بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی ڈھاکہ آمد پر دونوں ملکوں کے درمیان سنہ 1971 کے ’غیر حل شدہ تاریخی مسائل‘ پر بات چیت ہوئی ہے۔ ادھر اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بنگہ دیش کے درمیان یہ معاملات ’دو مرتبہ‘ تحریری اور زبانی طور پر حل ہو چکے ہیں اور اب دونوں ملکوں کو آگے بڑھنا چاہیے۔
بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی ڈھاکہ آمد پر دونوں ملکوں کے درمیان سنہ 1971 کے ’غیر حل شدہ تاریخی مسائل‘ پر بات چیت ہوئی ہے۔
ایک بیان میں بنگلہ دیشی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار سے ملاقات کے دوران ’سنہ 1971 میں پاکستان کی طرف سے کی جانے والی نسل کشی پر باقاعدہ معافی، اثاثوں کی تقسیم، 1970 میں سمندری طوفان کے متاثرین کے لیے مختص غیر ملکی امداد کی منتقلی‘ کے معاملات بھی زیرِ بحث آئے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ’بنگلہ دیش ان معاملات کے فوری حل کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ مستقبل کے باہمی تعلقات کے لیے مضبوط بنیاد قائم کی جا سکے۔‘
تاہم ڈھاکہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش ’مضبوط تعلقات کے خواہاں ہیں‘ اور باہمی تعاون کے لیے چھ معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔
اس سے قبل ڈھاکہ میں پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگہ دیش کے درمیان سنہ 1971 کے معاملات ’دو مرتبہ‘ تحریری اور زبانی طور پر حل ہو چکے ہیں۔ انھوں نے دونوں ملکوں کو آگے بڑھنے کی تلقین کی تھی اور کہا تھا کہ ’ہمارا مستقبل روشن ہے۔‘

اسحاق ڈار نے یہ گفتگو بنگلہ دیش کے دو روزہ سرکاری دورے کے دوران کی۔ خیال رہے کہ 13 سال بعد کسی پاکستانی وزیر خارجہ نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ برسوں کی سرد مہری کے بعد تعلقات میں بظاہر بہتری آئی ہے۔ اسحاق ڈار نے اس دورے پر چیف ایڈوائزر محمد یونس سے بھی ملاقات کی ہے۔
اعلی سرکاری عہدیداروں کے علاوہ پاکستانی وزیر خارجہ کی ملاقات شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کی وجہ بننے والے طلبہ پر مشتمل سیاسی جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) کے ارکان سے بھی ہوئی۔ جبکہ وہ بنگلہ دیش کی نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ خالد ضیا سے بھی ملے۔
این سی پی نے ڈھاکہ میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات میں سنہ 1971 کے واقعات پر بات چیت کی تصدیق کی ہے۔ سنیچر کو اسحاق ڈار سے ملاقات کے بعد 'این سی پی' کے سیکریٹری اختر حسین نے صحافیوں کو بتایا کہ 'پاکستان کے ساتھ تعلقات آگے بڑھانے سے قبل 1971 کے معاملات سے نمٹنا چاہیے اور اسحاق ڈار سے ملاقات میں 'ہم نے اسی معاملے کو اُٹھایا ہے۔'
این سی پی میں شامل طلبہ نے گذشتہ برس اگست میں شیخ حسینہ حکومت کا تختہ اُلٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
اسحاق ڈار نے ’غیر حل شدہ معاملات‘ کے سوال پر کیا کہا؟
بنگلہ دیش کے مشیرِ خارجہ توحید حسین سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’ہماری ملاقات شاندار رہی۔ ہم نے تجارت، معیشت، سرمایہ کاری، سکیورٹی، دفاع میں باہمی تعاون سمیت مختلف شعبوں میں تعاون پر بات کی، ایک معاہدے اور چھ ایم او یوز پر دستخط کیے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے خیالات میں اتفاق تھا، کسی بھی معاملے میں ہمارے بیچ اختلاف رائے نہیں تھا جو کہ بہت مثبت بات ہے۔‘
اسحاق ڈار نے بتایا کہ ’آئندہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان سفارتی اور سرکاری پاسپورٹ رکھنے والے افراد کو ویزا کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے حکومتی اہلکاروں کے باہمی دوروں میں اضافہ ہو گا اور انھیں رسمی کارروائیوں سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ ’جہاں تک عام شہریوں کے ویزوں کا تعلق ہے، وہ پہلے ہی آسان بنا دیے گئے ہیں۔ پاکستان نے ویزا آن ارائیول یا 24 گھنٹے کے ویزا عمل کو بہت تیز کر دیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے عہد کیا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ کام کریں گے اور بین الاقوامی فورمز پر بھی مل کر کام کریں گے۔ ہم پہلے ہی بین الاقوامی فورمز پر باقاعدگی سے ملاقات کرتے ہیں اور کل ہم دونوں جدہ میں ہنگامی اجلاس کے لیے موجود ہوں گے۔‘
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے اچھا کرنے کی کتنی بڑی گنجائش اور امکانات ہیں۔‘
پاکستانی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہم دونوں ملکوں کے مابین اقتصادی اور تجارتی تعلقات میں نئی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔‘
صحافیوں سے بات چیت کے دوران جب اسحاق ڈار سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے بیچ ’غیر حل شدہ معاملات‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک ’غیر حل شدہ معاملات‘ کا تعلق ہے، 1974 میں یہ مسئلہ پہلی بار تحریری طور پر حل ہوا اور یہ تاریخی دستاویز دونوں ممالک کے لیے دستیاب ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بعد میں جنرل مشرف یہاں آئے اور بہت کھلے اور صریح انداز میں اس مسئلے کو حل کیا۔‘
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں بھائیوں کے درمیان یہ معاملہ طے ہونے کے بعد، اسلام بھی ہمیں دل صاف رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ لہذا ہمیں آگے بڑھنا چاہیے اور مل کر کام کرنا چاہیے کیونکہ ہمار مستقبل روشنہے۔‘
ان کا کہنا تھا’یہ مسئلہ 1974 اور پھر 2000 کی اوائل میں جنرل مشرف کے دورے کے دوران دو بار حل ہو چکا ہے۔ انھوں نے پورے پاکستان کی جانب سے پورے بنگلہ دیش کی قوم سے اس مسئلے کو حل کرنے کا اظہار کیا۔‘
’لہذا ہماری اسلامی تعلیمات، قرآن اور پیغمبرِ اسلام کی سنتِ کے مطابق ہمیں دل صاف رکھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔ ہم ایک خاندان ہیں اور ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ ہم دونوں ممالک کے عوام کے لیے بہترین کام کر سکیں۔`
اسحاق ڈار نے کہا ’میں، میرے بھائی توحید اور پوری ٹیم مل کر یہ کام کریں گے تاکہ ممکنہ حد تک بہتر نتائج حاصل ہوں۔ یہی معاہدہ ہے اور یہی ہم کر رہے ہیں۔‘
ماہرین کے مطابق دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید گرمجوشی کی راہ میں سنہ 1971 کے واقعات آڑے آ رہے ہیں۔
رواں برس اپریل میں دونوں ملکوں کے خارجہ سیکریٹریز کے درمیان تقریباً 15 برس بعد ہونے والی ملاقات میں بھی بنگلہ دیش نے اس معاملے کو اُٹھایا تھا۔
ڈھاکہ میں پاکستان کی سیکریٹری خارجہ سے ملاقات کے بعد بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ جاسم الدین نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’71 کے واقعات پر معافی کے ساتھ ساتھ پاکستان سے علیحدہ ہونے کے بعد واجبات کی مد میں 4.32 ارب ڈالر بھی مانگے ہیں۔‘
https://twitter.com/ForeignOfficePk/status/1959546106410381720
تجارت، تعلیم، میڈیا اور ثقافت میں تعاون کے لیے چھ معاہدے
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق آج ڈھاکہ میں وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت کے بعد، ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار اور بنگلہ دیش کے مشیرِ خارجہ کی نگرانی میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان چھ معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔
ان میں سفارتی و سرکاری پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے ویزا ختم کرنا، تجارت اور تعلیمی تبادلے کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپس اور ایم او یوز، میڈیا تعاون، سٹریٹجک سٹڈیز میں اشتراک اور ثقافتی تبادلے کے پروگرام شامل ہیں۔۔گ تاکہ دوطرفہ تعلقات کو مضبوط اور باقاعدہ بنایا جا سکے۔
دفترِ خارجہ کے مطابق اسحاق ڈار کے بنگلہ دیش کے دورے کے موقع پر پاکستان ’پاکستان بنگلہ دیش نالج کوریڈور‘ کا آغاز کر ہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت اگلے پانچ سالوں میں بنگلہ دیشی طلبہ کو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے 500 سکالرشپ دی جائیں گی جن میں سے ایک چوتھائی طب کے شعبے کے لیے مخصوص ہوں گی۔
اس کے علاوہ اسی مدت کے دوران 100 بنگلہ دیشی سول سرونٹس کو تربیت بھی فراہم کی جائے گی۔
دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان ٹیکنیکل اسسٹنس پروگرام کے تحت بنگلہ دیشی طلبہ کے لیے مختص سکالرشپس کی تعداد پانچ سے بڑھا کر 25 کر دی جائے گی۔
’دورہ اہم مگر اب بھی بہت سے مسائل حل طلب ہیں‘
کچھ سفارتی تجزیہ کار دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی نمائندوں کے درمیان طویل عرصے بعد ہونے والی ان ملاقاتوں کو پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کے تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے مثبت قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ علاقائی اورعالمی تناظر میں صرف پاکستان ہی نہیں تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا ضروری ہے۔
تاہم، بہت سے سابق سفارت کاروں اور بین الاقوامی تعلقات کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 1971 کی جنگِ آزادی کے دوران ہونے والے مبینہ مظالم پر پاکستان کا موقف بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات کے مستقبل کے تعیّن میں بھی اہم ہے۔
بنگلہ دیش کے سابق سفیر ایم ہمایوں کبیر نے بی بی سی بنگلہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’اس سطح کے دورے عموماً تعلقات میں بہتری لاتے ہیں، اس لیے ان کا دورہ اس نقطہ نظر سے اہم ہے۔‘
اُن کے بقول یہ تعلقات اسی صورت میں زیادہ بہتر ہو سکتے ہیں جب پاکستانی فوج مشرقی پاکستان میں مبینہ مظالم پر معافی مانگے اور آزادی سے قبل مشترکہ وسائل کی تقسیم پر کوئی سمجھوتہ ہو جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’1971 میں ہونے والے مبینہ مظالم کی ذمہ داری پاکستانیوں کو قبول کرنی ہوگی۔‘
پاکستانی حکام مختلف مواقع پر اس معاملے پر افسوس کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ لیکن عوامی سطح پر کبھی ان واقعات پر معافی نہیں مانگی گئی۔
اُن کے بقول رواں برس دونوں ملکوں کے خارجہ سیکریٹریز کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھی بنگلہ دیش نے معافی اور جنگ آزادی سے قبل مشترکہ وسائل کے بقایا جات کا معاملہ اُٹھایا تھا۔
سابق سفیر رشید احمد چودھری بھی یہ نہیں مانتے کہ کوئی بھی حکومت 1971 کے مبینہ مظالم پر معافی مانگے بغیر پاکستان کے ساتھ تعلقات میں زیادہ پیش رفت کر سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’تجارتی، اقتصادی تعلقات، عوام کے درمیان رابطے، ان کو آگے بڑھنا چاہیے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کے ساتھ حل طلب مسائل حل ہو جائیں تو یہ دورہ سود مند ثابت ہو گا۔‘
’بنگلہ دیش کے تحفظات دُور کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے‘
سابق سفارت کار عاقل ندیم کہتے ہیں کہ کئی برسوں تک بنگلہ دیش میں پاکستان مخالف حکومت رہی ہے لیکن اب تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔
بی بی سی اُردو سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’بنگلہ دیش میں جو بھی حکومت رہی، اس کا پاکستان سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ 71 کے واقعات پر معافی مانگے۔ ‘
عاقل ندیم کہتے ہیں کہ 2002 میں جنرل پرویز مشرف نے اپنے دورہ بنگلہ دیش کے دوران ایک نوٹ میں 71 کے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ بنگلہ دیش میں اُس وقت خالدہ ضیا کی حکومت تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جنرل (ر) پرویز مشرف کے اس اقدام کو بنگلہ دیش میں سراہا گیا تھا۔ لیکن بعد میں شیخ حسینہ کی حکومت آنے کے بعد جنرل مشرف کے اس اقدام کو ناکافی قرار دیتے ہوئے پاکستان سے دوبارہ معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ‘
عاقل ندیم کہتے ہیں کہ ’اگر پاکستان چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات آگے بڑھیں تو پھر اُن کے تحفظات دُور کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کے لیے دونوں حکومتوں کو وفود کی سطح پر مذاکرات کرنے چاہِییں۔ ‘
معافی کے معاملے پر پاکستان کا کیا موقف رہا ہے؟
پاکستان کی حکومت 1971 کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستان میں ’نسل کشی‘ کے الزامات کو رد کرتی رہی ہے۔
حکومت پاکستان بنگلہ دیش کی جانب سے ان واقعات پر تواتر کے ساتھ معافی کے مطالبات کو بھی نظرانداز کرتی رہی ہے۔
سنہ 1974 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس سے قبل پاکستان نے بنگلہ دیش کو بطور آزاد ریاست تسلیم کر لیا تھا۔ اس دوران اُس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھتو نے 1971 کے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا تھا، لیکن معافی نہیں مانگی تھی۔
سنہ 2002 میں اُس وقت کے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے بنگلہ دیش کے سرکاری دورے کے دوران بھی 1971 کے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ تاہم بنگلہ دیش کی اُس وقت کی اپوزیشن جماعتوں نے اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے معافی کا مطالبہ کیا تھا۔
’پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے‘
عالمی اُمور کے تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ سنہ 1971 کے واقعات کی وجہ سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات ایک حد سے آگے کبھی نہیں بڑھ سکتے۔
بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’عوامی لیگ کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کی تمام سیاسی جماعتیں 1971 سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ یہ تمام جماعتیں اور تنظیمیں اس بات پر متّفق ہیں کہ پاکستان کو 71 کے واقعات پر باضابطہ معافی مانگنی چاہیے۔‘
اُن کے بقول ’پاکستان کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ باضابطہ معافی مانگتا ہے تو پھر بنگلہ دیش یہاں تک نہیں رُکے گا۔ پھر 71 سے پہلے کے وسائل کی تقسیم کا معاملہ بھی سامنے آئے گا۔‘
حسن عسکری کہتے ہیں کہ ’تصویر کا دُوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ 71 کی جنگ کے دوران غیر بنگالی اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد کا بھی قتل عام ہوا تھا۔ اس کی معافی کون مانگے گا؟‘
عوامی لیگ کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے وفود سے ملاقاتیں
سنیچر کی سہ پہر اسحاق ڈار کے ڈھاکہ پہنچنے کے بعد بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے وفود نے بھی اُن سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد بی این پی کی طرف سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ تاہم، بی این پی میڈیا سیل نے کہا کہ اسحاق ڈار اتوار کی شام بی این پی کی چیئرپرسن خالدہ ضیاء سے ملاقات کریں گے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے پانچ رُکنی وفد نے بھی ڈھاکہ میں اسحاق ڈار سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد پارٹی کے نائب امیر عبداللہ محمد طاہر نے صحافیوں کو بتایا کہ باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی تجارت اور تعلقات کو مزید بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
سنہ 1971 کے واقعات سے متعلق پوچھے گئے سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ یہ دو حکومتوں کے درمیان بات چیت کا معاملہ ہے۔ اُمید ہے کہ حکومت ان پر بات کرے گی۔
بنگلہ دیش اور انڈیا کے تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟
عاقل ندیم کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش ظاہر کرتی رہی ہے۔
اُن کے بقول’ ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے بنگلہ دیش کے انڈیا کے ساتھ تعلقات ناگزیر ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ شیخ حسینہ کے انڈیا فرار ہونے کے بعد اُن کے وہاں سے دیے جانے والے بیانات پر بنگلہ دیش کی حکومت انڈیا سے ناراضگی کا اظہار کرتی رہی ہے۔‘
عاقل ندیم کہتے ہیں کہ شیح حسینہ کے دور میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات انتہائی پیچیدہ تھے اور اس کی وجہ شیخ حسینہ کی انڈیا نواز پالیسی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اب شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد جو خلا پیدا ہوا ہے، پاکستان اس سے فائدہ اُٹھا کر بنگلہ دیش کے قریب ہو رہا ہے۔ ‘
اُن کے بقول ’ابھی بنگلہ دیش میں اس وقت عبوری حکومت ہے، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ الیکشن کے بعد جو حکومت آئے گی، وہ انڈیا اور پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی کیا رکھے گی۔ ‘