کالعدم بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو امریکا کی جانب سے دہشتگرد قرار دینے سے کیا فرق پڑے گا؟

image

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے حال ہی میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور اس کے ذیلی دھڑے "مجید بریگیڈ" کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔ یہ اقدام پاکستان اور بلوچستان کی سکیورٹی صورتِ حال کے تناظر میں نہ صرف علامتی اہمیت رکھتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی اس کے کئی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

کالعدم بلوچ لبریشن آرمی ایک مسلح تنظیم ہے جو مبینہ طور پر بلوچستان کی آزادی کے لیے سرگرم ہے۔ یہ تنظیم کئی دہائیوں سے مسلح کارروائیوں میں ملوث رہی ہے اور پاکستان میں فوجی، سویلین اور اقتصادی اہداف پر حملوں کی ذمہ دار قرار دی جاتی ہے۔ اس تنظیم کی کارروائیوں کا زیادہ تر نشانہ سرکاری تنصیبات، سی پیک منصوبے، سیکورٹی فورسز خاص طور پر چین سے منسلک پروجیکٹس بنتے رہے ہیں۔

اس حوالے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اس اقدام سے امریکا کی بلوچستان میں معدنیات کےحوالے سے شمولیت میں دلچسپی بڑھ سکتی ہے، بلوچستان یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے استاد اور تجزیہ کار دوست محمد بڑیچ نے "ہماری ویب" کو بتایا کہ پہلے بھی ہم نے دیکھا تھا کہ کالعدم بی ایل اے کو امریکا نے دہشت گرد گروپ قرار دیا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب انہوں نے کراچی میں چائنیز قونصلیٹ پر حملہ کیا تھا تو اس پر امریکا کے تحفظات تھے، حالانکہ امریکا خود چین کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن بین الاقوامی قوانین کے تحت قونصلیٹ پر حملہ ایک سنگین عمل ہے۔

دوست محمد بڑیچ کے بقول :" اب یہ معاملہ اس لیے زیادہ دلچسپ ہے کیونکہ اس میں علامتی پہلو بھی ہے"۔ جیسے علیحدگی پسند بیانیہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ 11 اگست 1947 کو وہ آزاد ہوئے تھے، اور 2 روز قبل 11 اگست تھی، تو اسی دن اسے دہشت گرد گروپ قرار دینا ایک علامتی پیغام ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان اور امریکا کے مفادات میں حالیہ اوورلیپ اوور قربت کو بھی دیکھنا ہوگا۔ اس قربت کے تین چار بڑے عوامل ہیں، جن میں معدنیات کا بڑا کردار ہے، آئی ٹی سیکٹر اور کرپٹو کرنسی بھی شامل ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ اقدام اس بات کو مزید واضح کرنے کے لیے ہو کہ امریکا کی بلوچستان میں، خاص طور پر معدنیات کے حوالے سے، شمولیت بڑھ سکتی ہے۔

دوست محمد بڑیچ نے مزید کہا کہ اگر امریکا معدنیات میں دلچسپی لے گا تو یہ صرف وسائل تک محدود نہیں رہے گا بلکہ جغرافیہ اور انٹیلی جنس شیئرنگ تک پھیلے گا۔ اس لیے میرے خیال میں یہ بھی ایک بڑا سبب ہوسکتا ہے کہ موجودہ وقت میں دونوں ممالک کے مفادات ایک صفحے پر آ رہے ہیں۔

مجید بریگیڈ کیا ہے اور یہ کب وجود میں آئی ؟

مجید بریگیڈ بی ایل اے کا ایک انتہائی خطرناک اور تربیت یافتہ ذیلی دھڑا ہے، جو خودکش حملوں اور ہائی ویلیو اہداف پر پیچیدہ حملوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس دھڑے کا نام 1970 کی دہائی میں بلوچستان کے ایک نوجوان، مجید بلوچ، سے منسوب ہے، جس نے 1974 میں اس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔

اگرچہ مجید بلوچ کا حملہ اپنے بنیادی ہدف تک نہ پہنچ سکا، لیکن اس کارروائی کو ایک اہم علامت کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ اسی کی یاد میں بی ایل اے نے اپنے اس خودکش حملہ آور یونٹ کا نام "مجید بریگیڈ" رکھا۔

مجید بریگیڈ نے گزشتہ برسوں میں کئی بڑے حملے کیے جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ حاصل کی۔ نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ مجید بریگیڈ کی جانب سے کیا گیا، جس میں دو پولیس اہلکار اور دو عام شہری جاں سے گئے جبکہ تینوں حملہ آور بھی مارے گئے۔ یہ حملہ ایک واضح پیغام تھا کہ بی ایل اے اور اس کا ذیلی دھڑا چین کے سی پیک منصوبوں کے سخت مخالف ہیں۔

اسی طرح، اپریل 2019 میں اورماڑہ میں سکیورٹی فورسز اور نیوی کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا اور 2021 میں خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کو لے جانے والی بس پر خودکش دھماکا کیا گیا، جس میں 9 چینی شہری ہلاک ہوئے۔ اس حملے نے پاکستان اور چین کے تعلقات میں تناؤ پیدا کیا اور سکیورٹی خدشات کو بڑھا دیا۔

مجید بریگیڈ کی حکمت عملی نسبتاً پیچیدہ اور طویل مدتی منصوبہ بندی پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کے حملے اکثر اچھی طرح سے تربیت یافتہ خودکش بمباروں اور جدید اسلحے کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ یہ دھڑا بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں موجود بی ایل اے کے کیمپوں سے تربیت حاصل کرتا ہے اور فنڈنگ کے لیے اسمگلنگ، غیر قانونی تجارت اور بیرونِ ملک مقیم حمایتی نیٹ ورکس پر انحصار کرتا ہے۔

معروف صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے اس فیصلے پر تبصرہ ایک ٹویٹ کے ذریعے کرتے ہوئے کہا کہ یہ اعلان جو امریکی محکمۂ خارجہ نے 14 اگست سے قبل کیا ہے، نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ کالعدم بی ایل اے کی قیادت اور اس کے حامی اب امریکا اور یورپ میں محفوظ نہیں رہے۔

امریکی فیصلے کی علامتی اہمیت

امریکا پہلے بھی 2019 میں بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا تھا، لیکن اس بار مجید بریگیڈ کو بھی واضح طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ یہ نامزدگی 11 اگست کو سامنے آئی، وہ تاریخ جسے بی ایل اے اور اس کے حامی اپنے مبینہ "یومِ آزادی" کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ ایک واضح علامتی پیغام ہے کہ امریکا علیحدگی پسند تحریک کے عسکری دھڑوں کو قبول نہیں کرے گا۔

مالی ذرائع پر پابندی

امریکا کی فہرست میں شامل ہونے سے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کے امریکا یا اتحادی ممالک میں موجود مالی اثاثے منجمد ہو جائیں گے اور ان کے ساتھ کسی بھی مالی لین دین پر سخت قانونی کارروائی ہوگی۔

بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ

اس فیصلے سے ان تنظیموں کے خلاف عالمی سطح پر سفارتی دباؤ بڑھے گا، اور دیگر ممالک بھی ممکنہ طور پر اس اقدام کی پیروی کریں گے۔

سفر اور پناہ کی پابندیاں

ان سے وابستہ افراد کے لیے بین الاقوامی سفر یا پناہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ یہ اقدام انسدادِ دہشت گردی اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے میدان میں دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط کرسکتا ہے۔ معدنیات، ٹیکنالوجی اور علاقائی سکیورٹی جیسے معاملات میں حالیہ قربت بھی اس تناظر میں اہم ہے۔ پاکستان ممکنہ طور پر بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کے خلاف مزید سخت کارروائیاں کرے گا اور عالمی سطح پر ان کے نیٹ ورکس کو توڑنے کے لیے مدد حاصل کرے گا۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US