امکان ہے کہ سنہ 2050 تک دنیا بھر میں ٹربیولینس کے واقعات تین گنا تک بڑھ جائیں گے اور اس سے زیادہ تر شمالی بحر اوقیانوس اور شمالی ایشیا کے روٹس متاثر ہو سکتے ہیں۔

شدید فضائی جھٹکے یعنی ایئر ٹربیولینس سے متاثر ہونے والی سنگاپور ایئر لائن کی پرواز میں سوار ایک مسافر نے بتایا کہ ’یہ بہت ہی ہولناک تھا۔ ہم نے جہاز کی چھت پر خون دیکھا۔‘ انھوں نے بتایا کہ بہت سے افراد زمین پر پڑے تھے۔
رواں سال یونائیٹڈ ایئرلائن کی ایک فلائٹ کو اس وقت شدید ٹربیولینس کا سامنا کرنا پڑا جب وہ فلپائن کے اوپر سے پرواز کر رہی تھی۔
جھٹکے اتنے شدید تھے کہ جہاز کے عملے میں شامل ایک فضائی میزبان چھت سے ٹکرائے جس سے اُن کا بازوں فریکچر ہو گیا۔
انسانی وجوہات کی بنا پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب ٹربیولینس کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یونیورسسٹی آف ریڈنگ کے محقق اور پروفیسر پاؤل ولیم کی تحقیق کے مطابق سنہ 1979 کے بعد سے اب تک شدید کلیئر ایئر ٹربیولینس یعنی ایسی ناہموار ہوا جو سیٹلائٹ، ریڈار اور آنکھ سے بھی دکھائی نہ دے، کی موجودگی میں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
امکان ہے کہ سنہ 2050 تک دنیا بھر میں ٹربیولینس کے واقعات تین گنا تک بڑھ جائیں گے اور اس سے زیادہ تر شمالی بحر اوقیانوس اور شمالی ایشیا کے روٹس متاثر ہو سکتے ہیں۔
خطرات کے علاوہ ٹربیولینس کی وجہ سے ایوی ایشن انڈسٹری کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس سے جہازوں کو نقصان پہنچتا ہے اور بعض اوقات ٹربیولینس سے بچنے کے لیے پائلٹ لمبے روٹس لینے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے ایندھن زیادہ خرچ ہوتا ہے۔
انسانی وجوہات کی بنا پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب ٹربیولینس کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہےٹربیولینس سولیشن نامی آسٹریا کی ایک کمپنی نے ایسے چھوٹے فلیپٹس بنائے ہیں جو جہاز کے ونگز سے منسلک ہوں گے۔ یہ فلپٹس ہوا کا رخ اور پریشر کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو ایڈجٹس کر سکتے ہیں۔ جس سے جہاز کسی حد تک پرندوں کے پرؤں کی ماند ہوا میں اپنے ونگز کی ڈائریکشن تبدیل کر سکتے ہیں۔
گو کہ اس ٹیکنالوجی کو ابھی تک چھوٹے جہازوں میں استعمال کیا گیا ہے لیکن کمپنی کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے مسافروں کے لیے ٹربیولینس کا اثر اسی فیصد تک کم ہو سکتا ہے لیکن کمپنی کی سی ای او اندرے گیلفی جو خود بھی پائلٹ ہیں کافی پر اعتماد ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اس سے بڑے ہوائی جہازوں کو بھی فائدہ ہو گا۔
ہوا کے بھنور میں اوپر کی جانب پرواز کرنا جس میں ایئر ٹربیولینس بھی کم ہو ، اس کے لیے جدید انجینیئیرنگ، ریاضی اور دیگر عوامل کا تجزیہ ضروری ہے جو مجموعی طور پر ایک پیچیدہ کام ہے۔ انسانوں کے لیے اسے سمجھنا مشکل ہے لیکن آرٹیفیشل انٹیلجنس کے ذریعے قدرے آسان ہے۔
سٹاک ہوم میں موجود کے ٹی ایچ رائل انسٹیٹیوٹ کے ریسرچر ریکاڈو وینسیا کا کہنا ہے کہ کثیر جہتی ڈیٹا اور پیٹرن کا تجزیہ کرنے میں مشین زیادہ متحرک ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بارسلونا سپر کیمپوٹنگ سنٹر نے ٹی یو ڈیلفٹ کے اشتراک سے ایک ایسے آرٹیفیشل انٹیلجنس سسٹم کا تجربہ کیا جو مصنوعی ہوائی جہاز کے ونگ پر ہوا کے مصنوعی جیٹ طیاروں کو کنٹرول کرے گا۔ انھوں نے بتایا کہ آرٹیفیشل انٹیلجنس کو ٹرائل اینڈ ایئرر ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
ریکارڈو وینسیا نے بتایا کہ عمومی طور نیوٹرل نیٹ ورکس میں سیاہ خانوں کو شمار کیا جاتا ہے لیکن ہم نے ایک وضاحتی آرٹیفیشل انٹیلیجنس ماڈل استعمال کیا جس کے ذریعے ہم اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ ماڈل سے کی گئی پیشگوئی میں سب سے زیادہ اہم پیمائش کون سی ہے۔
ریکارڈو وینسیا اور اُن کے ساتھی ٹیک کمپنی کمپنیوں کے ساتھ مل کر ٹیکنالوجی کو مزید فروغ دے رہے ہیں۔ گذشتہ سال نیواڈا اور کالٹیک کی ٹیم نے ایک ہوا کی سرنگ میں شدید ٹربیولینس پیدا کی تاکہ آرٹیفیشل انٹیلجنس سنینگ اور پریڈکشن سسٹم سے لیس ڈرون اس کو ٹیسٹ کر سکیں۔
ناسا کے لینگلے ریسرچ سینٹر کے محققین نے اسے مقصد کے لیے ایک مائیکروفون کا تجربہ کیا جو 480 کلومیٹر دور تک ایئر ٹربیولینس سے پیدا ہونے والی انتہائی کم انفراساؤنڈ فریکوئنسیوں کا پتہ لگا سکتا ہے۔
خطرات کے علاوہ ٹربیولینس کی وجہ سے ایوی ایشن انڈسٹری کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس سے جہازوں کو نقصان پہنچتا ہےایک اور نظریہ جو سنہ 2010 سے فعال ہے اس میں لائٹ ڈیٹیکشن اور رینجنگ کو استعمال کرتے ہوئے جہاز کے اطراف ہوا کا تھری ڈی نقشہ بنایا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے خود ساختہ کاریں اردگرد موجود چیزوں اور گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے نقشہ بناتی ہیں۔
سنہ 2023 میں چین کی ایک مطالعاتی رپورٹ میں ’دوہری طول موج‘ پر مبنی لِڈر سسٹم کی تجویز پیش کی جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ہوائی جہاز کے آگے سات سے 10 کلومیٹر درمیان کلیئر ایئر ٹربیولینس کا پتا لگا سکتی ہے۔ بدقسمتی سے بلندی پر ہوا کے مالیکیولز کی کم کثافت سے آلات بہت بڑے، بھاری اور زیادہ ایندھن استعمال کرتے ہیں جو موجودہ کمرشل طیاروں میں استعمال کے قابل نہیں ہیں۔
یونیورسسٹی آف ریڈنگ کے محقق اور پروفیسر پاؤل ولیم کے مطابق 21ویں صدی کے نصف میں مینوفیکچرنگ، اے آئی اور نئے سینسرز کا ملاپ ہوا بازی کو تبدیل کر سکتا ہے۔
’لیکن آج کیا ہوتا ہے؟ ٹیک آف سے پہلے، پائلٹ موسم کی بریفنگ چیک کرتے ہیں اور جیٹ اسٹریم چارٹس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ فلائٹ پلاننگ سوفٹ ویئر سے مشورہ کرتے ہیں اور پیشن گوئی چیک کرتے ہیں جیسے گرافیکل ٹربولنس گائیڈنس وغیرہ۔‘
انھوں نے کہا کہ 20 سال پہلے ہم تقریباً 60 فیصد ٹربیولینس کا پتہ لگا سکتے تھے اور اب 75 فیصد کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ تحقیق کی راہ میں کیا آڑے آ رہا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ جہاز کے سافت ویئر میں ٹربیولینس کے ڈیٹا تک رسائی، جو کہ ریسرچر کو خریدنا پڑتا ہے اور یہ ڈیٹا سستا نہیں ملتا ہے۔
بیس سال پہلے ہم تقریبا ساٹھ فیصد ٹربیولینس کا پتہ لگا سکتے تھے اور اب 75 فیصد کا پتا لگایا جا سکتا ہےانٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن ٹربیولینس کا ڈیٹا شیئر کرتا ہے اور اب ایئر فرانس، ایزی جیٹ اور ایر لنگس سمیت ایئر لائنز اسے استعمال کر رہی ہیں۔
مسافروں کے لیے، ایسی موبائل ایپس کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جو اس ڈیٹا تک رسائی فراہم کر رہی ہے۔ یہ پہلے صرف پائلٹس تک محدود تھی۔ ان میں سے ایک ٹربلی ہے۔
جدید کمپیوٹیشن، اے آئی اور سیٹلائٹس کے ساتھ موسم کی پیشگوئی بہتر ہو رہی ہے۔ لیکن زمین کی سطح سے اوپر ہوا کی پیمائش کم ہے۔
جو کچھ بھی ہمیں پتا چلتا ہے وہ کرہ ارض کے اردگرد تقریباً 1,300 موسمی غبارے اور تقریباً 100,000 کمرشل فلائٹس کے ایکسلرومیٹر سے آتا ہے جو ہر روز فضاؤں میں اڑتے ہیں۔
ولیمز کا کہنا ہے کہ وہ بھی ٹربلی استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میں نے اسے ایک حد تک درست پایا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ آپ کے صحیح راستے کو نہیں جانتے، لہذا یہ سو فیصد تک درست نہیں ہو سکتا۔‘