’پرورش‘ میں بظاہر کہانی کچھ ٹین ایج بچوں سے جڑے معاملات کی ہے لیکن یہ ڈرامہ بچوں کے ان کرداروں کے ذریعے بڑوں کو ان کے وہ مسائل سمجھاتا رہا ہے جن کے متعلق وہ کبھی بات تک نہیں کرتے۔
آپ پاکستانی ڈرامہ کے باقاعدہ ناظرین میں شامل نہ بھی ہوں تو سوشل میڈیا پر آپ کی ٹائم لائن پر ایک ڈرامہ کے سینز ویڈیوز کی شکل میں تواتر سے نظر آئے ہوں گے۔
’پرورش‘ میں بظاہر کہانی کچھ ٹین ایج بچوں سے جڑے معاملات کی ہے لیکن یہ ڈرامہ بچوں کے ان کرداروں کے ذریعے بڑوں کو ان کے وہ مسائل سمجھاتا رہا ہے جن کے متعلق وہ کبھی بات تک نہیں کرتے۔
نجی چینل اے آر وائے کے یوٹیوب چینل پر ڈرامے کی پہلی قسط کے 28 ملین ویوز موجود ہیں جس کے بعد 11 اگست کو اپ لوڈ کی جانے والی آخری قسط تک نمبرز مقبولیت کے ثبوت کے لیے برقرار ہیں۔
مایا اور ولی کے ٹین ایج کردار، آئنہ آصف اور ثمر جعفری نے ادا کیے ہیں۔ ان دونوں کے گھرانے بالکل ہمارے اور آپ کے گھرانوں جیسے ہیں۔ جہاں ایک چھت کے نیچے پیار اور تکرار ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لیکن ان دونوں کے بیچوں بیچ جنریشن گیپ نام کا فاصلہ بنا رہتا ہے۔
ولی کے والدین، جہانگیر(نعمان اعجاز) اور ماہ نور (سویرا ندیم) وہ اوورسیز پاکستانی ہیں جنھیں مغربی کلچر میں تیرا چودہ سالہ بیٹی آنیہ کے ڈرگز سے جڑے ایک واقعے نے اس قدر بوکھلایا کہ انھوں نے پاکستان لوٹ آنے کا فیصلہ کر لیا۔
والدین کی حد درجہ سختی کے بعد ڈری سہمی آنیہ کئی نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہے۔ وہ خاندان کی ہر مشکل کی ذمہ دار خود کو سمجھتی ہے۔
ولی اس اچانک تبدیلی سے الگ پریشان ہے جہاں اسے لگتا ہے وہ اپنی زندگی کے متعلق کسی بھی فیصلے کا حصہ نہیں ہے۔ مستزاد یہ کہ والدین چاہتے ہیں کہ وہ اپنا گٹار رکھ کر سٹیتھوسکوپ سنبھالے اور میڈیکل کالج میں نام بنائے۔
وہیں میڈیکل کالج میں ملنے والی مایا، والدین کی اس شرط پر میڈیکل کالج میں پڑھ رہی ہے کہ وہ پہلے ان کی مرضی کے شخص سے منگنی کرے اور ڈگری کے بعد گھر سنبھالے۔
ایسا نہیں ہے کہ بچوں پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کی کہانی پہلی بار سنائی گئی ہو۔ لیکن جس طرح کردار عام زندگی سے قریب تر، مکالمہ اور حالات بے ساختہ اور قدرتی ہیں، دیکھنے والوں کو یہ کہانی ہر طرح سے خود پر بیتی ہوئی محسوس ہوئی۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ باڈی لینگوئج سے لے کر مکالمے تک جین زی کی کہانی، جین زی کی زبان میں ہی کہی گئی ہے۔ جس نے جین ایکس اور ملئنیلز کو انھیں سمجھنے میں بہت مدد دی۔
ڈرامہ کی مصنفہکرن صدیقی نے ایک یوٹیوب چینل پر دیے انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے اپنے گھر کےجین زی بچوں کو دیکھا کہ وہ کس طرح بات کرتے ہیں اور وہی زبان استعمال کی۔
سوشل میڈیا پر پہلی قسط کے بعد سے ہی ڈرامے پر بات شروع ہو گئی۔ ولی اور مایا کے کردار سوشل میڈیا کے ٹرینڈز میں شامل ہوئے۔ ان کے رومینس پر ہیش ٹیگز بنے۔ جنریشن زی کی زبان میں ’نبا نبی‘ کی یہ جوڑی انھیں اپنے دل کے قریب لگی۔
ولی کا مایا کے لیے فکر مند ہونا اور مایا کا ولی کی فین گرلز سے جیلس ہونا جین زی کے لیے ’کیوٹ‘ لیکن ملینیلئز کے لیے ’کرنج‘ (کراہت) تھی۔
اس ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ اٹھارہ انیس برس کے دو بچے آپس میں محبت کرنے کا دعویٰ رکھتے ہیں، پھر انھیں والدین کو بے خبر رکھتے ہوئے ڈیٹنگ کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔
کالج سے نکل کر پبلک بس میں سفر، سمندر کی سیر، ٹھیلوں پر کھانے سے لے کر ایک دوسرے کے گھر ملنے چلے جانے اور پھر فون پر لمبی باتوں کے سلسلے بھی کہانی کا حصہ ہیں۔
ڈرامہ کے ناقدین نے اس پہلو پر کہا کہ ٹین ایج بچوں کی والدین سے اس حد تک بغاوت اور آزادی دکھانا درست نہیں۔
’اماں‘ کے نام سے معروف ڈرامہ مبصر لبنیٰ فریاد نے اپنے شو پر کہا کہ ’مایا کے والدین یہ کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ اس وقت وہ پڑھائی کر لے لیکن بعد میں ولی کے متعلق سوچا جا سکتا ہے۔ تو یہ قابل قبول ہوتا۔‘
پرورش ڈرامہ کے ڈائرکٹر سید میثم نقوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس اعتراض کا جواب دیا اور کہا کہ ’ہم نے ٹین ایج لو سٹوری کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا بلکہ ہم نے وہی دکھایا جو ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے۔ بہت سے ماں باپ کو اس سب کا سامنا ہے۔ میں نے والدین سے صرف یہ کہا ہے کہبچوں سے جو کمیونیکشن گیپ (بات چیت میں مشکلات) ہیں، اسے دور کرنا ہے۔‘
اپنے کرداروں کے متعلق ان کا کہنا ہے ’بچے خود فیصلے بھی لے رہے ہیں، مایا کو خود اندازہ ہو جاتا ہے اس کا کیریئر، پڑھائی اور گول متاثر ہوتے ہیں تو وہ خود اپنی حدود کا تعین بھی کر رہی ہے۔‘
پرورش، رومینس سے بڑھ کر برومینس کا ڈرامہ؟
ولی کو پاکستان آنے پر ہم عمر کزن سمیر (ابوالحسن) کے ساتھ اس کے کمرے میں رہنا پڑا۔ سٹریٹ سمارٹ سمیر، بظاہر سادہ مزاج ثمر کے لیے، ’ٹچ بٹن‘ کی جوڑی ثابت ہوا۔ ثمر موٹر سائیکل چلانا کسی سے بھی سیکھ سکتا تھا، لیکن گھر والوں سے چھپا کر نکالنے کا گر سمیر ہی بتا سکتا تھا۔
سمیر کی سنگت میں ہی ثمر امریکہ پلٹ گھبرائے ہوئے لڑکے سے بدل کر مقامی رنگ میں ڈھلنے لگا۔ سمیر ہر گھمبیر اور مُشکل سے مُشکل صورتحال میں شرارت سے بات کا رخ بدل سکتا ہے۔ شرارت کی پرتوں میں چھپا حساس دل بھی اس کے پاس ہے جس نے کبھی ولی کو اکیلا چھوڑا نہ کسی اور رشتے سے منھ موڑا۔
ابو الحسن نے بطور ایکٹر اس کیریکٹر کو مکمل لا ابالی باڈی لینگوئج کے ساتھ پرفارم کیا۔ سوشلمیڈیا صارفین نے ولی مایا رومینس سے بھی بڑھ کر ولی سمیر کے ’برومینس‘ کو پسند کیا۔
سوشل میڈیا بحث میں پسندیدگی اور اعتراضات کے درمیان صارفین ایک بات پر متفق ہیں کہ اس ڈرامے نے مکالمے کا راستہ کھولا ہے۔ ان موضوعات پر توجہ دلائی ہے جن پر روایتی ڈراموں میں بات نہیں ہوتی۔
جین زی ہم سے مختلف ہے اور اپنی سوچ ان پر مسلط کرنے سے پہلے ہمیں سمجھنا ہو گا کہ وہ کس طرح سوچتے ہیں۔
بچوں کو ان کی غلطی پر ان سے رابطہ توڑ کر دنیا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا جیسے ولی کے والد نے کیا۔
نفسیاتی الجھن یا ڈپریشن صرف بڑے بوڑھوں کا مسئلہ نہیں ہے اس دور میں نوجوان مختلف انداز میں دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے رویے کو سختی سے دور کرنے کے بجائے انھیں سنیں، ان کا یقین کریں اور تھراپی جیسی پیشہ ورانہ مدد لیں۔
شادی کے رشتے میں بھی، کمیونیکیشن گیپ فاصلہ بڑھائے جاتا ہے۔ اس کے لیے بھی میرج کاؤنسلنگ کو عام کرنے میں حرج نہیں ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہیلنگ یا زخم بھرنے کے لیے عمر کے آخری سال نہ چنے جائیں بلکہ یہ عمل شروع سے ہی پرورش کا حصہ بنایا جائے۔