڈ کے بولر تھکے ہوئے تھے، وہ جانا چاہتے تھے لیکن کریز پر موجود دو انڈین لڑکوں نے 80 اور 90 رنز تک پہنچنے کے لیے بہت محنت کی تھی اور وہ سنچری پوری کرنا چاہتے تھے۔ ایسے میں یہ (ڈرا کی آفر) زرا بیوقوفانہ تھا۔‘
میچ کے اختتام پر بین سٹوکس جڈیجہ سے بات کرتے ہوئےچوتھے ٹیسٹ میچ کا احوال
انگلینڈ اس ٹیسٹ سیرز میں دو، ایک سے آگے ہے۔ چوتھے ٹیسٹ میں اس نے ٹاس جیت کر انڈيا کو بیٹنگ کی دعوت دی تھی اور انڈین ٹیم تقریباً ڈیڑھ دن میں 358 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی جس میں اوپنر جیسوال کے علاوہ سائی سدرشن اور رشبھ پنت نے نصف سنچریاں سکور کیں جبکہ بین سٹوکس نے پانچ اور جوفرا آرچر نے تین وکٹیں لیں۔
انگلینڈ نے جواب میں تیز رفتاری کے ساتھ کھیلنا شروع کیا اور دوسرے دن کا کھیل ختم ہونے پر اس نے دو وکٹوں کے نقصان پر 225 رنز بنا لیے تھے۔ تیسرے دن کا کھیل جو روٹ کے نام رہا جبکہ چوتھے دن بین سٹوکس نے سنچری سکور کی اور انگلینڈ کو ایک ایسا مجموعہ (669) فراہم کیا جہاں سے انگلینڈ کی شکست کے آثار معدوم ہو گئے۔
چوتھے دن جب انگلینڈ کی ٹیم آل آوٹ ہوئی تو اس نے انڈیا پر 311 رنز کی سبقت حاصل کر لی تھی اور پھر پہلے ہی اوور میں جب انڈیا کی دو وکٹیں صفر پر گر گئیں تو شکست کے آثار اور بھی نمایاں ہو گئے لیکن پھر کپتان گل اور کے ایل راہل نے ٹیم کو سنبھالا دیا اور بغیر کسی نقصان کے دو سیشنز کی بیٹنگ کی۔
اگرچہ گل نے دو مواقع دیے لیکن انگلش ٹیم اس کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی پانچویں دن جب گل آوٹ ہوئے تو انھوں نے سیریز کی چوتھی سنچری بنا لی تھی اور اس کے ساتھ ہی وہ گاوسکر اور بریڈمین کی صف میں شامل ہو گئے۔ البتہ کے ایل راہل سنچری بنانے سے محروم رہ گئے۔
گل کے آؤٹ ہونے کے بعد جوفرا آرچر نے نئے آنے والے بیٹسمین رویندر جڈیجہ کو بھی تقریبا آؤٹ کر دیا تھا لیکن انگلش ٹیم نے وہ موقع گنوا دیا۔ لنچ سے قبل انڈیا کی چار وکٹیں گر چکی تھیں لیکن پھر آل راؤنڈر واشنگٹن سُندر اور جڈیجہ نے انگلینڈ کی ساری حکمت عملی کو اپنی بیٹنگ سے ناکام کر دیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انگلینڈ کے بولرز اور فیلڈرز تھکنے لگے یہاں تک کہ یہ واضح ہو گيا کہ اب ہار جیت کا فیصلہ ممکن نہیں تو بین سٹوکس نے کھیل کو ختم کرنے کی پیشکش کی جہاں سے ایک نئے تنازعے نے جنم لیا جو شاید آخری میچ میں کانٹے کے مقابلے کی راہ ہموار کرے گا۔
بین سٹوکس نے میچ کے بعد یہ تسلیم کیا کہ سیریز کے کھیلے گئے چاروں میچ بہت سخت رہے۔ بطور خاص بولروں کے لیے تو بہت ہی سخت رہے اور کانٹے کا مقابلہ رہا۔
جڈیجہ اور سُندر نے 203 رنز کی ناقابل شکست شراکت داری قائم کی اور میچ کو انگلینڈ کی گرفت سے نکال لیاجڈیجہ اور سندر کی تعریف
لیکن ان سب سے قطع نظر سوشل میڈیا پر انڈین ٹیم کی اس کارکردگی کو کسی جیت سے کم نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگ جڈیجہ اور سندر کی اننگز کو آسٹریلیا کے خلاف کھیلی گئی لکشمن اور دڑاوڈ کی اننگز سے بہتر قرار دے رہے ہیں۔
آپ کو شاید یاد ہو کہ آسٹریلیا کے خلاف سنہ 2001 میں کولکتہ کے تاریخی ایڈن گارڈنز پر انڈیا نے فولو آن کھیلتے ہوئے بھی میچ 171 رنز سے جیت لیا تھا۔ اس میچ میں لکشمن نے یادگار اننگز کھیلی تھی اور 281 رنز بنائے تھے جس کا کرکٹ کی تاریخ کی چند بہترین اننگز میں شمار ہوتا ہے۔ دوسری جانب ڈریوڈ نے 180 رنز بنائے تھے۔
ہم نے اس حوالے سے سپورٹس صحافی معین الدین حمید سے کینیڈا میں بات کی تو انھوں نے کہا کہ بہت سے ایسے کھلاڑی ہوتے ہیں جو ذاتی ریکارڈ کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔
اس ضمن میں انھوں نے عمران خان کا ذکر کیا کہ جب انڈیا کے خلاف حیدرآباد ٹیسٹ میں جاوید میانداد 280 رنز پر کھیل رہے تھے تو انھوں نے 581 رنز پر اننگز کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا جس پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گيا تھا کہ انھوں نے جاوید کو ٹرپل سنچری سے محروم کر دیا۔ لیکن وہ میچ پاکستان ایک اننگز اور 119 رنز سے جیتا تھا اور عمران نے 35 رنز کے عوض چھ وکٹیں لی تھیں۔
اسی طرح راہل ڈریوڈ نے ملتان میں اس وقت اننگز ڈیکلیئر کر دی تھی جب تندولکر 194 رنز پر کھیل رہے تھے اور انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ تندولکر سے جلتے ہیں۔ اس وقت بھی ذاتی ریکارڈ اور ٹیم کی جیت کے متعلق کرکٹ پنڈتوں میں مباحثہ نظر آیا تھا۔
اسی طرح 1970-71 میں میلبرن میں بل لیری نے آسٹریلین اننگز کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا جب روڈنی مارش اپنی پہلی سنچری سے صرف آٹھ رنز پیچھے تھے۔
اسی طرح سڈنی ٹیسٹ میں آرتھرٹن نے ہکس کی سست رفتار بیٹنگ سے تنگ آ کر اننگز کو اس وقت ڈیکلیئر کر دیا جب ہکس 98 رنز پر تھے۔ اس کے بعد ہکس نے پوری سیریز آرتھرٹن سے بات نہیں کی۔
انھوں نے مزید کہا کہ انڈیا اور پاکستان میں ریکارڈز کو کافی اہمیت دی جاتی ہے اس لیے جڈیجہ کا منع کرنا سمجھ میں آتا ہے تاہم انھوں نے انگلینڈ کی پچز کو تنقید کا نشانہ بنایا جہاں بولرز کے لیے کچھ نہیں ہے اور دونوں جانب سے سنچریاں لگائی جا رہی ہیں۔
کینیڈا سے فون پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا اس میچ میں جہاں پانچ سنچریاں لگیں وہیں چار سنچریاں مس بھی ہوئیں۔ اب آپ سوچیں کہ کس طرح کی پچز بنائی ہیں۔ انھوں نے ازرہ تفنن کہا کہ کہیں یہ پچز روٹ کے لیے تو نہیں بنائی گئی ہیں کہ وہ تنڈولکر کا سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ توڑ سکیں۔
سٹوکس کی جانب سے ڈرا کی پیشکش کے بارے میں کہا کہ ’یہ قطیعت کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں ان کی شرارت نہیں تھی کیونکہ انگلش کرکٹرز جتنے بھولے نظر آتے ہیں شاید اتنے ہوتے نہیں ہیں۔‘
انڈین ٹیم نے سیریز میں بہت سارے ریکارڈز بنائےسوشل میڈیا پر مباحثہ
سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے جہاں انڈیا کی مزاحمت اور جڈیجہ اور سندر کی تعریف ہو رہی ہے وہیں بین سٹوکس کو جڈیجہ اور سندر کی سنچری سے قبل ڈرا کی پیشکش پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
للت کور ڈھلوں نامی ایک صارف نے لکھا: ’ہر بار جب میں بین سٹوکس کو ان کے ناقابل یقین آل راؤنڈ ٹیلنٹ کے لیے خراج تحسین پیش کرنے ہی والی ہوتی ہوں تو وہ یا ان کی ٹیم کوئی ایسی چیز کر گزرتی ہے جو مجھے یاد دلاتی ہے کہ میں کیوں ایسا کرنے سے ہمیشہ پیچھے ہٹ جاتی ہوں۔ لیڈروں کو معیار بنانے کے لیے جانا جاتا ہے نہ کہ انھیں ڈبونے کے لیے۔‘
سندیپ کوکریتی نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا: ’بین سٹوکس نے انڈین بیٹرز کو سنچری سے باز رکھنے کے لیے ڈرا کی پیشکش کی، پھر انکار کرنے پر پارٹ ٹائمر بولر لگا دیے۔ اگر انڈیا نے ایسا کیا ہوتا تو یہ کرکٹ کی روح کے منافی ہوتا لیکن جب انگلینڈ یہ کرتا ہے، تو اسے ’ٹیکٹیکل جینیس‘ کہا جاتا ہے۔ وہ اب بھی اس نوآبادیاتی ہینگ اوور میں پھنسا ہوا ہے جبکہ ایک مضبوط انڈیا ان کی نرگسیت پسندانہ، نسل پرستانہ گھمنڈ کو زخمی کر رہا ہے۔‘
کرکٹ کمنٹیٹر جتن سپرو نے اپنے انسٹاگرام پر کہا کہ ’انگلینڈ نے تو شیمپین برف پر رکھ دی ہو گی کہ چائے کے وقفے تک تو جشن منائیں گے لیکن انڈین بیٹسمین نے انھیں محروم کر دیا اس لیے آپ ان سے ان کا کریڈٹ نہ لو۔‘
انھوں نے ایکس پر متواتر ٹویٹس میں بھی اس کا اظہار کیا۔ ایک ٹویٹ میں انھوں نے لکھا: ’نہیں جناب، جڈیجہ نے ہیری بروک کے خلاف سنچری نہیں بنائی، انھوں نے یہ سنچری پورے (انگلش) بولنگ اٹیک کے خلاف حاصل کی اور وہ بھی انتہائی دباؤ میں، اپنی ٹیم کے لیے کمر باندھ کر لڑتے ہوئے! اپنے بولرز کو بچانے کے لیے پارٹ ٹائمرز کا استعمال کریں لیکن کسی کی کوشش کی بے عزتی نہ کریں!‘
ایک دوسرے ٹویٹ میں انھوں نے لکھا: ’اگر یہ سٹوکس کے ڈرا کی پیشکش اور واک آف کرنے کے بارے میں ہے تو، یہ ویژول انڈیا کی جیت ہیں۔۔۔‘
بہرحال 31 جولائی کو اوول کے میدان پر کھیلے جانے والے پانچویں اور آخری ٹیسٹ میں انڈیا کی ٹیم پورے جوش کے ساتھ جیت کے لیے اُترے گی اور چاہے گی کہ سیریز ڈرا کر لے جو کہ ان کے لیے کسی بڑی جیت سے کم نہیں ہو گی لیکن انگلینڈ ڈرا کر کے بھی خوش ہو گی کہ اس نے اپنی سبقت برقرار رکھی۔
انگلینڈ اور انڈیا کا میچ اور پاکستانی مداح کی شرٹ
اسی میچ کے آخری دن ایک اور تنازعہ کھیل کے آغاز سے قبل بھی سامنے آیا جبسٹیڈیم میں موجود ایک پاکستانی کرکٹ مداح کو اپنی قمیض ڈھانپنے کے لیے کہا گیا کیونکہ وہ پاکستان کی قومی ٹیم کی کٹ پہنے ہوئے تھا۔
فاروق نذر نامی اس مداح نے اس گفتگو کو ریکارڈ کیا اور اسے سوشل میڈیا پر شائع بھی کیا۔
ویڈیو میں فاروق کو میچ سے قبل ایک سٹینڈ میں بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے جہاں وہ یہ بتاتے ہیں کہ اس سٹینڈ میں وہ واحد پاکستانی ہیں اور ماحول سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
اسی اثنا میں گراؤنڈ سٹاف کا ایک رکن ان کے قریب آ کر انھیں اپنی قمیض کو جیکٹ سے ڈھانپنے کو کہتا ہے تو فاروق ایسا کرنے سے انکار کرتے ہوئے ان سے یہ ہدایت تحریری طور پر طلب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بعدازاں ویڈیو میں پولیس اہلکاروں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جو فاروق کو سٹینڈ سے باہر چل کر بات کرنے کو کہتے ہیں اور کچھ بحث کے بعد فاروق اس بات پر رضامند ہو جاتے ہیں۔
اس دوران فاروق کو یہ بھی کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ان کے پاس میچ کا ٹکٹ ہے اور سٹینڈ میں موجود کسی انڈین مداح نے ان کے بارے میں شکایت نہیں کی ہے تو انھیں قمیض ڈھانپنے کو کیوں کہا جا رہا ہے۔
پولیس اہلکاروں سے بات چیت کے بعد فاروق نے اپنی قمیض ڈھانپنے کی بجائے سٹیڈیم میں واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ ویڈیو میں وہ یہ بتاتے ہیں کہ 'انھوں نے مسلسل مجھ سے میری شرٹ جیکٹ سے ڈھانپنے کو کہا، لیکن میں نے ایسا نہ کرنے اور میدان سے جانے کا فیصلہ کیا. اب بھی میں نے پاکستانی شرٹ پہنی ہوئی ہے۔'
خیال رہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ضوابط میں ایسے تماشائیوں کو کہ جن کا ملک اس میچ میں شریک نہ ہو اپنے ملک کا نمائندہ لباس پہننے سے روکنے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
ویڈیو میں ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے ضرور سنا جا سکتا ہے کہ یہ سٹیڈیم کے ضوابط کا حصہ ہے تاہم ابھی تک اولڈ ٹریفورڈ سٹیڈیم یا لنکاشائر کرکٹ نے اس واقعے کے حوالے سے کوئی وضاحت جاری نہیں کی ہے۔
ادھر اس واقعے پر سوشل میڈیا پرصارفین نے سٹیڈیم انتظامیہ کو نشانہ بنایا ہے اور اسے کرکٹ کے کھیل میں سیاسی مداخلت سے تعبیر کیا ہے۔
پاکستانی صارفین اس موقع پر لاہور میں چیمپیئنز ٹرافی کے میچ کی تصاویر بھی شیئر کرتے دکھائی دیے جس میں پاکستانی شائقین نے انڈین کرکٹر وراٹ کوہلی کے نام والی قمیض پہنی ہوئی تھی۔