گاؤں میں 450 روپے سے شروع ہونے والا اچار کا کاروبار جس سے اب لاکھوں روپے کی آمدن ہوتی ہے

ہریانہ سے تعلق رکھنے والی اوشا رانی نے یہ کاروبار صرف 450 روپے سے شروع کیا تھا اور آج یہ گاؤں کی 300 سے زیادہ خواتین کے روزگار کا ذریعہ بن چکا ہے۔
اچار
Getty Images
اوشا رانی نے 2018 میں اچار بنانا شروع کیا تھا

’450 روپے سے یہ کام شروع ہوا۔ آج یہ 300 سے زیادہ خواتین کے روزگار کا ذریعہ بن چکا ہے۔‘

یہ کہنا ہے انڈین ریاست ہریانہ کے گاؤں سنگھور کی رہائشی اوشا رانی کا جنھوں نے صرف 450 روپے سے 2018 میں اچار بنانا شروع کیا مگر آج ان کی آمدنی لاکھوں میں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ کچھ سال قبل انھوں نے 450 روپے کا آملہ خریدا تھا۔ انھوں نے اس کی چیزیں بنا کر اپنے دوستوں کو فروخت کر دی تھیں۔

خریداروں کو یہ اشیا اس قدر پسند آئیں کہ آج انڈیا کے علاوہ بیرون ملک سے بھی انھیں اچار اور چٹنی بنانے کے آرڈر آتے ہیں۔

سکول میں آٹھویں جماعت تک پڑھائی

اوشا رانی نے صرف آٹھ جماعتیں پڑھی ہیں۔ گاؤں کے سکول میں سہولیات نہ ہونے کے باعث انھیں سکول چھوڑنا پڑا۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ پڑھنا چاہتی تھیں لیکن اس وقت تک لڑکیوں کو گاؤں سے باہر جا کر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس وقت وسائل کی شدید قلت تھی۔ نقل و حرکت کے لیے بسوں کی سہولت ناکافی تھی اور اس لیے مجھے بیچ میں ہی پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ تمام تر مشکلات کے باوجود میں نے آٹھویں جماعت پاس کر لی تھی۔‘

اوشا کہتی ہیں کہ وہ بچپن سے دوسری خواتین کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتی تھیں۔

انھوں نے 2018 میں خواتین کو بااختیار بنانے کے منصوبے دیہی روزی مشن میں شمولیت اختیار کی اور اچار بنانا شروع کر دیا۔ آج ایسے 32 گروپس ہیں اور ہر گروپ میں 10 خواتین ہیں۔

اوشا رانی کہتی ہیں کہ ’جب میں نے یہ کام شروع کیا تو مجھے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گاؤں میں پردہ کرنے کی روایت تھی جس کی وجہ سے خواتین کام کے لیے گاؤں سے باہر نہیں جا پاتی تھیں۔‘

’گاؤں والوں اور خاندان کی مخالفت کے باوجود میں نے کریشی وکاس کیندرا انسٹیٹیوٹ سے تربیت حاصل کی اور اپنا کام شروع کر دیا۔‘

جب انھوں نے جنوبی سوڈان کی پیشکش ٹھکرا دی

اوشا کہتی ہیں کہ انھیں ایک بار مختلف ممالک کے سفیروں کو اپنا اچار پیش کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم واپس جا رہے تھے جب مجھے جنوبی سوڈان کے سفیر کی کال آئی۔ انھوں نے مجھے ان کے خرچے پر وہاں سات سال تک رہنے کی پیشکش کی، لیکن میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں اپنے ملک کے لیے ہی کچھ کرنا چاہتی ہوں۔‘

اوشا کو اپنے کام کے لیے کئی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے اچار کی نہ صرف انڈیا میں بلکہ بیرون ملک بھی بہت مانگ ہے۔

حتیٰ کہ بیرون ملک مقیم نوجوان انڈین شہریوں میں بھی ان کے اچار کی بڑی مقبولیت ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ انھیں طبی مشکلات کے باعث اپنی غذائیت میں کچھ تبدیلیاں کرنی پڑی ہیں۔ انھوں نے اپنی خوراک میں کولہو کے ذریعے نکلنے والے تیل کا اضافہ کیا۔

ان کا دعویٰ ہے کہ اس سے ان کی صحت بہتر ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی اشیا میں اسی تیل کا استعمال شروع کر دیا تاکہ صارفین بھی صحت مند رہیں۔

ان کے مطابق جس کولہو کے ذریعے تیل نکالا جاتا ہے وہ نیم اور شیشم کی لکڑی کا بنا ہوتا ہے، اسی لیے تیل میں نیم کی خصوصیات بھی مل جاتی ہیں جو صحت کے لیے بہتر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا کولہو لکڑی کا بنا ہے، نہ کہ لوہے یا کسی اور دھات کا۔

300 خواتین کے لیے روزگار

اوشا رانی کے ساتھ کام کرنے والی خواتین بھی خوش ہیں کیونکہ اب وہ مالی طور پر اپنے خاندان کے مردوں پر انحصار نہیں کرتیں۔ ان خواتین میں سے ایک سودیش ہیں جو اچار کے لیے پھل اور سبزیاں کاٹتی ہیں۔

سودیش کہتی ہیں کہ ’مجھے یومیہ 250 روپے مزدوری ملتی ہے۔ ہمارے گروپ میں گاؤں کی 10 سے 12 خواتین ہیں جو اوشا رانی کے ساتھ کام کرتی ہیں اور اپنے خاندان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوتی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے میرے شوہر اکیلے کماتے تھے جس کی وجہ سے اخراجات پورے کرنے میں مشکل پیش آتی تھی لیکن میں اب اپنی کمائی سے بچوں کی ٹیوشن فیس ادا کرتی ہوں اور دیگر بہت سی ضروریات پوری کر پاتی ہوں۔‘

کروکشیتر ضلع میں دیہی روزگار مشن کے افسر نریش کمار کہتے ہیں کہ ہریانہ لائیولی ہُڈ مشن گاؤں کی خواتین کو خود انحصار بنانے کے لیے کام کرتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس میں خواتین کے گروپ بنائے جاتے ہیں اور پھر خواتین کی دلچسپی کے مطابق انھیں ملازمت کی تربیت اور پیسے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنا کام شروع کر سکیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اوشا رانی بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے 2018 میں اچار بنانا شروع کیا اور آج اوشا کے گاؤں کی 300 سے زیادہ خواتین ان کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US