تقریبا دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی بہاولنگر میں اقبال بی بی اور لاکھوں دیگر خواتین کسانوں کے کھیت پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ خواتین ہر صبح وہ قیمتی فصل بچانے نکلتی ہیں جو ان کے روزگار اور خاندان کی واحد امید تھی۔
17 سالہ شاہین سیلاب کی تباہی کے بعد قیمتی فصل بچانے نکلتی ہیں جو ان کے روزگار اور خاندان کی واحد امید تھیاقبال بی بی لکڑی کے ٹکڑوں اور پلاسٹک کے ڈبوں سے بنی ایک عارضی کشتی سے اُترتی ہیں اور پھر پانی میں سینے تک ڈوب جاتی ہیں۔ انھوں نے اپنا دوپٹہ پانی کی سطح سے اوپر اٹھایا ہوا ہے تاکہ اسے گیلا ہونے سے بچا سکیں۔ وہ احتیاط سے چلتی ہوئی کپاس کے ایک کھیت تک جاتی ہیں جہاں وہ بچی کچی کپاس کے آخری سفید پھول توڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔
یہ وہی زمین ہے جہاں چند دن پہلے تک اُن کے کپاس کے کھیت لہلا رہے تھے۔ اب یہاں گدلے سیلابی پانی کی جھیل بن چکی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ سیلاب ایک قیامت تھا۔ اور اس کے بعد ہر دن ایک نئی قیامت بن گیا ہے۔‘
تقریبا دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی پنجاب کے ضلع بہاولنگر میں اقبال بی بی اور دیگر خواتین کسانوں کے کھیت پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ خواتین ہر صبح وہ قیمتی فصل بچانے نکلتی ہیں جو ان کے روزگار اور خاندان کی واحد امید تھی۔
پنجاب پاکستان کا سب سے زرخیز صوبہ ہے۔ یہاں جنوبی پنجاب کے وسیع علاقے، جہاں اُگنے والی کپاس، چاول اور دیگر فصلیں ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہیں، اب کیچڑ سے بھرے پانی کے نیچے دبے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس تباہی کا سب سے بڑا خمیازہ ان کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کسانوں اور مزدوروں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خواتین کے روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ زراعت ہے اور کپاس کے کھیتوں میں تقریباً 68 فیصد مزدور خواتین ہیں۔
ان خواتین کے پاس ان زمینوں کی ملکیت نہیں اور یہ دیہاڑی دار مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں، جو روزانہ کپاس اور دیگر اجناس چُن کر چند سو روپے کماتی ہیں۔
اب جب کھیت ڈوب گئے تو ان کی اجرتیں بھی راتوں رات ختم ہو گئی ہیں۔
یہ وہی زمین ہے جہاں چند دن پہلے تک ان کے کپاس کے کھیت لہلا رہے تھے مگر اب یہاں گدلے پانی کی ساکن جھیل بن چکی ہےخیال رہے کہ جنوبی پنجاب اور سندھ میں اگنے والی کپاس پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے۔ تقریباً 20 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اسی کی بنیاد پر چلتی ہے، جو ملک کی سب سے بڑی ایکسپورٹ بھی ہے۔
پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی سب سے بڑی منڈیوں میں امریکہ، چین، برطانیہ، یورپی یونین اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
پاکستان میں اس سال حکام کو کپاس کی ریکارڈ پیداوار کی امید تھی۔ پنجاب حکومت نے چند ماہ قبل تقریباً ایک کروڑ گانٹھوں کا تخمینہ لگایا تھا۔ مگر اب ماہرین کے مطابق، ان کا ایک بڑا حصہ پانی میں ڈوب گیا ہے۔
اقبال بی بی کے گاؤں سے چند کلومیٹر دور ایک اور گاؤں میں 17 سالہ شاہین اپنے چار چھوٹے بہن بھائیوں اور درجنوں دیگر خاندانوں کے ساتھ ایک حویلی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ سیلاب نے ان کی زندگی اور آمدن دونوں کو روک دیا ہے: ’سیلاب کی رات ہماری آنکھ اس وقت کھلی جب ہمارے گھر میں تین سے چار فٹ پانی جمع ہو چکا تھا۔ ہم آدھی رات کو چیختے چلاتے چھت پر بھاگے۔ جن کھیتوں میں ہم نے دن رات محنت کی تھی، وہ سب ختم ہو چکے تھے۔‘
شاہین کی والدہ فوت ہو چکی ہیں اور ان کے والد بیمار ہیں۔ اب گھر کی تمام ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہے۔
اقبال بی بی: ’بہت سی خواتین نے زمین تیار کرنے، کھاد خریدنے یا گھر کا چولہا جلانے کے لیے قرض لے رکھا تھا مگر اب زمین تباہ ہو چکی ہے‘شاہین کہتی ہیں ’ہم کپاس چُنتے تھے۔ زمین ہماری نہیں تھی، جس کھیت میں کام ملتا وہاں چلے جاتے۔ دن بھر میں کبھی پانچ سو، کبھی چھ سو روپے بنتے۔ اُسی سے بچوں کا پیٹ پالتے، کبھی کبھار کپڑے یا جوتے خرید لیتے تھے۔‘
’اب کھیتی ہی نہیں رہی تو ہم کیا کریں؟ کپاس ختم، دھان ختم۔ کس کے پاس جائیں، کون ہمیں کچھ دے گا؟‘
سیلاب نے صرف فصلیں ہی نہیں ڈبوئیں، بلکہ ہزاروں خاندانوں کو قرض کے ایک ایسے شکنجے میں دھکیل دیا ہے جس سے نکلنا ناممکن لگتا ہے۔
’زمین تو نہیں رہی مگر قرض اور اس کا سود باقی ہے‘
پنجاب میں بڑے پیمانے پر قابل کاشت زمین زیر آب ہےشاہین بھی اقبال کی طرح ریسکیو کی ایک کشتی میں بیٹھ کر اپنے ڈوبے ہوئے گھر کے قریب ہی ایک کھیت میں جاتے ہوئے بتاتی ہیں کہ انھوں نے زمین کے اس ٹکڑے کو کاشت کرنے کے لیے قرض لے رکھا تھا۔
وہ کہتی ہیں ’دل دکھتا ہے کہ جن کھیتوں پر ہم نے ساری محنت کی، آج وہاں ہمارے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔ زمین تیار کرنے کے لیے ہم نے بینکوں اور بیوپاریوں سے قرض لیا تھا، اب زمین تو نہیں رہی مگر قرض باقی ہے۔ لگتا ہے جیسے نصیب میں دکھ ہی لکھا تھا اور اب وہی دکھ ہم جھیل رہے ہیں۔‘
اقبال بی بی بتاتی ہیں کہ بہت سی خواتین نے زمین تیار کرنے، کھاد خریدنے یا گھر کا چولہا جلانے کے لیے قرض لے رکھا تھا۔ اب زمین تباہ ہو چکی ہے، مگر قرض اور اس کا سود باقی ہے، جو ہر گزرتے ہفتے کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جس کے بارے میں اقبال بی بی کہتی ہیں کہ ’شاید کبھی ختم نہیں ہو گا۔‘
’یہ خواتین دیہاڑی دار ہیں، جب کھیت ڈوب جاتے ہیں تو واحد آمدنی بھی ختم ہو جاتی ہے‘
شاہین کی والدہ فوت ہو چکی ہیں اور ان کے والد بیمار ہیں اور وہ اپنے گھر کی واحد کفیل ہیںپاکستان گذشتہ دو دہائیوں میں کئی بار سیلاب کا شکار ہوا ہے۔ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث یہ آفات اب زیادہ کثرت سے اور زیادہ شدت کے ساتھ آ رہی ہیں۔
سنہ 2022 کے بڑے سیلاب کے بعد، جس میں ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا تھا، یہ ایک اور بڑا دھچکا ہے جس نے خاص طور پر زراعت کو تباہ کیا ہے۔ صرف پنجاب میں ہی 40 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر اور دو ملین بے گھر ہو چکے ہیں۔
پنجاب کے محکمہ زراعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد اشفاق اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پاکستان کی زیادہ تر فصلیں مشینی طریقے سے نہیں اُگائی جاتیں بلکہ انسانی محنت پر منحصر ہوتی ہیں، اور ان میں تقریباً ستر فیصد مزدور خواتین ہیں۔ اس کے معاشی اثرات خاصے زیادہ ہوں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ خواتین دیہاڑی دار ہیں، اس لیے جب کھیت ڈوب جاتے ہیں تو ان کی واحد آمدنی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ حکومت پانی اترنے کے بعد سروے کرے گی، لیکن اثرات بہت گہرے اور دیرپا ہوں گے۔‘
’میرے پاس تو ٹرالی کا کرایہ دینے کے بھی پیسے نہیں‘
یہ خواتین کسان زمین کی ملکیت رکھتی ہیں نہ ہی حکومتی ریکارڈز میں مزدروں کی طرح رجسٹرڈ ہیںکچھ خواتین پہلے ہی روزگار کی تلاش میں نکل پڑی ہیں۔ بہاولنگر سے کئی گاڑیاں، ٹرالیاں اور رکشے ان خواتین سے بھرے ہوئے ان علاقوں کی طرف جا رہے ہیں جہاں سیلاب کے پانی نے کھیتیوں کو نقصان نہیں پہنچایا۔
یہ خواتین بچی کھچی زمینوں پر مزدوری کی تلاش میں میلوں کا سفر طے کر رہی ہیں۔ لیکن شاہین جیسی دیہاڑی دار کسانوں کے لیے یہ راستہ بھی بند ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’میرے پاس تو ٹرالی کا کرایہ دینے کے بھی پیسے نہیں۔‘
یہ خواتین کسان زمین کی ملکیت رکھتی ہیں نہ ہی حکومتی ریکارڈز میں مزدروں کی طرح رجسٹرڈ ہیں۔ اسی لیے، ان کے مطابق، جب قدرتی آفت آتی ہے تو انھیں حکومتی امداد میں سے کچھ بھی نہیں ملتا۔
اقبال بی بی پانی میں ڈوبے کھیت سے کپاس چن کر واپس آئیں تو سب سے پہلے اپنے پاؤں دکھائے۔ ان کے پاؤں پر گھنٹوں پانی میں چلنے کی وجہ سے چھالے نکلے آئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’اس پانی میں کھڑے رہنا آسان نہیں ہے۔ ہمارے پاس پہلے ہی کچھ خاص نہیں تھا۔ مگر اب تو وہ تھوڑا سا بھی باقی نہیں بچا۔ بس یہ پانی ہی پانی ہے۔‘