بلوچستان میں حالیہ دنوں سیاسی اختلافات اور صوبے کی امن و امان کی صورتحال پر بحث ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے۔ یہ معاملہ اس وقت نمایاں ہوا جب بلوچستان عوامی پارٹی کے انٹراپارٹی انتخابات کے موقع پر سینیئر سیاستدان جان محمد جمالی نے اپنے خطاب میں کہا کہ صوبے میں ’’بے چینی کی کیفیت‘‘ ہے۔ ان کے مطابق بولان، نوشکی، قلات اور زہری سمیت کئی اہم شاہراہوں پر سفر ناگزیر خطرات کے باعث دشوار ہو چکا ہے۔
اسی تناظر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی رہنما میر علی حسن زہری بھی بارہا وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک ویڈیو اور آڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ سرفراز بگٹی نے’’پیپلز پارٹی کا بیڑہ غرق‘‘ کر دیا ہے اور کارکنان کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔ زہری کا کہنا ہے کہ ان کی بگٹی سے کوئی ذاتی رنجش نہیں لیکن یہ جماعت اور کارکنوں کا مسئلہ ہے۔
’’حکومت کو کوئی بڑا خطرہ نہیں‘‘ — تجزیہ کار بلال ڈار
اسلام آباد میں سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار بلال ڈار کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کو اس وقت اپنی اتحادی جماعتوں کا مکمل اعتماد حاصل ہے اور ان کی حکومت کو کسی فوری خطرے کا سامنا نہیں۔ البتہ اپنی ہی جماعت کے بعض اراکین اسمبلی کی تنقید اور دباؤ ان کے لیے ایک چیلنج ہے۔
ان کے مطابق میر علی حسن زہری، جو پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے قریب سمجھے جاتے ہیں، ممکنہ طور پر اسلام آباد میں وزیراعلیٰ کے خلاف بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اسی پس منظر میں سرفراز بگٹی بارہا اسلام آباد آکر پارٹی قیادت کو اعتماد میں لیتے ہیں۔
تجزیہ کار کے مطابق وزیراعلیٰ کے اسلام آباد کے دوروں کی دیگر وجوہات بھی ہیں، جن میں سرکاری میٹنگز اور ذاتی مصروفیات شامل ہیں۔ ماضی میں بھی سابق وزرائے اعلیٰ قدوس بزنجو وغیرہ اسلام آباد کے مسلسل دورے کرتے رہے ہیں، اس لیے اس پہلو کو حکومت بچانے کی کوشش قرار دینا درست نہیں۔
امن و امان اور ’’زیرو ٹالرنس‘‘ پالیسی
بلوچستان کی امن و امان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے بلال ڈار نے کہا کہ اسے وزیراعلیٰ کے جارحانہ رویے کے ساتھ جوڑنا حقیقت کے قریب نہیں۔ ان کے مطابق صوبے میں بدامنی کے مسائل سرفراز بگٹی کے حلف اٹھانے سے پہلے سے موجود تھے اور انہیں ’’ورثے‘‘ میں ملے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’’بلوچستان میں علیحدگی پسند اور کالعدم تنظیمیں ماضی سے ہی شہریوں کو نشانہ بناتی رہی ہیں۔ شناختی کارڈ دیکھ کر پنجابیوں کو گاڑیوں سے اتار کر قتل کرنے اور بم دھماکوں جیسے واقعات ریاست سے سخت رویے کا تقاضا کرتے ہیں۔‘‘
بلال ڈار کے مطابق ماضی میں ’’ہتھیار ڈالو اور معافی لو‘‘ جیسی پالیسیوں سے خاطر خواہ نتائج نہیں ملے اور کئی شدت پسند دوبارہ ہتھیار اٹھا کر دہشتگردی کی راہ پر چل نکلے۔ ایسے حالات میں زیرو ٹالرنس پالیسی اپنانا ہی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
ڈھائی سالہ فارمولہ — حقیقت یا بیانیہ؟
تجزیہ کار نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بلوچستان میں حکومت سازی کے دوران مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ’’ڈھائی، ڈھائی سال‘‘ کے فارمولے پر اتفاق ہوا تھا۔ اس کے تحت پہلے ڈھائی سال کے لیے سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ رہیں گے، جب کہ اگلے ڈھائی سال مسلم لیگ (ن) کا وزیراعلیٰ سامنے لایا جائے گا۔
ماضی میں ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور میں بھی اسی طرز کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت اس تاثر کی تردید کرتی ہے، مگر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وفاقی سطح پر ڈھائی سالہ پاور شیئرنگ کی تجویز کا ذکر کر چکے ہیں۔
اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے دو صوبائی رہنما گزشتہ ایک سال سے لابنگ کر رہے ہیں اور انہیں یقین دہانی بھی کرائی جا چکی ہے کہ وقت آنے پر ان کی حمایت کی جائے گی۔ تاہم اصل فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر منحصر ہوگا کہ آیا یہ فارمولہ آگے بڑھتا ہے یا سرفراز بگٹی اپنی مدت اقتدار مکمل کرتے ہیں۔
بلوچستان میں سیاسی اختلافات اور بدامنی کی صورتحال اپنی جگہ موجود ہیں، مگر تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی فی الحال کسی بڑے خطرے میں نہیں۔ ان کی حکومت کو اتحادی جماعتوں کا اعتماد حاصل ہے اور فیصلہ کن قوتوں کی پشت پناہی بھی ان کے ساتھ ہے۔ البتہ ’’ڈھائی سالہ فارمولے‘‘ پر عملدرآمد یا اس کی ناکامی آئندہ مہینوں میں بلوچستان کی سیاست کی سمت متعین کر سکتی ہے۔

دوسری جانب بلوچستان کے ضلع قلات سے تعلق رکھنے والی سینٹر روبینہ عرفان نے بلوچستان عوامی پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ انھوں کہا کہ صحیح معنوں میں نمائندہ اور جامع سیاسی گھر دینے کے لیے جس جذبے کے ساتھ بی اے پی کی تشکیل کی گئی تھی، افسوس کہ وہ برقرار نہیں رہی۔ فیصلے کم شامل ہوگئے، اندر سے آنے والی آوازوں کو اکثر نظرانداز کردیا گیا اور بلوچستان کے لیے ایک حقیقی اجتماعی فورم کے وعدے سے سمجھوتہ کیا گیا۔ ایک ایسے صوبے میں جسے حکمرانی کے خسارے سے لے کر معاشی مشکلات اور عدم تحفظ تک کے گہرے چیلنجز کا سامنا ہے، کھلے پن اور اتحاد کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے، مکالمے اور مشترکہ نقطہ نظر کے لیے وہ جگہ پھیلنے کے بجائے تنگ ہوتی گئی۔ تاہم، میری مایوسی کو تسلیم نہ کرنے میں کوتاہی ہوگی
انھوں نے کہا کہ میں تلخی کے بغیر چلی جاتی ہوں۔ چار پارلیمانی ادوار میں میرا سیاسی سفر ہمیشہ بلوچستان اور پاکستان کی خدمت کے لیے رہنمائی کرتا رہا، چاہے پارٹی کے بینر کچھ بھی ہوں۔ جب میں اب بی اے پی سے الگ ہوئی ہوں۔