کسی زمانے میں بڑے کہا کرتے تھے کہ علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے تمہیں چین جانا پڑے ، لیکن اب سینٹرل جیل کا ماحول ایسا بنادیا گیا ہے کہ آپ اس مثال کو یوں سوچیں گے کہ علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے تمہیں جیل جانا پڑے۔
کراچی سینٹرل جیل جسے پچھلے سالوں میں اصلاحی مرکز میں تبدیل کیا گیا ہے یہاں اب قیدیوں کو چائینیز، انگلش اور عربی زبان کی کلاسسز دی جاتی ہیں ، یہی نہیں بلکہ ایسے قیدی جنہیں اردو لکھنا پڑھنا نہیں آتی ، جیل میں انھیں بھی ابتدائی تعلیم کے ذریعے اردو سکھائی جاتی ہے۔
جیل سپریٹنڈنٹ عبدالکریم عباسی کے مطابق جیل میں چینی زبان سیکھنے والے دو قیدیوں کو رہائی کے بعد سی پیک میں نوکری بھی مل چکی ہے، جہاں وہ مترجم کا کام کررہے ہیں۔
جیل میں ان قیدیوں کے انتظامی امور دیکھنے والے محمد یوسف کے مطابق جیل میں چینی زبان سکھانے کے حوالے سے کہانی بہت ہی مزیدار ہے، ہوا کچھ یوں کہ کووڈ کے زمانے میں ایک چینی مترجم زائد المیعاد ویزہ کیس میں جیل کسٹڈی ہوکر آیا تو جیل انتظامیہ نے موقع غنیمت جان کر نہ صرف اس سے مکمل چینی زبان کا کورس مرتب کروایا بلکہ اس سے چینی زبان کی کلاسسز بھی شروع کروا دیں۔ چھ ماہ بعد وہ قیدی تو رہا ہوگیا لیکن جانے سے پہلے وہ جیل میں تعلیم کا پودا لگا گیا جو بعد میں آنے والوں کے لیے شجر ثابت ہوا۔
اس وقت جیل میں ہفتے میں دو شفٹوں میں تین کلاسز ہوتی ہیں جس میں ایک کلاس میں 20 سے 25 قیدی چینی زبان سیکھتے ہیں، جن کی عمر کی کوئی قید نہیں ہے ، جو قیدی اپنے وقت کو مثبت انداز میں استعمال کرنا چاہتا ہے اسے یہاں زبان سیکھنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے استاد محمد افتخار بھی ایک قیدی ہیں لیکن وہ ایک ماہر زبان دان کی طرح نہ صرف قیدیوں کوچینی زبان سکھا رہے ہیں بلکہ انھوں نے قیدیوں کو چینی قومی ترانہ بھی سکھا دیا ہے۔
افتخار کہتے ہیں کہ پڑھانے کا طریقہ بہت سادہ ہے قیدیوں کو زبان سکھانے کے لیے انھوں نے رومن انگلش کا سہارا لیا اور باقاعدہ کورس ترتیب دیا، اس کورس کو مزید جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اب جامعہ کراچی کا کورس پلان استعمال کیا گیا ہے۔
سپریٹنڈنٹ جیل عبدالکریم عباسی کے مطابق ان کی کوشش ہے ہر وہ قیدی جو جیل آئے اسے سدھرنے کا پورا موقع دیا جائے تاکہ مستقبل میں جب وہ رہا ہو کر باہر نکلے تو اپنی زندگی کی گاڑی مثبت ٹریک پر ڈال سکے۔