بہت سے لوگوںمیں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ذیابیطس صرف ان لوگوں کو ہوتی ہے جن کا وزن زیادہ ہو۔ تاہم چند ماہ قبل بنکاک میں منعقدہ ’عالمی ذیابیطس کانفرنس‘ میں شرکت کرنے والے طبی ماہرین نے انکشاف کیا تھا کہ کم باڈی ماس انڈیکس ( بی ایم آئی) والے یعنی دبلے پتلے افراد بھی ذیابیطس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
یہ نہ تو ٹائپ ون ذیابیطس ہے اور نہ ہی ٹائپ ٹو بلکہ یہ ایک نئی قسم ہے جسے ٹائپ فائیو ذیابیطس کہا جا رہا ہےبہت سے لوگوںمیں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ذیابیطس صرف ان لوگوں کو ہوتی ہے جن کا وزن زیادہ ہو۔ تاہم چند ماہ قبل بنکاک میں منعقدہ ’عالمی ذیابیطس کانفرنس‘ میں شرکت کرنے والے طبی ماہرین نے انکشاف کیا تھا کہ کم باڈی ماس انڈیکس ( بی ایم آئی) والے یعنی دبلے پتلے افراد بھی ذیابیطس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
لیکن یہ نہ تو ٹائپ ون ذیابیطس ہے اور نہ ہی ٹائپ ٹو بلکہ یہ ایک نئی قسم ہے جسے ٹائپ فائیو ذیابیطس کہا جا رہا ہے۔
بی ایم آئی کا حساب جسم کے وزن اور قد کے تناسب سے کیا جاتا ہے جن لوگوں کا بی ایم آئی 25 یا اس سے زیادہ ہو وہ زیادہ وزن یا موٹاپے کے زمرے میں آتے ہیں۔
طبی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہذیابیطس کی یہ قسم خاص طور پر متوسط اور کم آمدنی والے ممالک میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے صدر پروفیسر پیٹر شوارزکا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو موٹاپے کا شکار نہیں لیکنان کا جسممناسب انسولین پیدا نہیں کرتا ان کی درجہ بندی ذیابیطس کی ٹائپ فائیومیں شمار کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ اس سمت میں تحقیق کو تیز کرنے پر زور دیتے ہیں۔
اس طبی حالت کو سمجھنے کے لیے ایک بین الاقوامی تحقیقی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو تحقیق کرے گی کہ ٹائپ فائیوذیابیطس کس کو ہوتی ہے، یہ کیسے ہوتی ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
اس مضمون میں ہمٹائپ فائیوذیابیطس کی دریافت اور خطرات سے متعلق بات کریں گے۔
ٹائپ فائیو ذیابیطس کیا ہے؟
بہت سے لوگوںمیں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ذیابیطس صرف ان لوگوں کو ہوتی ہے جن کا وزن زیادہ ہوپروفیسر ڈاکٹر فیلکس جیباسنگ ویلور کرسچن میڈیکل کالج کے شعبہ اینڈو کرینولوجی، ذیابیطس اور میٹابولزم سے منسلک ہیں۔
بی بی سی تمل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ ’زیادہ وزن کے حامل ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریضوں میںاگرچہ ان کا جسم انسولین پیدا کرتا ہے لیکن یہ خون میں شکر کی سطح کو مستحکم رکھنے کے لیے کافی نہیں ہے کیونکہ ان کے جسم میں انسولین کے لیے حساسیت بڑھ جاتی ہے۔‘
تاہم ٹائپ فائیوذیابیطس ان لوگوں میں ہوتی ہے جو موٹاپے کا شکار نہیں یعنی جن کابی ایم آئی19 سے کم ہے اور ان کے جسم میں انسولین کی کمی ہوتی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ٹائپ ٹوذیابیطس کو کنٹرول کرنے کے لیے دیے جانے والے انجیکشن کے برعکس ٹائپ فائیوذیابیطس میں شوگر لیول کو گولیوں کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔‘
ٹائپ فائیو ذیابیطس کا خطرہ کس کو ہے؟
ویلور کرسچن میڈیکل کالج کی تحقیق کے مطابق ایسے لوگوں میں ٹائپ فائیوذیابیطس ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جن میں یہ علامات موجود ہوں:
- بی ایم آئی 19 سے کم ہو
- بچپن سے ہی غذائی قلت کی وجہ سے دبلے پتلے اور کم وزن والے لوگ
- جن کے جسم میں انسولین کی سطح کم ہو
- خوراک میں تنوع کا فقدان
اس بیماری کی علامات
1955 میں ہیو جونز نے جمیکا میں ان لوگوں پر تحقیق کی جن کا بی ایم آئی کم تھا۔ انھیں معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو ٹائپ ون یا ٹائپ ٹو ذیابیطس نہیں تھی، بلکہ ذیابیطس کی ایک مختلف قسم تھی جسے بعد میں غذائیت سے متعلق ذیابیطس ملیٹَس (MRDM) کہا گیا۔
اس کے بعد انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، کوریا، تھائی لینڈ، نائجیریا، ایتھوپیا، یوگنڈا وغیرہ ممالک میں بھی اس کے مریض پائے گئے۔
اس بیماری کو باقاعدہ طور پر 1985 میں عالمی ادارہ صحتنے ذیابیطس کی ایک الگ قسم کے طور پر تسلیم کیا تھا جس کے بعد سےاسے سرکاری طور پر این آر ڈی ایمکے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
لیکن سنہ 1999 میں عالمی ادارہ صحت نے ایم آر ڈی ایم کو اس فہرست سے نکال دیا تھا کیونکہ اس بات کے شواہد موجود نہیں تھے کہ غذائی قلت یا پروٹین کی کمی کے سبب ذیابطیس کی بیماری ہوتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے 1985 میں MRDM کو ذیابیطس کی ایک الگ قسم کے طور پر تسلیم کیاسنہ 2022 میں ویلورے کرسچن کالج میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کم وزن اور غذا کی قلت کا شکار لوگوں میں ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو ذیابطیس نہیں پائی گئی تھی۔
اسی تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئے تھی کہ ان افراد کو کسی اور قسم کی ذیابطیس یا پھر آیم آر ڈی لاحق ہوسکتی ہے۔
ٹائپ فائیوذیابیطس ان لوگوں میں ہوتی ہے جو موٹاپے کا شکار نہیںاسی برس انڈیا میں ایک تحقیق کے دوران 73 مردوں کا معائنہ کیا گیا تھا جن کا باڈی ماس انڈیکس کم تھا اور ان کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا۔ ان میں سے 20 مردوں میں غذائی قلت کے سبب پیدا ہونے والی ذیابطیس پائی گئی تھی۔
یہ تحقیق ویلورے کرسچن میڈیکل کالج کے سینیئر پروفیسر ڈاکٹر نہال تھامس، امریکہ کے البرٹ آئن سٹائن کالج آف میڈیسن کی پروفیسر میریڈتھ کاکنز اور دیگر طبی ماہرین نے کی تھی۔
ڈاکٹر فیلکس جیبازنگ کے مطابق ’ویلورے انٹرنیشنل کانفرنس برائے اینڈوکرینالوجی کا انعقاد گذشتہ برس جنوری میں ویلورے کرچن میڈیکل کالج میں ہوا تھا، وہاں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ اس موضوع پر تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ متاثرہ لوگوں کو خصوصی علاج فراہم کیا جا سکے۔‘
ڈاکٹر فیلکس کہتے ہیں کہ ’عمومی طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ غذائی قلت کا شکار لوگوں کو ذیابطیس نہیں ہوتی۔ ایسے افراد کو ٹائپ ون یا ٹائپ ٹو ذیاطبیس کے لیے استعمال ہونے والا علاج دینے سے انھیں نقصان ہو سکتا ہے۔‘
’اہم بات یہ ہے کہ ایسی تحقیق جاری رہنی چاہیے تاکہ ٹائپ فائیو ذیابطیس سے متاثرہ افراد کو مناسب علاج فراہم کیا جا سکے اور لوگوں اور ڈاکٹروں کو آگاہی دی جا سکے۔‘