"یہ بات میں نے ہمارے ڈرامہ ریویو شو 'کیا ڈرامہ ہے' میں کہی تھی کہ مجھے واقعی یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ دو اجنبی افراد، جو ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں، شادی کے بعد کیسا محسوس کرتے ہوں گے؟ یہ کوئی منفی بات نہیں تھی، بلکہ محض ایک انسانی تجسس تھا۔ اس پر لوگوں نے مجھے انسٹاگرام پر میسجز کیے اور اپنی ایسی ہی ارینج شادیوں کے تجربات شیئر کیے۔ میں بس یہ سوچ رہی تھی کہ جو کل تک اجنبی تھے، وہ اگلے دن میاں بیوی بن کر کیسے زندگی کا آغاز کرتے ہیں؟"
"ہم کام کے فن اور تکنیکی پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہیں، لیکن بعض اوقات کوئی اور بات وائرل ہو جاتی ہے۔ جیسے آج کل علی رضا کے جسم کے بالوں سے متعلق میرا ایک جملہ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ ٹی وی پر مرد اداکاروں کا زیادہ بالوں والا جسم اچھا نہیں لگتا۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم نئے اداکاروں کی توہین کر رہے ہیں۔ ہم سینئرز ان کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ علی رضا اور دوسرے تمام نئے فنکار ہماری نئی نسل ہیں، جنہیں بہتر بنانے کے لیے ہم بات کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے سوشل میڈیا ہر بات کو سرکس بنا دیتا ہے۔"
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی سینئر اور باوقار اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے حالیہ انٹرویو میں دو متنازع بیانات کی وضاحت کی، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکے تھے۔ یوٹیوب چینل پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کے ارینج میرج سے متعلق بیان کو غلط انداز میں پیش کیا گیا، حالانکہ یہ محض ایک سوچ تھی جس پر انہوں نے پروگرام میں گفتگو کی تھی۔
عتیقہ اوڈھو نے بتایا کہ اس بات کو عوام نے دلچسپی سے سنا اور کئی افراد نے ذاتی طور پر رابطہ کر کے اپنی ارینج شادیوں کے حوالے سے جھجک، فاصلے اور جذباتی الجھنوں کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سوال ان کے ذہن میں ہمیشہ رہا کہ کیا ایسے دو افراد جو کل تک ایک دوسرے سے ناواقف تھے، اگلے دن کیسے ایک قریبی رشتے میں بندھ کر زندگی گزارنا شروع کرتے ہیں؟
انٹرویو کے دوران علی رضا کے حوالے سے دیے گئے بیان پر بھی انہوں نے اپنا موقف واضح کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور سینئر صرف اداکاری کے فن پر بات کر رہی تھیں۔ مگر سوشل میڈیا نے ان کی ایک تنقیدی رائے کو ذاتی حملہ بنا کر پیش کیا، حالانکہ ان کا مقصد نئے فنکاروں کی رہنمائی تھا، نہ کہ تنقید برائے تنقید۔
عتیقہ اوڈھو ان دنوں ڈرامہ سیریل ’انتہا‘ میں اپنی اداکاری کے باعث سراہا جا رہی ہیں، اور ان کے دیگر منصوبے ’شیر‘ اور ’پیراڈائز‘ بھی تعریفیں سمیٹ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ 24 نیوز کے شو ’کیا ڈرامہ ہے‘ میں بطور کو ہوسٹ ڈراموں کے تکنیکی اور تخلیقی پہلوؤں پر گفتگو کرتی ہیں۔
ان کا یہ موقف نہ صرف ان کے فن سے سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ موجودہ دور میں شہرت کے ساتھ اظہارِ رائے کی ذمہ داری کتنی حساس ہو گئی ہے، جہاں ایک جملہ بھی سیاق و سباق سے ہٹا کر تنازع بن سکتا ہے۔