ناقدین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں کئی گاڑیاں بائیو فیول کے لیے نہیں بنی ہیں اور پیٹرول میں اس کی ملاقات گاڑیوں کے انجن خراب کر سکتی ہے۔ مگر حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔
گذشتہ ماہ انڈیا نے پیٹرول میں 20 فیصد ایتھنول یعنی ای ٹوئنٹی ملانے کا ہدف پورا کیا جو کہ پانچ سال بعد کے لیے مختص کیا گیا تھاانڈیا میں پیٹرول کے اندر بائیو فیول ملانے کی مہم نے نہ صرف ملک کو لاکھوں ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم کرنے میں مدد دی ہے بلکہ اس سے ڈالر کا ذخیرہ بھی بچایا گیا ہے۔
مگر اس کی وجہ سے گاڑیوں کے مالکان اور فوڈ پالیسی کے ماہرین فکر مند ہیں کیونکہ اس مہم کے فیول ایفیشنسی اور فوڈ سکیورٹی پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
گذشتہ ماہ انڈیا نے پیٹرول میں 20 فیصد ایتھنول یعنی ای ٹوئنٹی ملانے کا ہدف پورا کیا تھا۔
حکومت سمجھتی ہے کہ کاربن کے اخراج میں کمی اور تیل کی برآمدات روکنے میں یہ طریقہ گیم چینجر ثابت ہو گا۔ 2014 سے ایتھنول کی ملاوٹ کی بدولت انڈیا نے ساڑھے 15 ارب ڈالر کی بچت کی ہے۔
دلی میں تھنک ٹینک سی ای ای ڈبلیو کی تحقیق کے مطابق انڈیا میں روڈ ٹرانسپورٹ کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 2050 تک دُگنا ہو جائے گا۔
انڈین فیڈریشن آف گرین انرجی نامی تنظیم سے منسلک سندیپ تھینگ کا کہنا ہے کہ ’ایندھن کی طلب صرف بڑھے گی اور ایتھنول ملے پیٹرول کی طرف رجحان اخراج کو کم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔‘
لیکن انڈیا میں کئی گاڑیاں ای 20 کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ اس وجہ سے گاڑیوں کے مالکان پالیسی کے فوائد پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
انڈین میگزین آٹو کار کے مدیر ہورمز سورابجی کہتے ہیں کہ ایتھنول میں پیٹرول کے مقابلے کم توانائی ہوتی ہے اور اس سے زنگ لگنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے گاڑیوں کا ایوریج کم ہوجاتا ہے اور گاڑی کے کچھ پارٹس جلدی گل سکتے ہیں۔
سورابجی کے مطابق کچھ کمپنیاں جیسے ہنڈا کی گاڑیوں میں 2009 سے ایسے پارٹس استعمال ہو رہے ہیں جو ای 20 کو برداشت کر سکتے ہیں۔ لیکن انڈیا کی سڑکوں پر پرانی گاڑیاں ای 20 کے لیے نہیں بنائی گئی ہیں۔
ای 20 ایندھن کے اثرات گاڑیوں پر کیا پڑیں گے اسے معلوم کرنے کے لیے ڈیٹا موجود نہیں لیکن صارفین اکثر سوشل میڈیا پر اپنی گاڑیاں خراب ہونے کی معلومات شیئر کرتے رہتے ہیں۔
پالیسی بازار نامی آن لائن پلیٹ فارم کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انڈیا میں کئی انشورنس کمپنیاں بھی اس نقصان کا ازالہ نہیں کرتیں۔ ’صارفین کو انشورنس پالیسی میں اضافہ کروانا پڑتا ہے۔ لیکن اکثر دعوے مسترد کر دیے جاتے ہیں، پالیسی میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔'
وفاقی وزارت پیٹرولیم نے اس تشویش کو ’بڑے پیمانے پر گمراہ کن‘ قرار دیا ہے۔
ایتھنول کے لیے زرعی وسائل کو ایندھن کی پیداوار کے لیے مختص کیا جاتا ہےایکس پر ایک پوسٹ میں وزارت نے کہا کہ انجن کو ای 20 کے قابل بنا کر اور موزوں پارٹس استعمال کرنے سے ایوریج میں کمی کی شکایت دور ہو سکتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس پر کم خرچ آتا ہے اور اسے گاڑی کی باقاعدہ سروس کے دوران باآسانی ٹھیک کروایا جا سکتا ہے۔
سورابجی نے بی بی سی کو بتایا کہ ایوریج میں کمی ایک حقیقی شکایت ہے۔ ان کے مطابق اس سے بھی بڑا مسئلہ ای 20 کے باعث گاڑیوں کے پرزوں کا گلنا سڑنا ہے۔
کچھ کمپنیوں نے اس کے ازالے کے لیے پیشکش کی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ انڈیا کی سب سے بڑی گاڑیوں کی کمپنی ماروتی سوزوکی صرف چھ ہزار روپے میں ای 20 کِٹ فروخت کرے گی۔ اس کِٹ میں فیول لائن، سیلز اور گیس کٹ شامل ہوں گے۔ موٹر سائیکلوں کی بڑی کمپنی بجاج نے بھی 100 روپے کا فیول کلینر استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے جس سے فیول ٹینک صاف ہو سکے گا۔
مگر گاڑیوں کے اکثر مالکان خوش نہیں ہیں۔ امیت پندھی 2017 سے دلی میں ماروتی سوزوکی کی کار چلا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پیٹرول پمپ پر بغیر ای 20 والے پیٹرول کی آپشن کیوں نہیں دی جا رہی؟ ’مجھے زبردستی ایسا پیٹرول کیوں بیچا جا رہا ہے جس سے کم ایوریج ملتا ہے اور انجن کو اس کے مطابق ڈھالنے کے لیے پرزے بھی لگوانا پڑتے ہیں۔'
2021 میں حکومتی تھنک ٹینک نے ای 20 پر شائع کردہ تحقیق میں اسی بارے میں آگاہ کیا تھا۔ اس نے ای 20 کمپلائنٹ گاڑیوں کے خریداروں کو ٹیکس چھوٹ دینے کی تجویز دی تھی، مثلاً کم قیمت پر ایندھن۔
حکومت نے تجاویز نہ ماننے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ کی اشاعت کے وقت ایتھنول پیٹرول سے سستا تھا۔ ’وقت کے ساتھ ایتھنول کی قیمت بڑھی ہے اور اب یہ ریفائن شدہ پیٹرول سے بھی زیادہ مہنگا ہے۔'
بات صرف صارفین تک محدود نہیں۔ اس معاملے پر ماحولیاتی اور فوڈ پالیسی کے ماہرین بھی فکر مند ہیں۔
ایتھنول گنے اور مکئی کی فصلوں سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے استعمال میں وسعت کا مطلب ہے کہ کھیتی باڑی کی پیداوار سے ایندھن بنایا جا رہا ہے۔
حکومتی اندازوں کے مطابق سنہ 2025 میں انڈیا کو اپنی ای 20 کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے 10 ارب لیٹر ایتھنول درکار ہو گا۔
انڈیا چاہتا ہے کہ آئندہ برسوں کے دوران پیٹرول میں ایتھنول کی مقدار مزید بڑھائی جائےبنگلور کے تھنک ٹینک سی ایس ٹی ای پی کے مطابق 2050 تک اس کی مانگ 20 ارب لیٹر تک بڑھ جائے گی۔ فی الحال گنے کے ذریعے انڈیا کا 40 فیصد ایتھنول بنایا جا رہا ہے۔
یوں انڈیا کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا ہوا ہے۔ یا تو ایتھنول کے لیے گنے کی فصل پر انحصار کرے جس سے پیداوار بڑھتی ہے مگر پانی زیادہ لگتا ہے، یا پھر ایندھن بنانے کے لیے خوراک کی فصلوں جیسے مکئی اور چاول کا رُخ کرے۔
لیکن مشکلات یہاں تک محدود نہیں ہیں۔ 2024 میں دہائیوں میں پہلی بار انڈیا مکئی کا درآمد کنندہ بنا کیونکہ اس نے فصل کو وسیع پیمانے پر ایتھنول بنانے کے لیے استعمال کیا۔
سی ایس ٹی ای پی سے منسلک رامیا نتراجن کا کہنا ہے کہ پیداوار کے نئے رجحان نے پولٹری کے شعبے کو بھی متاثر کیا جہاں اب مرغیوں کی فیڈ کے لیے مکئی خریدنی پڑ رہی ہے۔
رواں سال فوڈ کوآپریشن آف انڈیا نے 52 لاکھ ٹن چاول کو ایتھنول کی پیداوار کے لیے مختص کیا ہے جبکہ چاول کا سٹاک کم قیمت پر مستحق افراد کو دیا جائے گا۔
زراعت کے شعبے کے ماہر دیویندر شرما نے کہا کہ یہ پالیسی 'ایک، دو برسوں میں زراعت کی تباہی' کا باعث بن سکتی ہے۔
شرما کا کہنا ہے کہ 'انڈیا جیسے ملک میں جہاں 25 کروڑ لوگ بھوک کا شکار ہیں، وہاں ہم کاروں کا ایندھن بنانے کے لیے اپنی خوراک استعمال نہیں کر سکتے۔'
ماہرین کے مطابق ایتھنول کی مانگ پوری کرنے کے لیے انڈیا کو 2030 تک اضافی 80 لاکھ ہیکٹر اراضی پر مکئی کو کاشت کرنا پڑے گا۔
لیکن اس سے بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
نتراجن کا کہنا ہے کہ چاول اور گندم کی پیداوار فی الحال کافی ہے اور کچھ کسان ان کی بجائے مکئی کاشت کر سکتے ہیں مگر دیگر فصلوں کی بھی ضرورت ہے، جیسے تیل کے بیج اور دالیں۔
نٹراجن نے مزید کہا کہ زیادہ بہتر ہوتا اگر ایتھنول کو 10 فیصد تناسب سے پیٹرول میں ملایا جاتا۔ تاہم انڈیا ای 20 سے بھی آگے جانا چاہتا ہے۔
پیٹرولیم کے وزیر ہردیپ پوری نے حال ہی میں کہا ہے کہ 'ملک اب مرحلہ وار ای 25، ای 27 اور ای 30 کی طرف جائے گا۔'