19ویں صدی میں امریکہ کے کئی شہروں اور کم از کم ایک ریاست نے ایسے قانون نافذ کیے جن کے تحت اگر کوئی شخص مخصوص جسمانی خصوصیات کا حامل نہ ہوتا تو اس کے عوامی مقامات پر جانے پر پابندی تھی،
خانہ جنگی کے خاتمے کے صرف دو سال بعد امریکہ کے کئی شہروں نے ایسے قوانین پاس کرنا شروع کیے جو ’بیمار، معذور یا بدصورت‘ افراد کو سڑکوں پر آنے سے روکنے کے لیے تھے۔’خوبصورت ہونا اچھا انسان ہونے سے بہتر ہے۔‘
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئرش شاعر اور مصنف آسکر وائلڈ (1854-1900) نے یہ جملہ اپنے وقت کے امریکہ کا سوچ کر کہا تھا۔
19ویں صدی کے دوسرے نصف کے دوران، امریکہ کے کئی شہروں اور کم از کم ایک ریاست نے ایسے قانون نافذ کیے جن کے تحت اگر کوئی فرد مخصوص جسمانی خصوصیات کا حامل نہ ہوتا تو یہ اس وقت کی مروجہ جمالیات کی خلاف ورزی اور ایک جرم تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ متنازع ضوابط جن میں جرمانے اور قید کی سزائیں شامل تھیں ’بدصورتی کے قوانین‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔
نام نہاد ’بدصورتی کے قوانین‘ کا مقصد بے گھر افراد اور غریبوں کو تیزی سے بڑھتے ہوئے شہروں سے دور رکھنا تھا۔’ناخوشگوار‘ چیزوں کو چھپائیں
سوسن شوایک امریکہ کی برکلے یونیورسٹی میں ڈین آف آرٹس اینڈ ہیومینٹیز ہیں۔ انھوں نے بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے بتایا، ’نام نہاد ’بدصورتی کے قوانین‘ میونسپل آرڈیننس کا ایک سلسلہ تھا جس کے تحت بعض جسمانی خصوصیات کے حامل لوگوں کے عوامی مقامات پر جانے پر پابندی تھی۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ان میں سے پہلا قانون سان فرانسسکو میں 1867 میں منظور کیا گیا۔ پروفیسر شوایک نے اپنی کتاب ’دی اگلی لاز: ڈس اییلٹی ان پبلک‘ کے لیے ان ضوابط کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔
اس وقت کے نئے نئے بنے کیلیفورنیا شہر میں جاری آرڈیننس کے تحت سڑکوں، پلازوں، پارکوں اور دیگر عوامی مقامات پر نظر آنے والے کسی بھی ’بیمار یا معذور‘ شخص کو سزا دی جا سکتی تھی۔
آنے والے برسوں کے دوران، رینو (نیواڈا)، پورٹلینڈ (اوریگون)، لنکن (نبراسکا)، کولمبس (اوہائیو)، شکاگو (ایلی نوائے)، نیو اورلینز (لوزیانا) اور ریاست پنسلوانیا جیسے شہروں نے سان فرانسسکو کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایسے ہی قوانین نافذ کیے۔
شکاگو اس طرح کا قانون پاس کرنے والے آخری شہروں میں سے ایک تھا۔ مقامی اخبار ٹریبیون کے مطابق، 1916 میں نافذ کیے گئے قانون کے لیے حکام نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ اس قانون کا مقصد شہر کی تمام ’سڑکوں سے بدصورتی‘ کو ’ختم‘ کرنا تھا۔
شوایک کہتی ہیں کہ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس قانون میں جس ’بدصورتی‘ کا حوالہ دیا گیا تھا اس کا اشارہ اینٹوں کے ڈھیر جیسی بے جان چیزوں کی جانب تھا لیکن جن رکاوٹوں کو ہٹانے کی کوشش کی جا رہی تھی وہ جیتے جاگتے انسان تھے۔
خانہ جنگی نے ہزاروں افراد کو زخمی اور معذور کر دیااس زمانے میں کچھ لوگوں نے ان قوانین کے دفاع میں یہ جواز پیش کرنے کہ کوشش کی کہ ان کا مقصد بیماریوں پر قابو پانا اور صحت عامہ کا تحفظ ہے۔
پروفیسر شوایک اس کی وضاحت ایسے کرتی ہیں کہ ’میٹرنل انفلوئنس تھیوری‘ کے تحت یہ مانا جاتا تھا کہ اگر حاملہ عورت کسی بیمار یا معذور شخص کو دیکھے گی تو ہو سکتا ہے کہ اسے اتنا صدمہ پہنچے کہ اس کا بچہ بیمار پیدا ہو۔
امریکی مذہبی رہنما چارلس ہینڈرسن کی 1906 میں شائع ہونے والی تحریر بھی اس عقیدے کی توثیق کرتی ہے۔
’ناپسندیدہ‘ افراد کو الگ تھلگ رکھنے کے ان اقدامات کی حمایت میں انھوں نے لکھا کہ کسی بھی شخص کے لیے کسی دوسرے کو مرگی کا دورہ پڑتے دیکھنا ایک ایسے خوفناک تجربے سے کم نہیں جسے وہ زندگی بھر نہیں بھلا سکتے۔
ان قوانین کے تحت نہ صرف بھیک مانگنے پر پابندی عائد کی گئی بلکہ معذور افراد پر سڑکوں پر کرتب دکھانے پر بھی پابندی تھی۔ یہ آرڈیننس امریکی خانہ جنگی کے خاتمے کے دو سال بعد منظور ہونا شروع ہوئے
شوایک کے مطابق یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ یہ آرڈیننس امریکی خانہ جنگی (1861-1865) کے خاتمے کے دو سال بعد منظور ہونا شروع ہوئے تھے جس میں ہزاروں افراد زخمی اور معذور ہوئے تھے۔
وہ کہتی ہیں اس زمانے میں سان فرانسسکو ایک ایسا شہر تھا جہاں سونے کی تلاش کے لیے بڑی تعداد میں آئے غیر ملکی خاص طور پر چینی پناہ گزینوں کی آمد کا سامنا تھا اور اس کی سڑکیں ضرورت مند لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔
’چونکہ یہ شہر میدان جنگ سے بہت دور تھا، اس لیے یہاں زخمیوں کی اتنی بڑی تعداد نہیں تھی جتنی دوسری جگہوں پر تھی۔ اسی وجہ سے سان فرانسسکو کے رہائشیوں کو شبہ تھا کہ شہر کی سڑکوں پر موجود زخمیوں میں سے بیشتر ایسے دھوکے باز ہیں جو کام کرنے کی بجائے بھیک مانگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
ایک حیران کن بات یہ تھی کہ ان میں سے بہت سے ’بدصورت کے قوانین‘ کو فلاحی تنظیموں کی حمایت حاصل تھی۔
امریکہ کی ٹیمپل یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آن ڈس ایبلٹی سے تعلق رکھنے والی محقق راکیل مینگول نے بی بی سی منڈو کو بتایا، ان قوانین کو ایسے لوگوں کو لمبے عرصے تک قید یا ہسپتالوں میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا جنھیں معاشرے میں ’ناگوار‘ سمجھا جاتا تھا۔
مختلف قوانین کے تحت، ایسے ’بیمار، مسخ شدہ، یا معذور افراد‘ کے لیے جرمانے اور قید کی سزائیں تجویز کی گئیں جو عوامی مقامات پر آتے تھے۔
شوایک کا کہنا ہے کہ ’اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ’قوانین‘ کا نشانہ بننے والے افراد کو پناہ گزینوں یا غریبوں کے لیے مختص جگہوں تک محدود کرکے ایک طرح کی غیر اعلانیہ عمر قید کی سزا دے دی گئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ روزویلٹ جیسے افراد ان بدصورتی قوانین کا نشانہ نہیں تھے جو پولیو کے باعث کمر سے نیچے تک مفلوج تھے لیکن غیر ارادی طور پر وہ بھی اس سے متاثر تھے۔ان قوانین کا نشانہ غریب تھے
اگرچہ ’بدصورتی کے قوانین‘ کا مقصد کچھ گروہوں کو ان کی جمالیات کی کمی کے لیے نشانہ بنانا تھا تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ ان کا اصل مقصد کچھ اور تھا۔
راکیل مینگول بتاتی ہیں کہ ’ان قوانین کا جسمانی کشش سے بہت کم تعلق تھا اور ان کا استعمال معذور لوگوں، بے گھر افراد، یا مرگی جیسی بیماریوں سے متاثرہ افراد کو سڑکوں سے ہٹانے کے لیے کیا جاتا تھا۔‘
ڈیولپمنٹ ڈس ایبیلٹی کے ماہر گائے کیروسو بھی اس نظریے سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔
ٹیمپل یونیورسٹی کی پروفیسر کا کہنا ہے کہ ’زیادہ تر بے گھر اور معذور افراد غریب تھے جنھیں زندہ رہنے کے لیے بھیک مانگنا پڑتی تھی اور لوگ انھیں سڑکوں پر دیکھ کر ناگواری محسوس کرتے تھے۔‘
لیکن آرڈیننس نے نہ صرف ’ناگوار‘ سمجھے جانے والے ان افراد کے سڑکوں، چوکوں یا پارکوں میں آنے پر پابندی عائد کر دی تھی بلکہ انھیں بھیک مانگنے سے بھی منع کر کے ان کی روزی روٹی کو مزید مشکل بنا دیا تھا۔
مثال کے طور پر، شکاگو کے قانون کے تحت عوامی مقامات پر نظر آنے والے ’بیمار، مسخ شدہ، یا معذور افراد‘ پر ہر دفعہ قانون کی خلاف ورزی پر ایک امریکی ڈالر جرمانہ تھا جو کہ آج کے حساب سے 20 امریکی ڈالر سے زیادہ بنتے ہیں۔
19ویں صدی میں ایک عقیدہ تھا کہ بیمار اور معذور افراد صحت عامہ کو متاثر کر سکتے ہیں۔لیکن ان قوانین سے صرف بھکاری ہی نہیں بلکہ وہ بھی متاثر ہوئے جو سڑکوں پر چیزیں بیچ کر یا کرتب دکھا کر اپنی روزی روٹی کماتے تھے۔
شوایک اپنی کتاب میں 1910 میں کلیولینڈ میں درج ہونے والے ایک کیس کا حوالہ دیتی ہیں۔ حکام نے ایک ایسے شخص کو سڑکوں پر اخبارات فروخت کرنے سے روک دیا تھا جس کے ہاتھ پاؤں زخمی تھے. ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی معذور کا کام نہیں۔
برسوں بعد پورٹ لینڈ میں پولیس افسران نے ’مدر ہیسٹنگز‘ نامی ایک خاتون جو کہ سڑکوں پر اخبار بیچا کرتی تھی سے کہا کہ ’بچوں کے لیے انھیں دیکھنا کسی خوفناک منظر‘ سے کم نہیں اور انھیںدو آپشنز دیے: کسی فارم پر چلی جائیں یا کسی اور شہر منتقل ہو جائیں۔
تفتیش کار کو ملنے والی معلومات کے مطابق خاتون نے لاس اینجلس جا کر ایک اور معذور شخص سے شادی کر لی۔
عوامی مقامات پر دکھائی دینے والے بھکاری یا معذور افراد کو جرمانے کا سامنا کرنا پڑا۔امتیازی سلوک کا آغاز
ان قوانین سے متاثر ہونے والے افراد کی صحیح تعداد کا اندازہ نہیں ہے کیوں کہ نہ تو پولیس اور نہ ہی عدالتوں نے ان کا ریکارڈ رکھا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان قوانین کا اثر محض ان افراد تک محدود نہ تھا۔
شوایک کہتی ہیں کہ یہ قوانین 19ویں صدی کے آخر میں سامنے آنے والے قوانین کا حصہ تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ کس قسم کے افراد کو عوامی مقامات پر آنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ آرڈیننس بالآخر جنوبی ریاستوں میں منظور ہونے والے نسلی علیحدگی کے قوانین سے جوڑے گئے۔
مینگول کہتی ہیں کہ ان قوانین نے 19ویں صدی کے آخر میں ملک کی کچھ ریاستوں میں منظور ہونے والے یوجینکس (نسلی بہتری) کے لیے قوانین کا بھی دروازہ کھولا۔
ان کا کہنا ہے کہ ان قوانین کی مدد سے ایسے قوانین لاگو کرنے میں مدد ملی جو معذور یا دماغی بیماریوں میں مبتلا افراد کی نس بندی کی اجازت دیتے تاکہ ان گروہوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
شوایک اعتراف کرتی ہیں کہ ’بدصورتی کے قوانین‘ نے معذور افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کیا۔ تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ان قوانین کا بنیادی مقصد یہ نہیں تھا۔
’میں اکثر کہتی ہوں کہ (سابق صدر) فرینکلن ڈیلانو روزویلٹ (1882-1945) ان ضوابط کا ہدف نہیں تھے۔ بنیادی ہدف غریب لوگ تھے۔‘
روزویلٹ 39 سال کی عمر میں 1921 میں پولیو کا شکار ہوئے۔ ایک ایسی بیماری جس نے انھیں کمر سے نیچے تک مفلوج کر دیا اور وہ ساری زندگی ویل چیئر استعمال کرنے پر مجبور ہو گئَے۔ تاہم ان کی معذوری اتنی واضح نہیں تھی لیکن بعض عوامی تقریبات میں وہ بیساکھیوں اور دیگر آلات کا استعمال کرتے تھے۔
1970 کی دہائی میں، معذوری کے حقوق کی تحریک نے ’بدصورت کے قوانین‘ کو منسوخ کرنے پر زور دیا۔قانون ختم ہو گئے لیکن انھیں بھلایا نہیں جا سکا
20ویں صدی میں ’بدصورتی کے قوانین‘ کا اطلاق کافی حد تک ختم ہوگیا تھا۔ 1970 میں معذوری کے حقوق کی تحریک کے دباؤ میں آ کر انھیں منسوخ کیا گیا۔
شوایک کہتی ہیں کہ ’1970 میں اوماہا، نیبراسکا میں ایک پولیس افسر ایک بے گھر شخص کو گرفتار کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس ایسا کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کیونکہ وہ شخص نہ بھیک مانگ رہا تھا، نا نشے میں تھا اور نا ہی امن و امان کی خرابی کا باعث بن رہا تھا۔ تب ہی افسر کو بدصورت لوگوں پر آرڈیننس ملا اور وہ اسے نافذ کرنا چاہتا تھا۔‘
تاہم ایک جج نے پولیس افسر کی درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ’اگر میرے پڑوسی کے بچے بدصورت ہیں تو کیا مجھے ان کی گرفتاری کی اجازت دے دینی چاہیے؟‘ ایک مقامی اخبار نے یہ خبر شائع کر دی جس کے بعد لوگوں نے اس قانون کی منسوخی کا مطالبہ کرنے کے لیے مظاہرے شروع کر دیے۔
شوایک کا کہنا ہے کہ اس اخبار کی سرخی ’بھیک مانگنے کا قانون صرف بدصورت کو سزا دیتا ہے‘ کی وجہ سے آج ہم ان قوانین کو ’بدصورتی کے قوانین‘ کہتے ہیں جبکہ ان میں سے کسی بھی قانون میں لفظ بد صورت استعمال نہیں ہوا ہے۔
حالانکہ تمام شہروں نے اپنے آرڈیننس منسوخ نہیں کیے لیکن 1990 میں امریکی کانگریس کی جانب سے ڈس ایبلٹی ایکٹ (اے ڈی اے) کی منظوری کے بعد یہ کالعدم ہو گئے۔ ڈس ایبلٹی ایکٹ کے تحت جسمانی یا ذہنی معذوری کی بنا پر کسی بھی شخص کے خلاف کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک ممنوع ہے۔
موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 1990 میں نیویارک کے پوش علاقے ففتھ ایونیو سے بے گھر افراد کو ہٹانے کی مہم چلائی تھی۔قواعد و ضوابط کی باضابطہ منسوخی کے باوجود، ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے نتائج پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
مینگول کہتی ہیں کہ ان قوانین کی روح لوگوں اور اداروں کے لاشعور میں بسی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح سے آج بھی معذور افراد کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے اس سے یہ واضح ہے، ان سے اب بھی بچوں کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے۔
شوایک بھی زور دیتی ہیں کہ ’بدصورتی کے قوانین کی روایت اب بھی کافی حد تک زندہ ہے‘۔ ان کے مطابق موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شمار بھی بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اس میں حصہ ڈالا ہے۔
’ٹرمپ نے 1990 کی دہائی کے اوائل میں نیویارک کے پوش علاقے ففتھ ایونیو میں بے گھر اور معذوروں کے خلاف مہم کے ساتھ اپنا سیاسی کیریئر بنایا، وہ اس بات سے ناراض تھے کہ ان لوگوں نے ٹرمپ ٹاور کے آس پاس کے علاقے کی ’قدر‘ کو کم کیا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ آج آرڈیننس پاس کرنے کے بجائے شہر ایسے لوگوں کو جنھیں وہ ناگوار سمجھتے ہیں، دور رکھنے کے لیے زیادہ لطیف طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ زوایک کے مطابق ان اقدامات میں پلازوں اور سب وے یا ٹرین سٹیشنوں پر بینچز اور دیگر سٹریٹ فرنیچر نصب کرنا شامل ہے جن پر یہ افراد زیادہ دیر تک بیٹھیا سو نہ سکیں۔