قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں ہونے والے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے دوران پاکستانی مندوب کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے غیر متعلقہ واقعے کو پاکستان سے جوڑ کر حقائق سے منافی ریمارکس دیے جس پر اسرائیلی مندوب نے جواب دیا کہ ’آپ اس حقیقت کو نہیں بدل سکتے کہ اسامہ بن لادن پاکستانی سرزمین پر مارے گئے‘۔
پاکستان کے سوشل میڈیا پر گذشتہ دو دن سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا وہ حالیہ ویڈیو پیغام زیر بحث ہے جس میں انھوں نے پاکستان اور اسامہ بن لادن کا حوالہ دیا تھا، اور ابھی اس بیان پر بحث جاری تھی کہ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی پاکستان اور اسرائیل کے مندوبین اس معاملے پر آمنے سامنے نظر آئے۔
قطر پر ہونے والے اسرائیلی حملے کے تناظر میں بلائے جانے والے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کے نمائندے عاصم افتخار احمد نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ اسرائیل نے پاکستان کے بارے میں حقائق سے منافی ریمارکس دیے، جس کا مقصد بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور اپنے غیر قانونی اقدامات کا جواز پیش کرنا تھا۔
اسی اجلاس میں شریک اسرائیل کے نمائندے نے عاصم افتخار احمد کی تقریر پر فوری ردعمل دیا اور انھیں یہ باور کروایا کہ اس حقیقت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا کہ اسامہ بن لادن پاکستانی سر زمین پر مارے گئے تھے۔
یاد رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکہ میں نائن الیون حملوں کے 24 برس مکمل ہونے کی مناسبت سے بیان میں پاکستان اور اسامہ بن لادن کا حوالہ دیتے ہوئے اسے قطر میں کیے گئے اسرائیلی حملے کے جواز کے طور پر پیش کیا تھا۔
اسرائیل نے منگل کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے سینیئر رہنماؤں پر حملہ کیا تھا۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے ’7 اکتوبر کے وحشیانہ قتل عام کے براہ راست ذمہ داران‘ کو نشانہ بنایا۔ دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ دوحہ میں اس کے مذاکراتی وفد کے ارکان کو نشانہ بنایا گیا لیکن وہ اس حملے میں محفوظ رہے تاہم ایک قطری سیکورٹی اہلکار سمیت چھ دیگر افراد مارے گئے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں کیا ہوا؟
قطر پر ہوئے اسی حملے کے تناظر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا تھا۔
اس اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں سلامتی کونسل نے دوحہ پر ہونے والے حالیہ حملے کی مذمت تو کی تاہم بیان میں اسرائیل کا ذکر نہیں کیا گیا۔لیکن اس اجلاس میں شامل کئی ممالک بشمول پاکستان، قطر اور مصر کے نمائندوں نے نہ صرف اپنی تقاریر میں دوحہ پر اسرائیلی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی بلکہ غزہ کی صورتحال اور اسرائیل کی جانب سے مبینہ نسل کشی پر بھی بات کی۔
اجلاس میں جب پاکستان کے نمائندے عاصم افتخار احمد کی تقریر کی باری آئی تو انھوں نے اپنی بات کا آغاز دوحہ پر اسرائیلی حملے کی مذمت سے کیا اور اسرائیل پر غزہ کی صورتحال کے پیش نظر شدید تنقید کی۔
اپنی تقریر میں انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل نے ایک غیر متعلقہ واقعے کو پاکستان سے جوڑ کر حقائق سے منافی ریمارکس دیے، جس کا مقصد بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور اپنے غیر قانونی اقدامات کا جواز پیش کرنا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس واقعے پر پاکستان کا موقف واضح ہے۔ عالمی برادری دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں سے اچھی طرح سے واقف ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ہماری انسداد دہشتگردی کی کوششوں کی وجہ سے القاعدہ کا صفایا ہوا۔‘
’ہم کسی بھی غیر ذمہ دار ریاست کے ایسے بیانات کو قبول نہیں کریں گے جو دہائیوں سے غزہ اور فسلطینی علاقوں میں بدترین ریاستی دہشتگردی کی مجرم ہو۔ اور جیسے قطر نے کیا، ہم بھی کسی بھی غلط تشبیہ کو مسترد کرتے ہیں۔‘
پاکستان کے نمائندے کی تقریر ختم ہونے پر اسرائیل کے نمائندے نے اجلاس میں بات کرنے کی اجازت مانگی اور پاکستان کو فوری جواب دیا۔
اسرائیل کے نمائندے نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر پاکستان سے ہمارے ساتھی بیان دینا چاہتے تھے تو وہ اجلاس کے شروع میں ایسا کر سکتے تھے لیکن میں آپ کے الفاظ کا ہی حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ شاید آپ کو میری تقریر کے الفاظ بُرے لگے اور میں اس کے لیے معافی چاہتا ہوں، لیکن میری تقریر حقائق پر مبنی تھی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اور یہ حقیقیت ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں مارے گئے اور کسی نے بھی امریکہ کی مذمت نہیں کی اور جب دوسرے ممالک دہشتگردوں کو نشانہ بناتے ہیں تو کوئی ان کی مذمت نہیں کرتا اور یہ ہی دوہرا معیار ہے۔ جب آپ کے اسرائیل کے لیے مختلف اور اپنے لیے اور معیار ہیں تو پھر یہ مسئلہ ہے۔‘
انھوں نے یہ بات دہرائی کہ ’آپ اس حقیقت کو نہیں بدل سکتے کہ نائن الیون ہوا تھا۔ آپ اس حقیقت کو بھی نہیں بدل سکتے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں تھا اور آپ کی سرزمین پر مارا گیا۔‘
اپنی بات کے اختتام پر اسرائیلی نمائندے نے کہا کہ ’لیکن میں آپ سے سوال پوچھتا ہوں کہ جب آپ ہم پر تنقید کرتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ مستقبل میں بھی ہمیں تنقید کا نشانہ بناتے رہیں گے تو پھر دوہرے معیار کے بارے میں بھی سوچیں۔ وہ معیار جو آپ اپنے ملک پر لاگو کرتے ہیں اور وہ معیار جو آپ اسرائیل کے لیے طے کرتے ہیں۔‘
نیتن یاہو نے اپنے پیغام میں کیا کہا تھا؟
11 ستمبر کی مناسبت سے لگ بھگ دو منٹ پر محیط اپنے بیان میں نیتن یاہو نے پاکستان اور اسامہ بن لادن کا حوالہ دیا تھا۔
اسی بیان میں نیتن یاہو نے قطر پر اسرائیلی حملے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ نے بھی القاعدہ کا تعاقب کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو پاکستان میں ہلاک کیا تھا۔ اس موقع پر انھوں نے قطر سمیت دیگر ممالک کو خبردار کیا تھا کہ وہ شدت پسندوں کو پناہ نہ دیں ورنہ اسرائیل بیرون ممالک میں ایسے حملے جاری رکھے گا۔
واضح رہے کہ اسامہ بن لادن کو دو مئی 2011 کو امریکی نیوی سیلز نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں کیے جانے والے ایک آپریشن میں ہلاک کر دیا تھا۔
10 ستمبر کو اسرائیل کے وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری اس ویڈیو پیغام میں نیتن یاہو اپنی بات کا آغاز 11 ستمبر سے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کل 11 ستمبرہے۔ ہمیں 11 ستمبر یاد ہے۔ اس دن اسلام پسند دہشتگردوں نے امریکہ کے قیام کے بعد امریکی سرزمین پر بدترین وحشیانہ کارروائی کی۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارا (اسرائیل) بھی ایک 11 ستمبر تھا۔ ہمیں 7 اکتوبر یاد ہے۔ اس دن اسلام پسند دہشتگردوں نے ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے خلاف بدترین وحشیانہ کارروائی کی۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے مزید کہا تھا کہ ’امریکہ نے 11 ستمبر کے بعد کیا کیا؟ اس نے اس گھناؤنے جرم کے ذمہ داران دہشتگردوں کو پکڑنے کا وعدہ کیا، چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔ دو ہفتے بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ایک قرارداد بھی پاس ہوئی، جس میں کہا گیا کہ حکومتیں دہشتگردوں کو پناہ نہیں دے سکتیں۔‘
قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھےنیتن یاہو نے قطر میں اسرائیلی حملے کا جواز پیش کرتے ہوئے مزید کہا تھا کہ ’ہم نے اسی پر عمل کیا۔ ہم نے 7 اکتوبر کے ماسٹر مائنڈ دہشتگردوں کا پیچھا کیا اور ہم نے قطر میں ایسا کیا، جو دہشتگردوں کو پناہ دیتا ہے، وہ حماس کی مالی مدد کرتا ہے، وہ دہشتگرد رہنماؤں کو شاندار محل دیتا ہے، قطر انھیں سب کچھ دیتا ہے۔‘
نتین یاہو نے مزید کہا تھا کہ ’تو ہم نے وہی کیا جو امریکہ نے کیا تھا، اس نے افغانستان میں القاعدہ کے دہشتگردوں کا پیچھا کیا اور اس کے بعد اس نے پاکستان میں اسامہ بن لادن کو مار ڈالا۔‘
قطر حملے کے بعد عالمی برادری کی جانب سے آنے والے شدید ردعمل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’اب دنیا کے کئی ممالک اسرائیل کی مذمت کر رہے ہیں۔ انھیں شرم آنی چاہیے۔ امریکہ کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد انھوں نے کیا کیا تھا؟ کیا انھوں نے یہ کہا کہ اوہ ہو، افغانستان یا پاکستان کے ساتھ بہت بُرا ہوا۔ نہیں، بلکہ انھوں نے تالیاں بجائیں۔ ان ممالک کو ان ہی اصولوں پر قائم رہنے اور ان پر عمل پیرا ہونے پر اسرائیل کی تعریف کرنی چاہیے۔‘
نیتن یاہو نے قطر اور دیگر ممالک کو خبردار کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ’میں قطر اور دہشتگردوں کو پناہ دینے والے تمام ممالک سے کہتا ہوں کہ یا تو انھیں اپنے ملک سے نکال دیں یا پھر انصاف کے کٹہرے میں لائیں کیونکہ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو ہم کریں گے۔‘
امریکی نیوی سیلز نے اسامہ بن لادن کو دو مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں کیے جانے والے آپریشن میں ہلاک کیا تھانیتن یاہو کے اس ویڈیو پیغام کے جواب میں قطر کی وزارتِ خارجہ نے جواب دیا۔ قطر نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے دوحہ حملے کا القاعدہ کے تعاقب سے موازنہ کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کا بیان نہ صرف اسرائیل کے بزدلانہ حملے کا جواز پیش کرنے کی کوشش ہے بلکہ مستقبل میں بھی ریاستی خودمختاری کی خلاف ورزیوں کو جواز فراہم کرنے کی شرمناک کوشش ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ نیتن یاہو اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ حماس کے دفتر کی میزبانی قطر کی ثالثی کی کوششوں کے فریم ورک کے تحت ہے جس کی امریکہ اور اسرائیل نے درخواست کی تھی۔
قطری وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ’نیتن یاہو کا یہ الزام کہ قطر نے حماس کے وفد کو خفیہ طور پر پناہ دی، ایک ایسے جرم کو جواز فراہم کرنے کی مایوس کن کوشش ہے جس کی پوری دنیا نے مذمت کی۔‘
قطری وزارتِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نے دوحہ پر حملے کا جواز پیش کرنے کے لیے اس کا نائن الیون حملوں کے بعد القاعدہ کے تعاقب سے موازنہ کرنے کی کوشش کی۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ القاعدہ کا کوئی مذاکراتی وفد نہیں تھا جس کے ساتھ امریکہ اس وقت خطے میں امن قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی حمایت کے ساتھ مذاکرات کرتا۔
قطر کا کہنا تھا کہ اس کی ساکھ کو بدنام کرنے کی کوششوں کے باوجود وہ خطے اور علامی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک غیر جانبدار بین الاقوامی شراکت دار کے طور پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ قطر اپنی خودمختاری اور سرزمین کے دفاع کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔