ٹرمپ، پوتن ملاقات اور انڈیا کا ’انتظار‘: ’لگتا ہے امریکی صدر دلی کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں‘

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعہ کو اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کے ساتھ امریکی ریاست الاسکا میں ایک اہم ملاقات کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن اس ملاقات کے نتائج کا انتظار ہزاروں میل دُور انڈیا میں بھی ہو رہا ہے۔
انڈیا
Getty Images
رواں ماہ ہی ٹرمپ نے انڈیا پر عائد 25 فیصد محصولات پر مذید 25 فیصد کا اضافہ کر دیا تھا جس کی وجہ روسی تیل اور ہتھیاروں کی خریداری بتائی گئی تھی

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعہ کو اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کے ساتھ امریکی ریاست الاسکا میں ایک اہم ملاقات کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن اس ملاقات کے نتائج کا انتظار ہزاروں میل دُور انڈیا میں بھی ہو رہا ہے۔

امریکی سیکریٹری خزانہ سکاٹ بسنیٹ نے خبردار کیا ہے کہ اگر پوتن، ٹرمپ ملاقات بے نتیجہ رہی، تو انڈیا پر اضافی محصولات عائد ہو سکتے ہیں۔

بلومبرگ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے امریکی سیکریٹری خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے انڈیا پر روسی تیل خریدنے کی وجہ سے اضافی محصولات عائد کیے ہیں۔ اگر معاملات بہتر نہیں ہوئے تو پابندیاں یا مزید اضافی محصولات لگ سکتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ رواں ماہ ہی ٹرمپ نے انڈیا پر عائد 25 فیصد ٹیرف کے نفاذ کا اعلان کرنے کے کچھ روز بعد مزید 25 فیصد اضافی محصول عائد کیا تھا۔ اضافی محصول عائد کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے اس کی وجہ انڈیا کی جانب سے روسی تیل اور ہتھیاروں کی خریداری بتائی گئی تھی۔

امریکی صدر اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کروانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور بدھ کے دن انھوں نے خبردار کیا تھا کہ کہ اگر ماسکو نے امن معاہدے پر اتفاق نہیں کیا تو اس کے ’نتائج‘ ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ یوکرین جنگ کے آغاز سے ہی انڈیا کی جانب سے سستے روسی تیل کی بڑھتی ہوئی درآمدات امریکہ سے دلی کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ بنی ہیں اور حال ہی میں دونوں ممالک میں تجارتی مذاکرات بھی اسی وجہ سے کامیاب نہیں ہو پائے۔

ٹرمپ
Getty Images
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر پوتن جمعہ کو الاسکا میں ملاقات کر رہے ہیں

ٹیرف دباؤ

سنہ 2024 میں انڈیا کی مجموعی تیل کی درآمدات کا تقریبا 40 فیصد حصہ روسی تیل پر مشتمل تھا۔ سنہ 2021 میں یہ صرف تین فیصد تھا۔

انڈیا نے اپنے اس فیصلے کا دفاع یہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ ’توانائی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ملک کے غریب عوام کو مہنگائی سے بچانے کے لیے سب سے سستا تیل درآمد کرنا ہوتا ہے۔‘

تاہم امریکہ کی جانب سے حالیہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ محصولات ان کی انتظامیہ کی اس حکمت عملی کا حصہ ہیں جو امریکی معیشت کو ترقی دینے اور عالمی تجارت کو منصفانہ بنانے کے لیے اپنائی گئی ہے۔

ٹرمپ نے بارہا انڈیا پر الزام لگایا ہے کہ دلی محصولات کا ناجائز استعمال کرتا ہے اور اب امریکی صدر انڈیا کے ساتھ 45 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کو کم سے کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کئی ماہ سے انڈیا اور امریکہ کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور 25 اگست کو امریکی حکام ایک نئے دور کے لیے دلی پہنچ رہے ہیں۔

تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ انڈیا کی جانب سے زرعی اور ڈیری مصنوعات پر ڈیوٹی کم نہ کرنے کی ضد مذاکرات کی کامیابی میں رکاوٹ ہیں۔

’ہم زیادہ سے زیادہ 10 سے 15 فیصد ٹیرف برداشت کر سکتے ہیں‘

زیادہ تر انڈین ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ وہ بمشکل 10 سے 15 فیصد ٹیرف برداشت کر سکتے ہیں۔

50 فیصد ٹیرف برداشت کرنا ان کی استطاعت سے باہر ہے۔

جاپانی بروکریج فرم ’نومورا‘ کے مطابق ’اگر یہ ٹیرف لاگو ہوتا ہے، تو یہ ’تجارتی پابندی‘ جیسا ہو گا۔ ٹیرف سے متاثر ہونے والی مصنوعات کی برآمد فوری طور پر رک سکتی ہے۔‘

امریکہ انڈیا کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔ انڈیا اپنی 18 فیصد اشیا امریکی مارکیٹ میں برآمد کرتا ہے۔ یہ انڈیا کی جی ڈی پی کا 2.2 فیصد ہے۔

ماہرین کے مطابق 50 فیصد ٹیرف انڈیا کی جی ڈی پی میں 0.2 سے 0.4 فیصد تک کمی کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ اس سال اقتصادی ترقی کو چھ فیصد سے نیچے دھکیل سکتا ہے۔

انڈین ایکسپورٹرز پر امریکی محصولات کا اثر محسوس ہونے لگا ہے۔ انڈیا کے بڑے برآمدات پر مبنی شعبوں جیسے چمڑے، ٹیکسٹائل اور جواہرات اور زیورات کے امریکی آرڈرز منسوخ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ کیونکہ ٹیرف کی وجہ سے امریکی تاجروں کے لیے بھارتی اشیا مہنگی ہو گئی ہیں۔

انڈیا
BBC
انڈین ایکسپورٹرز کے مطابق وہ صرف 10 سے 15 فیصد ٹیرف برداشت کر سکتے ہیں

’یہ کوئی ذاتی معاملہ لگتا ہے‘

بین الاقوامی امور کے ماہر اور انڈیا امریکہ تعلقات پر گہری نظر رکھنے والےپریمانند مشرا کا کہنا ہے کہ ’اس وقت انڈیا کے خلاف امریکہ کا رویہ بہت ذاتی معاملہ لگتا ہے.‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ انڈیا کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ مسئلہ تیل خریدنے کا نہیں ہے۔ چین انڈیا سے زیادہ تیل روس سے خریدتا ہے، لیکن ٹرمپ چین کے خلاف اضافی ٹیرف نہیں لگا رہے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے 90 دن کی ڈیڈ لائن دی ہے۔‘

پریمانند کا ماننا ہے کہ ’امریکہ انڈیا کے ساتھ اپنے سٹریٹجک معاملات پر نظرثانی کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے ٹیرف ایک بہانہ ہے۔ چونکہ امریکہ انڈیا پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے، اس لیے وہ پاکستان کی حمایت کر رہا ہے۔‘

اُن کے بقول ٹرمپ-پوتن ملاقات کا نتیجہ کچھ بھی ہو، انڈیا ٹرمپ انتظامیہ پر دباؤ ڈالتا رہے گا۔‘

ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ نئے محصولات 27 اگست سے لاگو ہو جائیں گے۔ چند ماہرین کے مطابق اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت تقریبا رُک جانے کا اندیشہ ہے۔

ٹرمپ کے فیصلے کی وجہ سے انڈیا اس وقت ایشیا میں سب سے زیادہ محصولات والا امریکی تجارتی شراکت دار بن چکا ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل اور زیورات کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہو گا۔

چند اندازوں کے مطابق اگر ٹرمپ کے عائد کردہ محصولات لاگو ہو جاتے ہیں تو انڈیا کی معاشی ترقی ایک فیصد سے بھی کم ہو سکتی ہے۔

روس، انڈیا دفاعی تعلقات کے پہلو

روس، انڈیا
Getty Images
بھارت، روس سے اسلحہ خریدنے والے بڑے ممالک میں بھی شامل ہے

روایتی طور پر انڈیا روسی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں انڈیا نے امریکہ، اسرائیل اور فرانس سے اسلحہ خریدنا شروع کر دیا ہے۔

اس وقت بھی انڈیا اپنے زیادہ تر ہتھیار روس سے خریدتا ہے۔ سنہ 2018 اور سنہ 2023 کے درمیان انڈیا نے روس سے 13 ارب ڈالر کے ہتھیار خریدے۔ مستقبل کے لیے دس ارب ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کا آرڈر دیا گیا۔ روس سے 20 فیصد ہتھیار اکیلا انڈیا خریدتا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار راہول بیدی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انڈیا کے پاس دفاعی تعاون میں روس کے علاوہ بہت کم آپشنز ہیں۔ آج اس کا 60 سے 70 فیصد فوجی سازوسامان روسی ساختہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ان ہتھیاروں اور مشینوں کی دیکھ بھال، سروس کے ساتھ ساتھ ان کے سپیئر پارٹس کو اپ گریڈ کرنے کے لیے انڈیا مکمل طور پر روس پر انحصار کرتا ہے۔‘

اُن کے بقول ’یہ ممکن ہے کہ انڈیا روس سے نیا سامان نہ خریدے لیکن اگلے دس سال تک پرانے آلات کی دیکھ بھال روسی مدد کے بغیر بہت مشکل ہو جائے گی۔‘

انڈیا اور امریکہ کے تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ مستقبل میں انڈیا کو روس سے ہتھیار خریدنے پر سزا دیتا ہے تو اس سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

اس سے انڈیا امریکہ تعلقات مزید خراب ہوں گے۔ اس لیے انڈیا چاہے گا کہ ٹرمپ اور پوتن کے درمیان بات چیت کامیاب ہو۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ سیاسیات کی پروفیسر ریشمی قاضی کا کہنا ہے کہ جس طرح روس سے تیل خریدنے پر انڈیا کے خلاف ٹیرف بڑھایا جا رہا ہے اسی طرح روس سے ہتھیار خریدنے پر بھی امریکہ انڈیا سے ناراض ہو سکتا ہے۔

ٹرمپ-مودی
Getty Images
ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ روس سے اسلحہ خریدنے پر بھی انڈیا سے ناراض ہو سکتا ہے

پاکستان عنصر

آپریشن سندور کے بعد امریکہ کا جھکاؤ پاکستان کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک ایسا عنصر ہے جسے امریکہ اور چین دونوں انڈیا کو گھیرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ نے اس بار بھی ایسا ہی کیا ہے۔

پریمانند مشرا کا کہنا ہے کہ ’پاکستان انڈیا کی خارجہ پالیسی کی ایک کمزور کڑی ہے اور اسے انڈیا کو پریشان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ ’چونکہ پاکستان میں جمہوریت کمزور ہے، اس لیے امریکہ یا چین کے لیے پاکستانی قیادت پر اثر انداز ہونا آسان ہے۔ اس لیے ان کے لیے انڈیا کو مشکل میں رکھنے کے لیے ان کا استعمال کرنا آسان ہو جاتا ہے۔‘

پریمانند مشرا کا کہنا ہے کہ پاکستان کو انڈیا کو غیر مستحکم رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کی خارجہ پالیسی کی خود مختاری کو چیلنج کرنے کے لیے بھی پاکستان فیکٹر استعمال کیا جاتا ہے۔

پریمانند مشرا کے مطابق نریندر مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کا سب سے اہم پہلو انڈیا کی سٹریٹجک خود مختاری ہے۔ امریکہ اور چین جیسے ممالک ہمیشہ پاکستان کو استعمال کر کے انڈیا کی اس پالیسی کو چیلنج کرنے کی کوشش کریں گے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US