مال مویشی لیے سڑکوں پر بیٹھے اور چھتوں سے مدد کے لیے پکارتے لوگ: بی بی سی نے سیالکوٹ، نارووال اور کرتارپور میں کیا دیکھا؟

نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ اس وقت پنجاب کے تینوں دریاؤں میں غیر معمولی سیلابی صورتحال ہے۔ بی بی سی کی ٹیم نے ستلج اور چناب کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا جہاں شدید سیلاب کے باعث کئی دیہات زیرِ آب آ چکے ہیں اور لوگ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ بے یارو مددگار سڑکوں اور چھتوں پر پناہ لیے ہوئے تھے۔
bbc
BBC

گذشتہ روز سے ستلج اور چناب میں سیلاب کی صورتحال مسلسل بگڑتی جا رہی ہے۔ دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں خطرناک اضافہ ہوا ہے اور کئی علاقے زیرِ آب آ چکے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق بارش کا سلسلہ رکا نہیں جس سے حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔

انڈین ڈیموں سے پانی کے اخراج کے بعد پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے این ڈی ایم اے کی جانب سے قائم کردہ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر نے صوبہ پنجاب کے تین دریاؤں چناب، راوی اور ستلج کے حوالے سے ایمرجنسی الرٹ جاری کیا۔

نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ اس وقت ان تینوں دریاؤں میں غیر معمولی سیلابی صورتحال کا سامنا ہے۔

خیال رہے پاکستان میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب کے سبب حالیہ مہینوں میں 800 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

گذشتہ روز سیالکوٹ کے علاقے میںتقریباً 550 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جو پچھلے 11 برسوں کا ریکارڈ توڑ گئی۔ اسی طرح اردگرد کے دوسرے علاقوں میں بھی شدید بارش ہوئی۔

بی بی سی کی نامہ نگار ترہب اصغر نے بدھ کی صبح مختلف اداروں سے رابطہ کر کے صورتحال معلوم کی اور پھر ہماری ٹیم سیالکوٹ-لاہور موٹروے پر روانہ ہوئی۔

راستے میں ہلکی بارش کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

موٹروے کے قریب ایک ایسا مقام بھی آیا جہاں گذشتہ سال جیپ ریلی منعقد ہوئی تھی۔ یہ پورا علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا نظر آیا، تاحدِ نگاہ پانی ہی پانی تھا، جس کی سطح غیر معمولی طور پر بلند تھی۔

اسی مقام پر چند برس قبل ایک نئی ہاؤسنگ سوسائٹی کے اشتہارات لگے تھے لیکن اب وہ پورا علاقہ دریا کے بہاؤ میں ڈوب چکا ہے کیونکہ یہ بالکل دریا کے ساتھ واقع ہے۔

ہماری ٹیم آگے بڑھی تو سیالکوٹ شہر کے اندر ہر جگہ پانی جمع نظر آیا۔ بارش مسلسل جاری تھی۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ کئی سڑکیں بند ہو چکی ہیں اور آمدورفت متاثر ہے۔

اس کے بعد ہم نے جسر کا رخ کیا جہاں سے راوی دریا انڈیا سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ جسر پہنچنے پر پتا چلا کہ وہاں دو راستے ہیں: ایک ظفر والہ روڈ اور دوسرا ڈسکہ اور پسرور روڈ تھا۔

مقامی افراد، انتظامیہ اور ریسکیو ٹیموں نے بتایا کہ ظفر والہ روڈ مکمل طور پر سیلابی پانی میں ڈوب گیا ہے جس کی وجہ سے وہاں سے گزرنا ناممکن ہے اور کوئی دوسرا راستہ بھی دستیاب نہیں۔

bbc
BBC

بڑی تعداد میں لوگ یہ دیکھنے نکلے تھے کہ پانی کہاں سے آ رہا ہے

اس صورتحال کے بعد ہماری ٹیم واپس موٹروے کی طرف مڑی لیکن تقریباً چار سے پانچ گھنٹے بعد دوبارہ موٹروے پر سفر ممکن ہو سکا۔ بارش کے دوران ہی ہم پسرور روڈ پر پہنچے۔ اس روڈ پر پانی نہ صرف تیزی سے آ رہا تھا بلکہ دیہات اور بستیوں میں بھی پھیل چکا تھا تاہم یہ کھڑا ہوا پانی نہیں بلکہ بہتا ہوا پانی تھا جو سڑک پار کر کے دوسری طرف جا رہا تھا۔

راستے میں دائیں اور بائیں طرف دو گاؤں موجود تھے۔ وہاں کے لوگ اپنے طور پر سڑک کے نیچے نالہ کھودنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ پانی کو دوسری سمت موڑا جا سکے کیونکہ دوسری طرف کا گاؤں خالی تھا جبکہ بائیں طرف کے گاؤں میں لوگ اب بھی آباد تھے۔

مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت یہ کام کر رہے تھے۔ اس دوران ہمیں کئی جگہ رکنا پڑا کیونکہ سڑک کے کنارے لوگوں کے ساتھ ان کے مویشی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ سب سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہو چکے تھے۔

اس کے بعد صورتحال کچھ یوں تھی کہ جتنے بھی دریا اور ندی نالے راستے میں آتے تھے وہ سب کناروں تک بھر چکے تھے۔ بعض مقامات پر پانی اوپر سے بھی بہہ رہا تھا۔ پولیس اور انتظامیہ جگہ جگہ موجود تھی اور کچھ راستے بند کر دیے گئے تھے۔

ہماری ٹیم کو آگے جانے کی اجازت نہیں مل رہی تھی کیونکہ پانی کا بہاؤ چار سے پانچ فٹ تک تھا۔ وہاں اعلانات بھی کیے جا رہے تھے لیکن دلچسپ بات یہ تھی کہ اتنی بڑی تباہی اور پانی میں ڈوبی بستیوں کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے جو دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پانی کہاں سے آ رہا ہے اور کہاں جا رہا ہے۔ خاص طور پر بچے، جنھیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ صورتحال کتنی سنگین ہے۔

سیلاب
BBC

ایک خاتون نے ہاتھ میں صرف اپنی دستاویزات اٹھا رکھی تھیں

جب ہم نے ان میں سے چند بچوں سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ جسر گاؤں ہمارے قریب ہے، یہ سڑک ڈوب گئی ہے اس لیے ہم یہاں کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہیں کہ حالات کیسے ہیں۔

اس کے بعد ہم آگے بڑھے اور نارووال شہر پہنچے۔ وہاں سے ہمیں کرتارپور اور جسر ہیڈ جانا تھا۔ ہم نے ریسکیو ٹیم سے مدد لی اور درخواست کی کہ اگر ممکن ہو تو ہمیں آگے لے جائیں۔

جب ہم کرتارپور کے قریب پہنچے تو اس سے پہلے ہی تین چار مقامات ایسے آئے جہاں سڑک پر سے تیز بہاؤ کے ساتھ پانی گزر رہا تھا اور وہ راستہ ہی دریا کا بہاؤ بن چکا تھا۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت وہاں سے گزر رہے تھے۔

عورتیں، بچے جو بھی نظر آیا، ان کے ہاتھوں میں صرف اپنے شناختی اور دستاویزات تھیں۔ ہم نے ایک خاتون کو دیکھا انھوں نے ہاتھ میں صرف اپنی دستاویزات اٹھا رکھی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں تھا۔

کچھ لوگ جال لے آئے اور مچھلی پکڑنے کے انتظار میں بیٹھے تھے

کچھ لوگ اپنے مویشیوں کو بچانے کو ترجیح دے رہے تھے۔ کئی نے بکریاں یا بچھڑے گود میں اٹھا رکھے تھے۔ کچھ لوگ اپنے سامان کو کپڑوں میں باندھ کر لے جا رہے تھے۔ کچھ لوگوں ایسے بھی دیکھے جنھوں نے اپنا سامان سڑک کنارے رکھا ہوا تھا اور ساتھ بندوق بھی رکھ کر بیٹھے تھے۔

اس دوران یہ بھی دیکھا کہ کچھ لوگ جال لے آئے تھے اور مچھلی پکڑنے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ جب ہم نے روک کر پوچھا کہ آپ کیا کر رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’ہم مچھلی پکڑنے کے انتظار میں ہیں‘۔

جب پوچھا کہ کوئی کامیابی ملی؟ تو انھوں نے کہا کہ ’ابھی تک نہیں‘۔

کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اپنی موٹر سائیکلیں سیلابی پانی سے دھو رہے تھے۔

BBC
BBC

انڈیا نے اچانک پانی چھوڑا اور اسے بطور ہتھیار استعمال کیا: احسن اقبال

کرتارپور پہنچے تو پانی کا بہاؤ کافی دور تک پھیل چکا تھا۔ ہم ریسکیو ٹیم کے ساتھ کشتی پر بیٹھ کر کرتارپور کی طرف بڑھے۔ وہاں یاتری اور دیگر افراد کو نکالنے کا عمل جاری تھا۔

راستے میں ہمیں وفاقی وزیر برائے پلاننگ اور ڈیویلپمنٹ احسن اقبال بھی ملے جن کا کہا تھا کہ ’انڈیا آبی جارحیت پر اتر آیا ہے۔ یہ قدرتی آفت ہے جس کا مقابلہ سرحد کے دونوں جانب تعاون سے کیا جا سکتا ہے۔ انڈیا کو چاہیے تھا کہ اسےقدرتی آفت سمجھتا اور پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتا لیکن اس نے اچانک پانی (ریلے کی صورت میں) چھوڑا ہے اور پانی کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔‘

جب ہم کرتارپور کی عمارت کے اندر داخل ہوئے تو وہاں ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ ریسکیو اہلکاروں نے بتایا کہ کل یہاں پانی کی سطح آٹھ فٹ تک تھی اور اب بھی پانچ سے چھ فٹ پانی موجود ہے۔

وہاں ڈیوٹی ہپر موجود خواتین اہلکار بھی پھنسی ہوئی تھیں۔ وہاں نہ کھڑے ہونے کی جگہ تھی نہ بیٹھنے کی۔

عمارت کے اندر عجیب و غریب صورتحال تھی۔ مختلف کیڑے مکوڑے، مینڈک نظر آ رہے تھے۔ ہم نے ربڑ کے بوٹ پہنے ہوئے تھے جو گھٹنوں تک آتے تھے جس سے کچھ بچت ہو گئی ورنہ خطرہ بڑھ جاتا۔ پھر بھی یہ کیڑے کپڑوں پر چڑھ رہے تھے۔

جن خواتین اور افراد کو وہاں سے نکالا گیا، انھوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ رات سے اس عمارت کی دوسری منزل پر پناہ لیے ہوئے تھے کیونکہ نیچے سانپ اور کیڑے موجود تھے۔

وہاں کئی لوگ ایسے بھی ملے جنھوں نے رات بھر کچھ نہیں کھایا تھا۔ ریسکیو اہلکار مسلسل کام میں لگے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں کھانے کا وقت بھی نہیں مل رہا کیونکہ وہ دن رات لوگوں کو نکالنے میں مصروف ہیں۔

bbc
BBC
کرتارپور کی عمارت کے اندر ہر طرف پانی ہی پانی تھا

ہر کسی کو کشتیوں پر سوار ہونے کی جلدی تھی

قریب کے دیہات میں بھی لوگ اپنی چھتوں پر چڑھ کر مدد کے لیے آوازیں دے رہے تھے، خاص طور پر جب ریسکیو کی کشتیاں قریب سے گزرتیں۔ جب ہم واپس آئے تو وہاں بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے جو اپنی باری کے انتظار میں تھے تاکہ انھیں کشتی پر سوار کرا کے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا سکے۔

لوگ جلد از جلد کشتیوں میں جانا چاہتے تھے لیکن ریسکیو ٹیم کہہ رہی تھی کہ وہ سب کو یہاں سے نکالیں گے بس اپنی باری کا انتظار کریں۔ شام قریب تھی اور سورج ڈھل رہا تھا، اس لیے لوگوں کو فکر تھی کہ کہیں ایک اور رات یہیں نہ گزارنی پڑے۔

شام کے وقت فوج کی چند کشتیاں وہاں پہنچ گئیں۔ کچھ فوجی اہلکار بھی وہاں کھڑے تھے کیونکہ آگے چیک پوسٹیں تھیں اور انھیں اپنے لوگوں کو بھی نکالنا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US