بلوچستان میں اس وقت افغان پناہ گزینوں کو نکالا جارہاہے، دوسری جانب سرحدوں پر نگرانی سخت کرنے اور سرحدی دروازوں کی بندش سے روزگار کے مسائل بڑھ گئے ہیں، جن کو کاروباری افراد اور چیمبر آف کامرس کے رہنما تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، تاہم ان کا مطالبہ اور کوشش ہے کہ بلوچستان میں افغانستان اور ایران سے متصل سرحدی دروازوں کو کھول تجارت شروع کی جائے تو بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔
بلوچستان میں افغانستان سے متصل قلعہ سیف اللہ میں سرحدی گیٹ بادینی کو کھولنے کے لیے اقدامات حتمی مراحل میں پہنچ گئے ہیں، جلد اس کو کھول دیا جائے گا، بلوچستان چیمبر آف کامرنس کے سنیئر نائب صدر اخترکاکڑ نے ’’ہماری ویب‘‘ سے خصوصی بات چیت میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بادینی بارڈر، بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ میں افغانستان سے متصل علاقے میں واقع ہے۔ یہ سرحدی علاقہ جغرافیائی اور معاشی دونوں لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس علاقے کا رقبہ بہت وسیع ہے اور یہاں کے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اگر یہ بارڈر مستقل طور پر کھول دیا جائے تو ژوب سےلے کر چمن، قلعہ عبداللہ، پشین اور کوئٹہ تک کے عوام کو روزگار کے بے شمار مواقع میسر آئیں گے۔
یہ راستہ افغانستان کے دارالحکومت کابل سے آنے والے سامانِ تجارت کے لیے نہایت موزوں ہے، کیونکہ یہ دوسروں کے مقابلے میں ایک مختصر اور محفوظ راستہ فراہم کرتا ہے۔
کوئٹہ سے چمن کا فاصلہ تقریباً 110 کلومیٹر اور چمن سے قندھار کا فاصلہ 120 کلومیٹر ہے۔ اگر یہ روٹ مکمل طور پر فعال ہو جائے تو پاکستان سے افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک — تاجکستان اور ترکمانستان — تک تجارت کے مواقع مزید بڑھ جائیں گے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً 1400 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ اگر ہر ضلع میں ایک سرحدی گیٹ قائم کیا جائے تو بلوچستان کے عوام کو روزگار کے وسیع مواقع مل سکتے ہیں۔ بلوچستان وسائل سے مالا مال صوبہ ہے مگر یہاں کے لوگ بدقسمتی سے غربت کا شکار ہیں۔ بادینی بارڈر کا کھلنا اس خطے کے لیے خوشحالی کا سبب بن سکتا ہے۔
اس کاافتتاح سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے 2020 میں اپنے دور حکومت کے دور میں کیا تھا۔ اس کے افتتاح کے بعد سے تین سے چار مہینوں کے اندر ہزاروں لوگوں کو روزگار ملا، خاص طور پر معدنیات اور بارڈر ٹریڈ کے شعبوں میں۔
جب بارڈر کھلا تو روزانہ کی بنیاد پر مزدور دو سے تین ہزار روپے تک کمانے لگے۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ ایک بڑی سہولت تھی کہ انہیں گھر کے قریب ہی کام ملنے لگا۔ اس سے نہ صرف غربت میں کمی آئی بلکہ لوگوں کی زندگیوں میں معاشی استحکام بھی پیدا ہوا۔
صدر چیمبر آف کامرس ایوب مریانی اور وفاقی سینیٹر کے ساتھ ہونے والی حالیہ ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ بادینی بارڈر کو ہر صورت میں کھولا جائے کیونکہ اس روٹ پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ حکومت نے ٹرمینل کی تعمیر کے لیے 28 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
یہ منصوبہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ بارڈر مارکیٹ کے قیام سے مقامی تاجروں اور مزدوروں کو روزگار ملے گا، جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات مضبوط ہوں گے۔ افغانستان سے سامانِ درآمد اور پاکستان سے برآمدات کے ذریعے تجارت کا حجم کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنی معیشت کو بارڈر ٹریڈ کے ذریعے مضبوط کیا ہے۔ اگر حکومتِ پاکستان بلوچستان کے بارڈرز کو فعال کرے تو بے روزگاری میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔
بلوچستان چیمبر آف کامرس کے سنیئر نائب صدر اخترکاکڑ نےافغان مہاجرین کے حوالے سے بتایا کہ ضروری ہے کہ جو لوگ یہاں قانونی طور پر کام کر رہے ہیں، انہیں ورک پرمٹ دے دیا جائے تاکہ زراعت، معدنیات اور دیگر شعبوں کا کام متاثر نہ ہو۔ ان کی اچانک واپسی سے مزدوروں کی کمی اور کاروبار میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے یہ لوگ زراعت سمیت دوسرے شعبوں میں اچھا کام کررہے ہیں، ان کا ایک بہت بڑا حصہ ہے یہاں پر مختلف شعبوں میں جس کا طریقہ کار بنانا چاہیے، اخترکاکڑ نے تجویز دی ان کو ایسے نکالنا درست نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت دوراندیشی کا مظاہرہ کرے تو بادینی بارڈر بلوچستان کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ یہ راستہ نہ صرف تجارت کا نیا دروازہ کھولے گا بلکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن، تعاون اور ترقی کی ایک نئی مثال بھی قائم کرے گا۔