انڈیا کے شہر تریپورہ میں واقع گارمنٹس فیکٹری میں ایک مہیب سی خاموشی طاری ہے۔ تریپورہ کا شمار انڈیا کی ٹیکسٹائل برآمدات کا مرکز کے طور پر ہوتا ہے۔
انڈیا کے ایکسپورٹ کے مرکز تریپور میں مستقبل کے حوالے سے شدید بےچینی اور اضطراب ہےانڈیا کےشہر تریپورہ میں واقع گارمنٹس فیکٹری پر ایک مہیب سی خاموشی طاری ہے۔ تریپورہ کا شمار انڈیا کی ٹیکسٹائل برآمدات کا مرکز کے طور پر ہوتا ہے۔
فیکٹری کے پروڈکشن فلور پر صرف دو سو مشینیں چل رہی ہیں جہاں امریکہ کے بڑے ریئٹل سٹورز پر فروخت ہونے والے بچوں کے کپڑوں کے آخری آڈرز پر کام ہو رہا ہے۔ اسی فلور کے ایک کونے میں کپڑوں کے نئے ڈیزائن اور سیمپلز کے ڈھیروں پر مٹی کی تہہ جم رہی ہے۔
یہ ایک ایسی فیکٹری کا منظر ہے جو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انڈیا پر عائد کردہ 50 فیصد ٹیرف سے براہ راست متاثر ہوئی ہے۔ اس 50 فیصد ٹیرف کا اطلاق آج (27 اگست) سے شروع ہو چکا ہے۔
انڈیا امریکہ کو بڑی تعداد میں گارمنٹس، جھینگے، قیمتی پتھر اور زیوارت برآمد کرتا تھا۔ تجارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے روس سے تیل کی خریداری پر اضافی 25 فیصد ٹیکس سے انڈیا کی برامدات بڑی حد تک متاثر ہوں گی۔
بی بی سی کے نامہ نگاروں نے انڈیا میں برآمدات کا مرکز سمجھنے جانے والے کئی علاقوں کا دورہ کیا تاکہ وہاں موجود کاروباری مالکان اور اس شعبے سے منسلک افراد میں پائی جانی والی غیر یقینی کی صورتحال کا جائزہ لیا جا سکے۔
تریپورہ جہاں سے تقریبًا 16 ارب ڈالر مالیت کے ریڈی میڈ گارمنٹس امریکہ کے مشہور سٹورز جیسا کہ ٹارگٹ، وال مارٹ ، گیپ اور زارا کو برآمد کیے جاتے ہیں، وہاں مستقبل کے بارے میں شدید بےچینی اور اضطراب ہے۔
کرشن مرتی کا کہنا ہے کہ کیونکہ اُن کے کلائنٹس یعنی صارفین نے نئے آڈرز دینا بند کر دیے ہیں اس لیے ’ستمبر کے بعد کوئی کام کرنے کو نہیں ہے۔‘
انھوں نے ٹیرف کے معاملے کے بعد اپنے کاروبار کو وسعت دینے اور مزید 250 افراد کو ملازمت دینے کے منصوبے کو بھی روک دیا ہے۔
ٹیرف کے اعلان کا وقت بھی بہت عجیب ہے کیونکہ برآمد کنندگان کو تقریبا نصف آڈرز سال کے انھی دنوں میں ملتے جو کرسمس سیزن تک جاری رہتے ہیں۔
سورت شہر کی فیکٹریوں میں ہیرے کی تراش خراش اور پالش ہوتی ہے، مگر اب یہاں کرنے کو کوئی کام نہیں ہےانڈیا میں موجود ان یونٹس کا دارومدآر اور بقا اب مقامی مارکیٹ اور کھپت پر ہے کیونکہ انڈیا میں دیوالی کا تہوار قریب ہے۔
اسی علاقے میں موجود ایک اور کارخانے کے مالک نے بتایا کہ ہمیں اندازہ تھا کہ تقریبا دس لاکھ ڈالر کے آڈرز آئیں گے، لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ مال موجود ہے لیکن خریدار کوئی نہیں ہے۔
ایک اور فیکٹری مالک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں اُمید تھی کہ انڈیا کا امریکہ کے ساتھی تجارتی معاہدہ ہو جائے گا لیکن گذشتہ ماہ سے تمام پروڈکشن چین بند پڑی ہے۔ اگر یہ سب جاری رہا تو میں اپنے ورکرز کو تنخوا کیسے دوں گا۔‘
امریکہ میں انڈیا سے آنے والی شرٹ جس کی قیمت 10 ڈالر تھی وہ اب 50 فیصد ٹیرف کے بعد 16 ڈالر 40 سینٹس میں فروخت ہو گئی جو چین، بنگلہ دیش اور ویتنام تینوں ممالک سے درآمد ہونے والے شرٹس کی قیمت کے مقابلے میں بہت زیادہ مہنگی ہے۔
اگر 25 فیصد اضافی ٹیرف ختم بھی ہو جائے تب بھی انڈین مصنوعات باقی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں مہنگی ہوں گی۔
انڈین حکومت نے برآمد کنندگان کے لیے کچھ مراعات کا اعلان کیا ہے جیسے خام مال پر امپورٹ ڈیوٹیز کم کرنا وغیرہ۔ دوسرے ممالک سے بھی بات چیت کی جا رہی تاکہ انڈین مصنوعات کے لیے دوسری منڈیاں تلاش کی جائیں لیکن کئی افراد کا کہنا ہے کہ اب بہت تاخیر ہو گئی ہے۔
گلوبل ٹریڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ اجے شری واستو کا کہنا ہے کہ ’ہم تجارت کا رُخ تبدیل ہوتے ہوئے دیکھ رہے جیسے امریکی خریدار میکسیکو، ویتنام اور بنگلہ دیش کا رُخ کر رہے ہیں۔‘
ممبئی سے 1200 کلومیٹر دور ایکسپورٹ زون میں سینکڑوں افراد ہیروں کی پالش اور پیکنگ میں مصروف ہیں۔ انڈیا امریکہ کو سالانہ 10 ارب ڈاکر مالیت کے قیمتی پتھر اور زیورات برآمد کرتا ہے۔
جیولری برانڈز بھی امریکہ کی ٹیرف سے پریشان ہیں کیونکہ ہر سال ستمبر اور نومبر کے دورانتقریبًا تین سے چار ارب ڈالر مالیت کی جیولری امریکہ بھجوائی جاتی ہے۔
عادل کوتوال اپنی نوے فیصد ڈائمنڈ جیولری امریکہ میں فروخت کرتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا امریکہ، کے بجائے اب برطانیہ اور آسٹریلیا میں نئے مواقع تلاش کر رہا ہے تاکہ امریکی ٹیرف کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔
بی بی سی بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ محض تین سے چار فیصد کے منافع پر کام کرتے تھے اور وہ اضافی دس فیصد ٹیرف کا بوجھ بھی برداشت نہیں کر سکتے ہیں اور امریکی صارف بھی یہ اضافی بوجھ نہیں برداشت کر سکتے ہیں۔
کوتوال اپنی جیولری کے لیے قیمتی پتھر ریاست گجرات کے شہر سورت سے خریدتے ہیں۔ سورت ہیرے کی تراش خراش اور پولشنگ کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ٹیرف سے پہلے ہی صورتحال خراب ہونا شروع ہو گئی تھی کیونکہ بین الاقوامی سطح پر مانگ کم ہوئی تھی۔ ٹیرف کے بعد پریشانی اور بڑھ گئی ہے۔
امریکہ خریدار چلے گئے ہیں اور وہ کارخانے جو 50 لاکھ افراد کو روزگار دیتے تھے اب مہینے میں 15 دن ہی چل پاتے ہیں۔
شہر کے مضافات میں ہیروں کو پولش کرنے والے ایک یونٹ میں روشنی مدھم اور گہری خاموشی ہے۔ کام کرنے والی میزوں پر گرد جمی ہے اور ارد گرد کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔
ایک ملازم نے بتایا کہ ’یہاں پہلے بہت چہل پہل ہوتی تھی لیکن کئی ملازمین کو فارغ کر دیا گیا ہے پتہ نہیں اب کیا ہو گا۔‘
مقامی ٹریڈ یونین کے رہنما کا کہنا ہے کہ ملازمین کو جبری رخصت پر بھیجے جانے اور تنخواہوں میں کٹوتیوں کا سامنا ہے۔
ٹیرف کے اعلان کے بعد سے ہی جھینگوں کی قیمتیں گر گئی ہیںادھر دوسری جانب انڈیا میں جھینگے کی فارمنگ کرنے والے افراد اب دوسری پروڈکٹس کا رخ کر رہے ہیں۔ انڈیا جھینگے برامد کرنے میں دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور امریکہ اُس کی سب سے بڑی منڈی تھا۔
ٹیرف کے بعد سے انڈین جھینگوں کی مانگ کم ہوئی اور اس قیمت بھی گری ہے۔
ڈیوٹیز اور ٹیرف ملا کر جھینگوں پر مجموعی ٹیرف 60 فیصد ہے۔ ٹیرف کے پہلے اعلان کے بعد ہی جھینگوں کی قیمت پہلے ہی 60 سینٹس فی کلو سے75 سینٹس فی کلو تک گر گئی تھی اور 50 فیصد ٹیرف کے بعد انڈین جھینگوں کی قیمت مزید گر جائے گی۔
ہیچریز نے جھینگوں کی پروڈکشن پہلے ہی کم کر دی ہے۔
ان تمام عناصر کے سبب اس صنعت سے وابستہ دس لاکھ افراد براہ راست متاثر ہوں گے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں ملازمت کے مواقع محدود ہوں وہاں کے لیے یہ اعدادوشمار پریشان کن ہیں۔
انڈیا اور امریکہ کے مابین تجارتی مذاکرات تعطل کا شکار ہیںفی الحال انڈیا اور امریکہ کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ اگر کچھ مزید ہوتا ہے تو تجارتی مذاکرات کے لیے ماحول آنے والے کئی ہفتوں تک سازگار نہیں رہے گا۔
دونوں ملکوں کے درمیان رواں ہفتے نئی دہلی میں ہونے والا تجارتی مذاکرات کا دور ملتوی ہو گیا ہے اور امریکی حکام نے انڈیا پر مزید تنقید کرتے ہوئے اس پر چین اور روس کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔
ایشیا گروپ ایڈوائزری فورم سے وابستہ گوپال نادور نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انڈیا اورامریکہ کے مابین مذاکرات کے مستقبل کا انحصار ٹرمپ انتظامیہ کی ترجیحات پر مبنی ہے، جس میں ملکی معاملات، روس اور چین سمیت دیگر چیزیں شامل ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کے پالیسی سازوں اور کاروباری افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود انحصاری پر زور دیں۔ اپنے آپ کو تبدیل کریں اور کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں۔‘