عثمانی سلطنت قائم کرنے والے خاندان نے چھ سو برس سے زیادہ عرصے تک حکمرانی کی۔ دنیا کی کئی بادشاہتوں اور سلطنتوں کے برعکس، اس سلطنت کا اقتدار کبھی کسی اور خاندان کو منتقل نہیں ہوا۔ اس خاندان کے ساتھ کیا سلوک ہوا اب اس خاندان کے وارث کہاں اور کس حال میں ہیں؟
ڈاکٹر ابراہیم گور اور عثمان صلاح الدین عثمان اوغلو عثمانی خاندان سے تعلق رکھتے ہیںعثمانی سلطنت قائم کرنے والے خاندان نے چھ سو برس سے زیادہ عرصے تک حکمرانی کی۔ دنیا کی کئی بادشاہتوں اور سلطنتوں کے برعکس، اس سلطنت کا اقتدار کبھی کسی اور خاندان کو منتقل نہیں ہوا۔
تاہم پہلی عالمی جنگمیں شکست اور بڑے پیمانے پر نقصانات اٹھانے کی وجہ سے اس سلطنت کا زوال ہوا۔ کمال مصطفی اتاترک کی قیادت میں آزادی کی جنگ کے رہنماؤں نے 23 اپریل 1920 کو قومی اسمبلی قائم کی، جس نے یکم نومبر 1922 کو سلطنت کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا۔
صدیوں تک ’خلافت‘ کے منصب پر فائز عثمانیہ خاندان کے ساتھ کیا سلوک ہوا یہ ایک دلچسپ موضوع بن کر رہ گیا ہے۔
اس سلطنت عثمانیہ سے پاکستان سمیت برصغیر کے مسلمانوں کا بھی بہت لگاؤ تھا۔ یہاں سے نہ صرف ان کے لیے مالی امداد بھیجی گئی بلکہ اس خلافت کو بچانے کے لیے برصغیر میں باقاعدہ تحریک خلافت بھی چلی۔ مگر نہ تو عثمانیوں کا اقتدار بچ سکا اور نہ خلافت۔
آخری عثمانی سلطان ملک چھوڑ گئے، تاہم ان کے کزن عبدالمجید نے خلیفہ کا لقب برقرار رکھا۔ یہ سلسلہ تین مارچ 1924 تک جاری رہا، جب خلافت بھی ختم کر دی گئی اور عثمانی خاندان کو جلا وطن کر دیا گیا۔
اس فیصلے کے تحت خاندان کے ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد کو ترکی چھوڑنا پڑا۔ سنہ 1952 میں خاندان کی خواتین کو وطن واپسی کی اجازت ملی، جبکہ مردوں کو یہ اجازت سنہ 1974 میں دی گئی۔
آج بھی سنہ 1924 میں ملک چھوڑنے والے عثمانی خاندان کے افراد ترکی سمیت مختلف ممالک میں موجود ہیں اور ایک بالکل مختلف طرزِ زندگی گزار رہے ہیں۔
وقتاً فوقتاً ان میں سے بعض ترکی کے اخبارات کی سرخیوں میں ’عثمانیہ خاندان کے وارثین‘ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
لیکن آج ’عثمانیہ خاندان‘ کی اصطلاح کا مطلب کیا ہے اور اس میں کون شامل ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہم نے پہلے مؤرخین سے بات کی کہ خلافت کا نظام کیسے بدلا اور کون سے اہم موڑ جلاوطنی کا سبب بنے۔
ہم نے عثمان صلاح الدین عثمان اوغلو، جو سلطان مراد پنجم کی چوتھی نسل سے ہیں، اور ابراہیم جور، جو سلطان عبد الحمید دوم کی پانچویں نسل سے ہیں، سے بھی گفتگو کی کہ خاندان نے اندرونی طور پر اس ورثے کو کس طرح محفوظ رکھا۔
عثمان اوغلو سے ہماری ملاقات برطانیہ کے شہر آکسفرڈ کے قریب ان کے گھر میں ہوئی۔ ان کے والد ایک شہزادے تھے اور والدہ سلطانہ کو بھی جلا وطن کیا گیا تھا۔
ابتدائی دور: کسی متبادل خاندان کا انتخاب کبھی زیرِ غور نہیں آیا
تاریخ دان پروفیسر ڈاکٹر فریدون ایمیجن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عثمان اول جنھیں عثمان غازی بھی کہا جاتا ہے کی تاریخی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اسی شخصیت کے نام پر سلطنت اور خاندان کو ’عثمانیہ‘ کہا گیا۔ بازنطینی ذرائع کے مطابق وہ ایک طاقتور فوجی رہنما تھے۔
اس دور میں ’سلسلے‘ کا تصور بنیادی طور پر نسب اور قیادت سے جڑا ہوا تھا۔ ریاست کی توسیع، خصوصاً عثمان کے بیٹے اور مراد اول کے زمانے میں بلقان کی طرف، سلطنت عثمانیہ کو ایک ناگزیر طاقت کے طور پر مستحکم کرتی گئی۔
پروفیسر فریدون نے بی بی سی ترکی سے گفتگو میں کہا کہ اگرچہ بیٹوں کے درمیان جھگڑے ہوتے رہے، لیکن کبھی کسی دوسرے خاندان کو اقتدار دینے پر غور نہیں کیا گیا۔ ابتدا میں سلطان عوام سے گہرا تعلق رکھتے تھے۔
تاریخ دان ڈاکٹر بورجو بیلی کے مطابق ’عثمان اول اور اور اورہان اول اپنی مجالس میں عوام کے ساتھ بیٹھتے اور جنازوں میں شریک ہوتے۔ اس مرحلے پر ریاست کا سربراہ عوام کے بہت قریب تھا۔‘
لیکن محمد فاتح کے دور سے ریاست نے عوام سے فاصلہ اختیار کرنا شروع کیا۔ ڈاکٹر فریدون کے مطابق ’سلطان کو زیادہ تقدس بخشا گیا۔ ایسی روایات جیسے کہ سلطانی کونسل میں شریک نہ ہونا اور اکیلے کھانا کھانا، عوام سے ریاست کی دوری کا باعث بنی۔‘
سلطان محمد فاتح کے دور سے ریاست نے عوام سے فاصلہ اختیار کرنا شروع کیاتاریخ دان پروفیسر ڈاکٹر ادہم ایلدم نے بی بی سی ترکی سے گفتگو میں کہا کہ ’عثمانیہ خاندان کبھی اس خلا کو پُر نہیں کر سکا۔‘
ادہم ایلدم کے مطابق سنہ 1789 کے فرانسیسی انقلاب کے بعد یورپ کی حکمران سلطنتیں جدیدیت کے ذریعے زیادہ نمایاں ہوئیں اور اپنی قانونی حیثیت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس عثمانیہ خاندان مزید رجعت پسندی اور سختیوں کا شکار ہوتا گیا۔
اسی وجہ سے عثمانی سلطنت میں کبھی وہ شاہی ڈھانچہ سامنے نہیں آیا جس میں بادشاہ، ملکہ اور جانشین شامل ہوتے۔
عثمانیہ خاندان کے افراد کون تھے اور خلافت کا نظام کس طرح بدلا؟
عثمانیہ دور میں ’سلسلے‘ کا مطلب بنیادی طور پر سلطان اور اس کے بیٹے ہوا کرتے تھے۔ سلطان کے لیے کوئی مقررہ جانشین نہیں ہوتا تھا۔
پروفیسر فریدون ایمیجن کے مطابق ’اقتدار صرف خدا کی دین ہے، اور تمام بیٹوں کو مستقبل میں تخت پر بیٹھنے کا حق حاصل تھا۔‘ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ خلافت کا نظام کسی تحریری اصول پر قائم نہیں تھا بلکہ وقت کے ساتھ ارتقا پذیر ہوا۔
ابتدا ہی سے سلطنت میں بھائیوں کو قتل کرنے کی روایت عام رہی۔ اس کی ایک ہولناک مثال سلطان محمد سوم ہیں جنھوں نے اپنے 19 بھائیوں کو گلا گھونٹ کر قتل کر دیا۔ تاہم ان کی وفات کے وقت ان کے بیٹے کم عمر تھے، اس لیے انھیں قتل نہیں کیا گیا، اور یوں بڑے شہزادے کے تخت نشین ہونے کی روایت مضبوط ہوئی۔
فریدون ایمیجن ایک اور مثال دیتے ہیں کہ عثمان دوم، جن کا کوئی بیٹا نہیں تھا، کی وفات کے بعد ان کے چچا مصطفیٰ اول تخت پر براجمان ہوئے۔ اس طرح عثمانیہ سلسلہ صرف بیٹوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بھائی بھی اس میں شامل تھے۔
اس کے باوجود شہزادے نمایاں شخصیات نہیں تھے، بلکہ اکثر محل میں قیدیوں کی طرح زندگی گزارتے۔
پروفیسر ایلدم کے مطابق انھیں یہ یقین نہیں کہ عوام یہ بھی جانتے ہوں کہ سلطان کون تھا؟ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس کے باوجود کسی نے سلطان کی قانونی حیثیت پر سوال نہیں اٹھایا۔
دور جدید کا بادشاہ
پروفیسر ایلدم کے مطابق سلطان محمود دوم، جنھوں نے انیسویں صدی میں حکمرانی کی، اپنی شبیہہ ایک ’جدید حکمران‘ کے طور پر قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ رجحان سلطان عبدالمجید اور سلطان عبدالعزیز کے دور میں بھی جاری رہا۔
تاہم جدیدیت کے ماحول کے باوجود خواتین اس منظر سے محروم رہیں۔
پروفیسر ایلدم وضاحت کرتے ہیں کہ ’سلطان عبد الحمید دوم (1876 سے 1909 تک حکمران) نے اس کے برعکس خاندان کو مکمل طور پر پس منظر میں لے گئے۔ وہ محل میں گوشہ نشین ہو گئے اور شہزادوں کو عوامی نظر سے دور رکھا۔ خاندان کو آزادی صرف 1908 میں نوجوان ترکوں کی تحریک (دوسرا آئینی دور) کے بعد ملی، جس نے مطلق العنان حکمرانی کا خاتمہ کر دیا۔‘
سلطان عبد الحميد ثانيتاریخ دان بورجو بیلی نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ اس عرصے کے دوران اگرچہ سلطنت اور خاندان کی عوامی موجودگی کم ہو گئی تھی، لیکن عوام نے کبھی طاقتور سلطان کی شبیہ پر سوال نہیں اٹھایا۔
31 مارچ کے واقعات (13 اپریل 1909 کو استنبول میں آئین مخالف بغاوت) کے بعد سلطان محمد پنجم اور خاندان کے بعض افراد عوام کے سامنے آنے لگے۔
جلا وطن عثمانیہ خاندان عوام کے لیے کیا معنی رکھتا تھا؟
یکم نومبر 1922 کو سلطنت کے خاتمے کے بعد آخری عثمانی سلطان محمد ششم (وحید الدین) ملک چھوڑ گئے۔
سنہ 1924 میں خلافت بھی ختم کر دی گئی اور عثمانی خاندان کو جلا وطن کر دیا گیا۔ اس وقت تک خاندان کی سیاسی اور علامتی حیثیت کافی کمزور ہو چکی تھی۔
پروفیسر ایلدم کے مطابق جلا وطن افراد کا معاشرے میں کوئی نمایاں وجود نہیں تھا۔ ’وہ ملک چھوڑ گئے تو عوام کے لیے تقریباً اجنبی تھے، اور ان کے نام اخبارات میں شاذ و نادر ہی آتے، وہ بھی شادی یا منگنی جیسی تقریبات کے موقع پر۔‘
اسی وجہ سے جلا وطنی کا فیصلہ ملک میں کسی بڑی بغاوت کا باعث نہیں بنا۔
جلا وطنی کے بعد خاندان بکھر گیا؟
جلا وطنی کے فیصلے کے بعد سلطنتی خاندان کے افراد کو ایک سال کے لیے پاسپورٹ، ترک کرنسی میں ایک ہزار لیرے اور تقریباً دس دن کا وقت دیا گیا تاکہ وہ ملک چھوڑ سکیں۔
اس خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد دنیا کے مختلف شہروں میں منتقل ہو گئے۔
عثمان صلاح الدین عثمان اوغلو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’خاندان کے زیادہ تر افراد یورپ اور مشرقِ وسطیٰ گئے، خاص طور پر فرانس اور لبنان، جبکہ کچھ شام، اردن، جرمنی اور بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ جیسے مقامات پر منتقل ہوئے۔‘
عثمان صلاح الدین عثمان اوغلوسلاطین اور شاہی خاندان کے افراد ایک ہی محل میں نہیں رہتے تھے
اگرچہ عثمان صلاح الدین عثمان اوغلو عثمانیہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن وہ واضح کرتے ہیں کہ ان کے والدین کبھی استنبول میں نہیں ملے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ عثمانی دور میں سلطان اور اس کے بھائی ایک ہی محل میں نہیں رہتے تھے اور ان کے خاندان شاذ و نادر ہی اکٹھے ہوتے۔
عثمان اوغلو کے مطابق جلا وطن کیے گئے خاندان کے 157 افراد میں شامل تھے:
37 شہزادے (سلاطین اور امرا کے بیٹے)
42 سلطانہ (سلاطین اور امرا کی بیٹیاں)
16 سلطان زادے (سلطانات کے بیٹے)
15 خانم سلطانہ (سلطانات کی بیٹیاں)
خاندان کی خواتین کے ساتھ ان کے شوہر بھی جلا وطن کیے گئے۔
اس کے علاوہ کچھ محل کے ملازمین اور ساتھی، اور سابق سلاطین کی بیویاں، جو باضابطہ طور پر جلا وطن فہرست میں شامل نہیں تھیں، نے بھی اپنی مرضی سے استنبول چھوڑ دیا۔
خواتین کے لیے آزادی کا پہلا تجربہ
پروفیسر ایلدم کے مطابق ’یہ لوگ عوامی زندگی کے عادی نہیں تھے، وہ تنہائی میں رہتے تھے۔ عثمانیہ خاندان کے افراد اسلامی تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے مقابلے میں ان کی تعلیم بہت کم تھی، وہ چند زبانیں ہی جانتے تھے اور ان کے پاس کوئی پیشہ نہیں تھا۔‘
عثمان اوغلو بتاتے ہیں کہ جلا وطن خاندان کے بعض افراد کو روزگار حاصل کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔ اگرچہ یہ واقعات کم تھے، لیکن کچھ ایسے بھی تھے جو بیرونِ ملک زندگی کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو سکے اور فاقہ کشی کا شکار ہوئے۔
عثمان اوغلو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان کا اپنا خاندان تعلیم یافتہ تھا۔ ان کے والد نے فوجی سکول میں تعلیم حاصل کی اور لیفٹیننٹ کے عہدے تک پہنچے، جبکہ ان کی والدہ کو محل میں خصوصی تعلیم دی گئی تھی اور وہ بارہ برس کی عمر میں جلا وطن ہوئیں۔
پروفیسر ایلدم ایک مثال دیتے ہیں کہ ’وحید الدین کی وفات کے بعد عبد المجید خاندان کے سربراہ بنے اور اپنے خاندان کو معاشی طور پر سنبھالنے کے لیے حکمتِ عملی وضع کی۔ انھوں نے اپنی بیٹی، سلطانہ درشہوار، کی شادی حیدر آباد کے شاہی خاندان کے شہزادے نظام سے کی، جو اُس وقت نیس میں مقیم تھے۔‘
پروفیسر ایلدم مزید کہتے ہیں کہ جلا وطنی بعض خواتین کے لیے ’پہلی آزادی کا تجربہ‘ تھا، کیونکہ ’سنہ 1924 سے پہلے عثمانیہ خاندان کی کوئی عورت بیرونِ ملک نہیں گئی تھی، اور اچانک سے وہ پیرس اور نیس پہنچ گئیں۔‘
ابراہیم جور نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ جلا وطنی کے فیصلے کے بعد ان کے خاندان کو محل چھوڑنے کے لیے 24 گھنٹے کی مہلت دی گئی۔
ان کی نانی اپنے شوہر کے ساتھ ٹرین کے ذریعے پیرس روانہ ہوئیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ کچھ زیورات بیچ کر زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے شوہر نے فرانس کے پولی ٹیکنک سکول سے تعلیم حاصل کی تھی اور وہاں ملازمت بھی مل گئی۔‘
وطن واپسی
پروفیسر ڈاکٹر ادہم ایلدم کے مطابق جب عثمانی خاندان کے افراد کو ترکی واپس آنے کی اجازت ملی تو ان کے پاس فرانس کے جاری کردہ پاسپورٹ تھے جن پر ان کی شہریت ’عثمانیہ‘ درج تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ بے وطن سمجھے جاتے تھے۔
عثمان اوغلو وضاحت کرتے ہیں کہ وہ ان پاسپورٹس کے ساتھ کئی ممالک گئے اور انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ لیکن وہ یاد کرتے ہیں کہ جب وہ ترکی میں داخل ہو رہے تھے تو پاسپورٹ چیکنگ کے دوران ایک افسر نے کہا کہ ’آپ کے پاسپورٹ پر عثمانیہ لکھا ہے۔ عثمانیہ کا مطلب کیا ہے؟ پھر ایک بڑا افسر آیا، جو نہایت شائستہ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ قانون ابھی بدلا ہے، اور اسے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ’تشریف لائیے، تشریف لائیے جناب۔‘
عثمان اوغلو بتاتے ہیں کہ وہ کبھی کبھار تعطیلات کے دوران ترکی آتے تھے، لیکن ’میری ملازمت کی بہت مصروفیات تھیں، اس لیے میں نے کبھی وہاں منتقل ہونے کے بارے میں نہیں سوچا۔‘
عثمان أوغلو سلطان عبدالجمید کی پینٹنگ دکھاتے ہوئےوہ مزید بتاتے ہیں کہ ترکی میں داخلے کی اجازت ملنے کے بعد فرانس نے انھیں پانچ سال تک پاسپورٹ استعمال کرنے کی اجازت دی۔
اب ان کے پاس ترک اور برطانوی دونوں شہریت ہیں۔
حالیہ برسوں میں عثمان اوغلو نے زیادہ وقت استنبول میں گزارا ہے اور وہ جلد ہی برطانیہ میں اپنا گھر بند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں عثمان اوغلو نے زیادہ وقت استنبول میں گزارا ہےعثمانی خاندان کا واٹس ایپ گروپ
عثمان اوغلو اپنی فیملی کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’یہ ایک بہت بڑی اور مختلف شاخوں والی فیملی ہے۔ ہم کئی بار ترک ریڈیو اور ٹیلی ویژن کارپوریشن یا دیگر اداروں کی جانب سے منعقدہ تقریبات میں ملے۔ لیکن روزمرہ زندگی میں ہم صرف قریبی رشتہ داروں کو ہی دیکھتے ہیں۔ اور بطور خاندان، ہر فرد کی اپنی رائے ہے۔‘
ابراہیم جور بھی بتاتے ہیں کہ عثمانی خاندان کے بعض افراد رابطے کے لیے واٹس ایپ گروپس رکھتے ہیں، جبکہ کچھ ان گروپس کا حصہ نہیں ہیں۔
إبراهيم جورکیا ’سلسلہ‘ اور خاندان دو الگ تصورات ہیں؟
سلطانہ نیسلیسا سلطنت کے دور میں پیدا ہونے والی آخری فرد تھیں۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ ان کی وفات کے ساتھ، اور چونکہ سلطنت عثمانیہ اب موجود نہیں تھی اور یوں یہ ’سلسلہ‘ بھی ختم ہو گیا۔
آج ان کے وارثوں کو ’عثمانیہ خاندان‘ کے ارکان سمجھا جاتا ہے۔
عثمان اوغلو کہتے ہیں کہ حتیٰ کہ برطانیہ میں بھی، جب وہ گھر خریدتے یا عملی زندگی میں ہوتے تو انھیں ’شہزادہ‘ کہا جاتا تھا، اور وہ ’عثمان افندی‘ کہلانے میں کوئی مسئلہ نہیں دیکھتے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر میں شہزادہ پیدا ہوا ہوں تو کوئی اسے مجھ سے چھین نہیں سکتا۔ دنیا کے ہر حصے میں یہی بات ہے۔ میرے لیے صلالہ ہی عثمانیہ خاندان ہے۔ یہ بادشاہت عثمانیوں کے پاس ہی رہی کسی اور سلسلے کو منتقل نہیں ہوئی، عثمانی خاندان سات صدیوں تک قائم رہا۔‘
ابراہیم جور کہتے ہیں کہ ’ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے۔ میں کوئی لقب استعمال نہیں کرتا۔ مجھے اپنی پی ایچ ڈی پر فخر ہے، جس کے لیے میں نے سخت محنت کی۔‘
پروفیسر ایلدم کہتے ہیں کہ ’کسی خاص سلسلے کے وجود کی بات نہیں کی جا سکتی۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر آپ شہزادے ہیں اور اسے اہمیت دیتے ہیں تو یہ آپ کا حق ہے۔ لیکن حقیقت میں اس کی کوئی سماجی یا سیاسی حیثیت نہیں۔ یورپ میں جو اشرافیہ کی روایات نظر آتی ہیں، ان کا اس خاندان میں کوئی حقیقی وجود نہیں تھا حتیٰ کہ عثمانیہ دور میں بھی نہیں۔‘
کیا وہ آج سیاست پر بات کرتے ہیں؟
عثمان اوغلو کہتے ہیں کہ ’عبد الحمید دوم کے خاندان کی صرف ایک شاخ ہی ترکی واپس آئی ہے۔ بعض افراد سیاسی رائے کا اظہار کرتے ہیں مگر میری ذاتی رائے ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، غیر جانبداری اہم ہے۔‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ان کے قریبی خاندان میں سیاست پر بات نہیں کی جاتی۔
جمہوریہ کے قیام کے بارے میں عثمان اوغلو کہتے ہیں کہ ان کے والدین نے اس پر کبھی گفتگو نہیں کی۔ ’اس پر بات چیت بیسویں صدی کی بیس اور تیس کی دہائی میں بہت ہوتی تھی، لیکن جس دنیا میں میں پیدا ہوئے وہ بالکل مختلف تھی۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’میں جمہوری نہیں ہوں۔ انگلینڈ میں بادشاہ ہے، لیکن وہ حکومت نہیں کرتا۔ اگر انگلینڈ جمہوریہ بن جائے تو کیا وہ بہتر طور پر چلایا جائے گا؟ اگر بادشاہت ختم ہو جائے تو کیا وزیرِاعظم بہتر طور پر حکومت کرے گا؟‘
عثمان اوغلو آخر میں کہتے ہیں کہ ’یہ کبھی اچھا نہیں ہوتا کہ ایک شخص تمام طاقت اپنے ہاتھ میں رکھے۔ یہ بات سلطان پر بھی لاگو ہوتی ہے، صدر پر بھی، اور کسی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو پر بھی۔‘
لبنان میں ابراھیم گور کے گھر میں سلطانہ نيميكا کی تصویرابراہیم جور، جو سیاست کو ایک پیشہ سمجھتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کے پاس تمام صلاحیتیں اور ضروری تعلیم موجود ہے تاکہ آپ کامیاب سیاست دان بن سکیں، تو یہ آپ کا حق ہے کہ سیاست میں آئیں۔ ہم عثمانیہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن ہم عوام کا بھی حصہ ہیں۔‘
وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ ’جو بھی سیاسی میدان کا انتخاب کرتا ہے وہ اپنی نمائندگی کرتا ہے اور آخر میں کہتے ہیں کہ ’غلطی یہ ہے کہ کوئی سیاست میں آ کر کہے کہ میں عثمانیہ خاندان کی نمائندگی کرتا ہوں۔ یہ درست نہیں، کیونکہ بہت سے لوگ، میری طرح، سیاست کو سمجھتے نہیں یا اس کا حصہ بننا نہیں چاہتے۔‘