لوگوں کی بڑی تعداد حفاظتی بند پر سیلاب سے بچ جانے والے کچھ سامان کے ساتھ موجود تھی۔ اب بھی کچھ لوگ پانی میں ڈوبے اپنے گھروں سے قیمتی سامان حفاظتی بند پر لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن بہت سے سیلاب متاثرین کا قیمتی سامان اور گھر کے درودیوار سیلاب اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا۔
لوگوں کی بڑی تعداد سرکاری کیمپس میں جانے کے بجائے حفاظتی بندوں پر موجود ہےسیلاب سے متاثرہ علاقوں کی کوریج کے لیے ہم ملتان کے مضافاتی علاقے لنگڑیال پہنچے جو دریائے چناب کے سیلابی ریلے کے باعث مکمل طور پر زیر آب آ چکا تھا۔
لوگوں کی بڑی تعداد حفاظتی بند پر سیلاب سے بچ جانے والے کچھ سامان کے ساتھ موجود تھی۔ اب بھی کچھ لوگ پانی میں ڈوبے اپنے گھروں سے قیمتی سامان حفاظتی بند پر لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن بہت سے سیلاب متاثرین کا قیمتی سامان اور گھر کے در و دیوار سیلاب اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا۔
حفاظتی بند پر چارپائیاں بچھائے سیلاب متاثرین حسرت و یاس کی تصویر بنے اپنے ڈوبے ہوئے گھروں کو دیکھ رہے تھے۔
اسی حفاظتی بند پر ہماری ملاقات صغریٰ مائی سے ہوئی جو ایک چارپائی پر بیٹھیں پانی میں ڈوبے اپنے گاؤں کی جانب دیکھ رہی تھیں۔
چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کی ماں صغریٰ مائی نے 14 برس میں ایک، ایک پیسہ جوڑ کر اپنا گھر بنایا تھا، جو سیلابی ریلا اپنے ساتھ بہا لے گیا۔
سیلابی ریلے سے ہونے والی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے صغریٰ مائی کا کہنا تھا کہ ہم سیلاب سے بچ کر اس حفاظتی بند پر پہنچے ہی تھے کہ ہمارے سامنے ہمارا گھر گِر گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اب وہاں کوئی چیز نہیں بچی، زمین تک کا نام و نشان نہیںبچا۔ پتا نہیں چلا کہ یہاں مکان تھا بھی کہ نہیں۔‘
حفاظتی بند پر بیٹھے دیگر افراد کی کہانی بھی صغریٰبی بی جیسی ہی ہے۔
لیکن ہمارے لیے حیرت کا باعث یہ بات تھی کہ قریب ہی حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے ریلیف کیمپ کے باوجود یہ لوگ کھلے آسمان تلےبیٹھے ہیں اور یہاں اُنھیں کوئی امداد بھی نہیں مل رہی تھی۔
صغریٰ مائی کا کہنا تھا کہ اُنھیں یہاں کھانے پینے کی ضرورت ہے۔ جانوروں کو چارہ چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں یہاں ہی سب کچھ مل جائے، ہم وہاں نہیں جانا چاہتے۔
’اگر کچھ ملنا ہو گا تو یہیں مل جائے گا، ورنہ کوئی بات نہیں، ہم یہیں نالے پر ہی بیٹھے رہیں گے۔‘
ملتان میں موجود حکومتی کیمپ’یہاں سے ہم اپنے گھر دیکھ سکتے ہیں‘
اسی دوران ہماری ملاقات محمد اختر سے ہوئی، جو اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ سیلابی پانی سے پیٹی اُٹھا کر حفاظتی بند پر لا رہے تھے۔
ریلیف کیمپ میں نہ جانے کے سوال پر محمد اختر کا کہنا تھا کہ یہاں سے ہمارے گھر قریب ہیں، ہم یہاں بیٹھ کر کم از کم انھیں دیکھ سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ سیلاب میں ڈوبے گھروں سے کوئی سریا اُٹھا کر لے جاتا ہے تو کوئی اینٹیں چرا لیتا ہے۔ اس لیے ہم نے ڈیوٹیاں لگائی ہوئیہیں۔ کچھ لوگ وہاں سوتے ہیں اور کچھ یہاں، ہم یہاں لانے والے سامان کی بھی حفاظت کرتے ہیں جبکہ سیلاب میں ڈوبے گھروں پر نظر رکھتے ہیں۔
دریائے چناب کا سیلابی پانی اس بند سے اب بھی ٹکرا رہا ہے۔ اس دوران ہمیں بتایا گیا کہ یہاں تقریباً 700 گھرانے تھے جو وہاں سے نکل کر آ گئے ہیں اور یہاں بند پر بیٹھے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگ بارش اور دھوپ سے بچنے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت خیمے لگا رہے ہیں۔
جب ہم قریب ہی قائم کیے گئے حکومتی ریلیف کیمپ پر پہنچے تو وہاں اتنے کیمپس نہیں تھے، جہاں بند پر بیٹھے سارے لوگ جا سکیں۔ یہی صورتحال ہم نے ملتان کے دیگر مضافاتی علاقوں میں بھی دیکھی، جہاں لوگ کیمپس کے بجائے اپنی مدد آپ کے تحت سڑک کنارے یا حفاظتی بندوں پر پناہ لیے ہوئے تھے۔
سیلاب متاثرین حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے کیمپس میں سہولیات کے فقدان کی شکایات کر رہے ہیںسہولیات میں کمی کی شکایات
حکومتی ریلیف کیمپس پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ یہاں تین وقت کا کھانا، طبی سہولیات اور جانوروں کے لیے چارہ بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔لیکن کیمپ میں موجود سیلاب متاثرین سے بات ہوئی تو اُن کی کئی شکایات تھیں۔
ایک کیمپ میں داخل ہوئے تو ایک خاتون اپنے دو بچوں کو سادے چاول کھلا رہی تھیں اور ساتھ ہی اُن کے شوہر بھی موجود تھے۔
پانچ مرلہ سکیم نامی علاقے سے آئی صغریٰ بی بی نے بتایا کہ وہ اپنے دو بچوں اور خاوند کے ساتھ اس خیمے میں ہیں جبکہ اُن کی بیٹیوں کو دوسرے خیمے میں بھیج دیا گیا ہے۔
اُن سے بات ہوئی تو کہنے لگیں کہ یہاں کیمپس میں خاندانوں کو تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ’میرے کچھبچے یہاں ہیں جبکہ باقی بچے نہر کنارے بیٹھے ہیں۔‘
’یہاں واش رومز میں پانی نہیں آتا، وہ جوان بچیاں ہیں، یہاں اُنھیں کہاں سلاؤں۔‘ کیمپ میں دیگر سیلاب متاثرین سے بات ہوئی تو انکشاف ہوا کہ گنجائش کا مسئلہ ہر جگہ ہے۔
’بچیوں کی شادی کے لیے سامان جمع کیا تھا، جو سارا بہہ گیا‘
کیمپ میں ہماری ملاقات محمد فیاض سے ہوئی، جن کی بیٹیوں کی شادیاں طے ہو چکی تھیں لیکن سیلاب اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے گیا۔
محمد فیاض کا کہنا تھا کہ بیٹیوں کے جہیز کا سامان بھی تباہ ہو گیا۔ اب اپنے سات بچوں کے ساتھ کیمپ میں موجود ہوں۔
’یہاں بچے بیمار ہو رہے ہیں، کئی گھنٹوں تک یہاں لائٹ نہیں ہوتی، یہاں کیمپ سے بچوں کے لیے دوا لی ہے، لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔ مریم نواز یہاں آئیں تھیں، ایک خاتون سے بات کی اور وہ یہاں سے چلی گئیں۔ ہماری کسی نے نہیں سنی۔ چارپائی بھی ہم اپنے گھر سے لائے ہیں۔‘
لیکن یہاں صرف گنجائش کا ہی مسئلہ نہیں تھا۔ ایک بزرگ شہری سے بات ہوئی تو کھانا ملنے میں تاخیر کی شکایت کرنے لگے۔
اُن کا کہنا تھا کہ چار بج رہے ہیں اور ابھی بھی دوپہر کا کھانا نہیں ملا۔ایک شخص کو یہ شکایات تھی کہ صرف کچھ کیمپس میں پنکھے ہیں جبکہ باقی میں گرمی سے لوگ بے حال ہو رہے ہیں۔
’کیمپوں میں پانی کا مسئلہ ہے، کسی کیمپ میں چارپائی نہیں ہے، زمین پر چٹائی بچھا کر سوتے ہیں۔‘
’انتظامیہ چاہتی ہے کہ لوگ ریلیف کیمپس میں آ کر رہیں‘
ریلیف کیمپس سے متعلق لوگوں کی شکایات لے کر ہم اسسٹنٹ کمشنر ملتان سٹی عبدالسمیع شیخ کے پاسپہنچے جن کا ماننا تھا کہ کیمپس میں کچھ سہولیات کے پہنچنے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
ریلیف کیمپس میں لوگوں کے نہ آنے کے سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ ’لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مخیر حضرات اور این جی اوز کی جانب سے اُنھیں کھانا اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہے، ہم نے تمام این جی اوز اور مخیر حضرات سے کہا ہے کہ وہ ریلیف کیمپس میں آ کر لوگوں کی مدد کریں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے گھر وہاں سے قریب ہیں، اس لیے وہ وہاں سے اُٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن اُنھیں قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
’ہم اُنھیں یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہاں اُنھیں تین وقت کا کھانا ملے گا۔ جانوروں کے لیے چارہ ملے گا، پنکھا ملے گا۔‘
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ انتظامیہ کے پاس تمام متاثرہ افراد کو سنبھالنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ہمیں نظر آر رہا ہے کہ لوگ اب بتدریج ان خیموں میں منتقل ہو بھی رہے ہیں۔
لیکن صغری مائی اور بند پر بیٹھے دیگر افراد کو ابھی ایک اور سیلابی ریلے کا خطرہ ہے۔ صغری مائی یہ بھی نہیں جانتیں کہ جب سیلاب کا پانی اُترے گا تو وہ اپنی بچیوں کو لے کر کہاں جائیں گی۔