عوام کے سامنے ہٹلر کی زندگی شاہانہ نہیں تھی اور انھوں نے عوام کو دکھایا کہ روپے پیسے کی اُن کے لیے کوئی اہمیت نہیں۔
1945 کی صبح برطانوی انٹیلیجنس کے لیے کام کرنے والے ایک جرمن یہودی ہرمن روتھمین جب سو کر اُٹھے تو انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کا مشن کتنا خاص اور منفرد ہو گا۔
وہ اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ جعلی دستاویزات رکھنے کے الزام میں نازی افسر ہنیز لوریٹنز کو برطانوی حکام نے گرفتار کر لیا ہے۔ گرفتار کیے گئے یہ افسر ماضی میں نازی پروپیگنڈا کے وزیر جوزف گوئبلز کے پریس سیکرٹری رہ چکے تھے۔
1945 میں ہٹلر کی ہلاکت کے بارے میں اتحادی انٹیلیجنس کمیٹی کے تفتیش کار کی رپورٹ کے مطابق جب گارڈ نےلورینٹز کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا تو انھیں جسم پر موجود کپڑوں کے نیچے کاغذات محسوس ہوئے۔
اُن کی جیکٹ کے معائنے کے دوران ایسی دستاویز ملیں جو ہٹلر کے پرسنل سیکریٹری مارٹن بورمن نے لورینز کو برلن سے باہر لے کر جانے کے لیے دی تھیں۔
روتھمین نے سنہ 2014 میں ہٹلر کے بارے میں لکھی گئی کتاب کے اشاعت کے موقع پر دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہانھیں اپنے چار دیگر ساتھیوں کے ساتھ بہت ہی خفیہ انداز میں ان دستاویزات کا ترجمہ کرنے کو کہا گیا۔
ترجمہ کرنے والے پانچوں افراد یہودی تھے اور یہودیوں کو تباہ کرنے والے شخص کے آخری خیالات پڑھنا، اُن کے لیے عجیب تجربہ تھا۔
مال و دولت کے بغیر وراثت
اپنے آخری سیاسی وصیت نامے میں ہٹلر نے اپنے تماماقدامات کی وضاحت دی اور وہ سب کچھ بھی بتایا جو وہ کرنے کا ارداہ رکھتے تھے۔ دستاویزات کے متن میں یہودیوں سے بے انتہا نفرت نمایاں تھی اور انھوں نے آنے والی حکومت کا خاکہ پیش کیا اورنئی کابینہ بھی متعارف کرائی لیکن وصیت نامے میں اُن کے اثاثوں کے بارے میں زیادہ تفصیلات موجود نہیں تھیں۔
’میرے پاس جو کچھ ہے اور اگر کسی حد تک اس کی کوئی قدر و قیمت ہے تو وہ سب پارٹی کا ہے۔ اگر پارٹی باقی نہیں رہی تو یہ حکومت کا ہے اور اگر حکومت بھی تباہ ہو جائے تو پھر میرے فیصلے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘
یہ ہٹلر کی بیان کردہ آخری خواہشات کا وہ حصہ ہے، جو انھوں نے 29 اپریل 1945 کو صبح 4 بجے برلن میں اپنی سیاسی وصیت کے ساتھ ایک علیحدہ کاغذ پر لکھوایا اور اُس پر دستخط کیے اور اس کے اگلے ہی دن انھوں نے خود کو گولی مار کر ختم کر لیا۔
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اُن کی پینٹنگز کی کلیکشن ’ذاتی استعمال‘ کے لیے نہیں تھیں بلکہ اس کا مقصد ڈینیوب کے کنارے اُن کے آبائی شہر لنز میں ایک گیلری بنانا تھا۔
ہٹلر اپنی موت کے وقت جرمنی کے شہر میونخ میں ایک اپارٹمنٹ اور باویریا میں ایک مکان کے مالک تھےکیا واقعی ہٹلر کی زندگی بہت سادہ تھی؟
ہٹلر نے بظاہر ہمیشہ ایک سیدھا سادہ اور کم خرچ والا طرز زندگی اپنایا اور اس کا اظہار بھی کیا۔ 1930 کی دہائی میں اور دوسری عالمی جنگ میں اُن کے فسطائیت پر مبنی عالمی نظریہ کی بنیاد بھی یہی تھی۔
عوام کے سامنے اُن کی زندگی شاہانہ نہیں تھی اور انھوں نے عوام کو دکھایا کہ روپے پیسے کی اُن کے لیے کوئی اہمیت نہیں۔
تاہم مترجم کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ کیسے اتنے طاقتور لیڈر کے پاس بظاہر کوئی مال و دولت ہی نہ ہو۔
روتھمین کا کہنا ہے کہ ’ہمہمیشہ یہی سمجھتے تھے کہ اُن کےپاس بہت زیادہ دولت ہے۔‘
اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ صحیح تھے۔
ہٹلر نے پہلی عالمی جنگ سے قبل ویانا میں بطور فنکار اپنی غربت اور مشکلات کے بارے میں کافی تفصیلات بیان کیں، بعد میں اپنی زندگی میں انھوں نے خوب مال و دولت کمائی۔
ہٹلر اور اربوں مالیت کے اثاثے
ہٹلر کی مال و دولت کا اندازہ لگانا اتنا آسان نہیں تھا۔
ہٹلر کے اثاثوں کا اندازہ لگانے کے لیے مختلف سٹڈیز، ڈاکومینٹریز اور آمدن کے مختلف ذرائع، جیسے ہٹلر کی تصویر والی ٹکٹس، جنھیں عطیات لینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا کا تفصیلی معائنہ کیا گیا۔
مصنف کریس ویٹن نے اس پر کافی تحقیق کی اور ہٹلر کے اثاثوں کی تفصیلات پر مبنی کتاب سنہ 2005 میں شائع کی۔
جرمنی میں اُس وقت رائج کرنسی مارک کو یورو یا ڈالر میں تبدیل کرنا بھی آسان کام نہیں تھا۔
عوام کے سامنے ہٹلر کی زندگی شاہانہ نہیں تھی اور انھوں نے عوام کو دکھایا کہ روپے پیسے کی اُن کے لیے کوئی اہمیت نہیں24 اپریل 1945 کو اپنی موت سے چھ روز قبل تک ہٹلر یورپ کے امیر ترین شخص تھے جن کے اثاثوں کی مالیت 2003 میں یورو کے مطابق تقریبًا ایک ارب 35 کروڑ یورو سے لے کر ساڑھے 43 ارب یورو تک تھی۔
ڈالر ہوں یا پاؤنڈ یہ رقم دونوں ہی میں بہت زیادہ تھی اور اثاثوں کی مالیت میں اتنا فرق یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُن کے مال و دولت کا اندازہ لگانا کتنا مشکل تھا۔
اس کام میں سب سےزیادہ مسئلہ یہ تھا کہ نہ تو اُن کی دولت کے بارے میں کوئی دستاویزات موجود تھیں اور نہ یہ معلوم تھا کہ اُن کے اثاثے کہاں ہیں۔
امریکی خفیہ ایجنسی کو اپنی تحقیقات کے دوران بعض اکاؤنٹس سے ہٹلر کے 350 ملین ڈالر ملے، یہ معلومات دہائیوں کے بعد ڈی کلاسیفائیڈ ہونے والی دستاویزات کے بعد سامنے آئیں۔
گذشتہ کچھ عرصے کے دوران سوئیزلینڈ میں بھی کچھ ایسے بینک اکاؤنٹس ملے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہٹلر کے تھے تاہم ہٹلر کے مالیاتی معاملات کے بارے میں کچھ معلومات ایسی موجود ہیں جس پر زیادہ تر اتفاقِ رائے ہے۔
شادی پر جوڑوں کو ہٹلر کی کتاب کا تحفہ
ہٹلر اپنی موت کے وقت جرمنی کے شہر میونخ میں ایک اپارٹمنٹ اور باویرین الپس میں ایک مکان کے مالک تھے لیکن ایک آرٹسٹ بننے کے خواہشمند شخص کو امیر اُس کی کتاب نے بنایا۔
سنہ 1924 میں جیل میں قید کے دوران ہٹلر نے اپنے ساتھی روڈولف ہیس کو اپنی زندگی پر مبنی کتاب لکھنے کو کہا۔ روڈولف ہیس بعد میں نازی پارٹی میں اُن کے نائب بنے۔ یہ وہ وقت تھا جب نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی نے ملک کے جنوبی علاقوں میں اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی۔
اپنی کتاب ’مین کیمپ‘ لکھنے کا مقصد ہی کتاب سے ملنے والے رقم سے قانونی اخراجات پورا کرنا تھا۔ وہ اپنی کتاب کے لیے مختلف ناموں پر غور کر رہے تھے لیکن اُن کے قریبی ساتھی اور میونخ پبلشنگ ہاؤس کے ایک عہداہدار نے انھیں مختصر اور موثر عنوان رکھنے کا مشورہ دیا جیسے ’مین کیمپ‘ جو جرمن زبان کا لفظ ہے اور اس کے اردو میں معنی ’میری جدوجہد‘ ہیں۔
پبلشنگ ہاؤس نے 18 جولائی 1925 میں پہلے 400 صفحات شائع کیے اور دسمبر 1926 میں کتاب کا دوسرا حصہ شائع جبکہ کتاب کا مکمل ایڈیشن مئی 1930 میں شائع ہوا۔
ابتدا میں سنہ 1925 میں تو کتاب زیادہ فروخت نہیں ہوئی اور صرف نو ہزار کاپیاں ہی فروخت ہوئیں لیکن جیسے جیسے ہٹلر سیاسی طور پر مقبول ہونے لگے اُن کی کتاب کی مقبولیت بھی بڑھ گئی۔
سنہ 1930 میں نازی پارٹی جرمنی کی دوسری بڑی پارٹی بن گئی اور اسی سال ہٹلر کی کتاب کی 50 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہٹلر کی کتاب سکولوں کے نصاب کا حصہ بنی اور مونسپل کارپوریشن یہ کتاب نئے شادی شدہ جوڑوں کو بطور تحفہ دیتی تھی۔
سنہ 1933 میں ایک سال کے دوران کتاب کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔
میونخ کی آرکائیو میں موجود دستاویرات کے مطابق ہٹلر کو اپنی کتاب سے بارہ لاکھ بتیس ہزار مارک (جرمن کرنسی) کی آمدن ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب اساتذہ کی سالانہ آمدن 4800 مارک ہوتی تھی۔
جرمنی کے شہروں میں ہٹلر کی کتاب کی پروموشن کے لیے پوسٹرز لگائے گئےلاکھوں کی آمدن لیکن ’ہٹلر ٹیکس نہیں دیں گے‘
آخر کار ہٹلر نے اپنی کتاب سے اتنی دولت کمائی کہ اُن پر چار لاکھ مارک سے زیادہ ٹیکس لگ گیا۔
یہ معلومات ہم تک اس لیے پہنچی ہیں کہ جب ہٹلر جرمنی کے چانسلر تھے تو اُن کو ٹیکس کی رقم ادا کرنے کے لیے بل بھیجا گیا۔
یہ ٹیکس انوائس وزارتِ خزانہ کو بھیجی گئی جس نے بعد میں اعلان کیا کہ ’ہٹلر ٹیکس نہیں دیتے ہیں۔‘
اس کتاب کا ترجمہ 16 زبانوں میں ہوا جس نے ہٹلر کی آمدن میں مزید اضافہ کیا۔ اُن کی آمدن کا حساب کتاب قریبی ساتھی اور نازی جرمنی کے پبلشر میکس ایمن کرتے تھے۔
ہٹلر کے اثاثے اور اُن کی ضبطگی
ہٹلر کی خودکشی کے بعد نازیوں کو شکست ہوئی اور اتحادیوں نے ہٹلر کے اثاثے ضبط کر لیے۔
ہٹلر کی آخری خواہش اور وصیت کے مطابق ’جو کچھ میرا ہے وہ پارٹی کی ملکیت ہے‘ پر عمل درآمد نہیں ہو سکا کیونکہ پارٹی کو تحلیل کر دیا گیا۔
ان کا دوسرا آپشن ’ریاست‘ تھا، جو نازی ریاست کے طور پر اب موجود نہیں تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’اگر ریاست تباہ ہو جائے تو مجھے فیصلے کرنے کی ضرورت نہیں۔‘
آخر میں جنگ میں کامیاب ہونے والے اتحادیوں نے ہٹلر کے اثاثوں کو باویریا ریاست منتقل کرنے کا فیصلہ کیا، جہاں وہ ایک سرکاری رہائشی کے طور پر رجسٹرڈ تھے۔
پہاڑ پر موجود اُن کے مکان کو لوٹ مار کے بعد بم سے اڑا دیا گیا۔
1952 میں، باویریا کی ریاستی حکومت نے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بننے سے روکنے کے لیے گھر میں سے جو کچھ بچا تھا اسے منہدم کر دیا۔
اُن کے اپارٹمنٹ کی پرانی عمارت کو بعد میں پولیس سٹیشن میں تبدیل کر دیا گیا۔
ریاست باویریا نے کتاب کے کاپی رائٹ حاصل کر لیے اور جرمن بولنے والے ممالک میں اس کی اشاعت کو روک دیا جبکہ دوسرے ممالک اس کی اشاعت روکنے پر جزوی طور پر کامیاب ہوئے۔
یہاں تک کہ کتاب کے کاپی رائٹس 30 اپریل 2015 کو ہٹلر کی 70ویں برسی کے موقع پر ختم کر دیے گئے۔