پاکستان نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ’یوکرین روس جنگ میں پاکستانیوں کی شرکت‘ کے بیان کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کیا ہے۔
منگل کو دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے بیان میں کہا گیا ہے کہ یوکرینی حکام نے اپنے دعوے کے حوالے سے کوئی قابل تصدیق ثبوت فراہم نہیں کیے اور نہ ہی باضابطہ طور پر آگاہ کیا گیا ہے۔
خیال رہے یوکرینی صدر نے کہا تھا کہ ان کی فوج کو ملک کے شمال مشرقی علاقے میں’کرائے کے فوجیوں‘ کا سامنا ہے جن کا تعلق چین اور پاکستان سمیت افریقہ کے چند ممالک سے ہے۔
دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ یوکرین کے حکام سے اس معاملے پر وضاحت طلب کی جائے گی۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’پاکستان یوکرین روس تنازع کا پرامن حل چاہتا ہے اور اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق بات چیت اور سفارت کاری پر یقین رکھتا ہے۔‘
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق ولادیمیر زیلنسکی نے اس سے قبل ماسکو پر الزام لگایا تھا کہ وہ چینی جنگجوؤں کو یوکرین کے خلاف جنگ کے لیے بھرتی کر رہا ہے اور چین کی جانب سے اس الزام کی تردید سامنے آئی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ شمالی کوریا نے روس کو کرسک علاقے میں لڑائی کے لیے اپنے ہزاروں فوجی مہیا کیے ہیں۔
یوکرینی صدر نے شمالی خرکیف کے فرنٹ لائن پر واقع علاقوں کے دورے کے بعد ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’ہم نے فرنٹ محاذ پر موجود کمانڈروں سے تازہ صورت حال، ووچانسک کے دفاع اور لڑائی میں پیش رفت کے حوالے سے مختلف امور پر بات چیت کی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس محاذ پر موجود ہمارے جنگجوؤں نے بتایا ہے کہ ازبکستان، تاجکستان، پاکستان اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے کرائے کے سپاہی بھی جنگ میں شریک ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ہم اس کا جواب دیں گے۔‘
روس نے 24 فروری 2022 کو پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا (فوٹو: گیٹی امیجز)
علاوہ ازیں روس کی جانب سے بھی فوری طور پر صدر زیلنکسی کے بیان کے بارے میں کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔
خیال رہے روس نے 24 فروری 2022 کو پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا جس کے بعد سے لڑائی جاری ہے۔
روس یوکرین پر ملکیت کا دعویٰ رکھتا ہے جبکہ یوکرین یورپی یونین میں شامل ہونے کا خواہاں ہے۔
امریکہ، یورپ اور دوسرے مغربی ممالک یوکرین کی حمایت کر رہے اور اس کو اسلحہ فراہم کر رہے ہیں جبکہ روس پر جنگ بند کرنے کے لیے دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کی بھی کوششیں ہوئیں تاہم ابھی تک جنگ کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔