میر لائق علی نے نظام حکومت کے آخری وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ’آپریشن پولو‘ کی تکمیل کے بعد انڈین فورسز نے انھیں حیدرآباد (دکن) کے بیگم پیٹ میں نظر بند کر دیا۔ ڈیڑھ سال بعد، وہ اور ان کا خاندان سکیورٹی فورسز کی نگرانی سے بچ کر ملک کی سرحد عبور کر کے پاکستان میں کیسے داخل ہوئے۔
میر لائق علی نظام حیدرآباد کے آخری وزیر اعظم بنےیہ مارچ سنہ 1950 کی بات ہے۔
ریڈیو پاکستان کی خبر کے نشر ہونے کے چند منٹوں میں ہی دہلی کو کراچی میں انڈین سفارت خانے سے ایک فوری کال موصول ہوئی۔
اس کال پر، انڈین سفیر شری پرکاش اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کے ساتھ ایک ضروری معاملے پر بات کرنے کے منتظر تھے۔
پرکاش نے حیرت زدہ آواز کے ساتھ پو چھا کہ ’کیا میر لائق علی کو رہا کر دیا گیا ہے؟‘
پٹیل نے جواب دیا: ’نہیں‘۔
لیکن پرکاش نے کہا کہ ’ریڈیو پاکستان نے اطلاع دی کہ لائق علی نے کراچی میں ایک سرکاری عشائیے میں شرکت کی ہے۔‘
اس وقت بھی حکومت ہند کو سمجھ نہیں آئی کہ ہوا کیا ہے۔
میر لائق علی نے نظام حکومت کے آخری وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ’آپریشن پولو‘ کی تکمیل کے بعد انڈین فورسز نے انھیں حیدرآباد (دکن) کے بیگم پیٹ میں نظر بند کر دیا۔ ڈیڑھ سال بعد، وہ اور ان کا خاندان سکیورٹی فورسز کی نگرانی سے بچ کر ملک کی سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوئے۔
حیدر آباد کے ایک مورخ اور آندھرا پردیش کے سابق چیف سکریٹری نریندر لوتھر نے اپنی کتاب ’حیدرآباد: اے بائیوگرافی‘ میں لکھا ہے: ’اگرچہ ان کا فرار انڈین حکومت کے لیے باعثِ بدنامی تھا، لیکن یہ باقی دنیا کے لیے ایک مضحکہ خیز واقعہ کے طور پر ظاہر ہوا۔‘
انجینئرنگ سے فارغ التحصیل میر لائق علی بعد میں ایک کامیاب بزنس مین بنے۔ اگرچہ وہ سیاست میں کچھ دلچسپی رکھتے تھے، لیکن وہ اپنے سیاسی کرئیر کو آگے نہیں بڑھانا چاہتے تھے۔
اپنی کتاب ’ٹریجڈی آف حیدرآباد‘ میں لائق علی لکھتے ہیں کہ انھوں نے نظام حکومت اور پاکستانی کابینہ میں شامل ہونے کے پہلے دعوت نامے کو مسترد کر دیا تھا۔
لیکن آخری نظام، میر عثمان علی خان کے دباؤ میں لائق علی نے 30 نومبر سنہ 1947 کو نظام حکومت کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔
وہ ’آپریشن پولو‘ کے اختتام یعنی 17 ستمبر 1948 تک تقریباً دس ماہ تک اس عہدے پر فائز رہے۔
جب نظام کی حکومت اپنے سقوط کے دہانے پر تھی تب انھوں نے ایک مشکل صورتحال میں وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
لائق علی کا خیال تھا کہ انڈیا کے ساتھ کسی بھی صورت میں براہ راست تنازع سے گریز کیا جائے اور اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ لائق علی نے کہا کہ اس بارے میں ان کی اور نظام کی ایک ہی رائے تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے ساتھ بھی اچھے تعلقات بنائے رکھے۔ نظام کے ساتھ مل کر لائق علی کا خیال تھا کہ پاکستان حیدرآباد کو ایک آزاد ریاست بنے رہنے میں مدد دے گا۔
میر لائق علی کی سیاست میں دلچسپی کم تھی19 ستمبر 1948 سے نظر بند
لائق علی وہی تھے جو حیدرآباد کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گئے۔ انھوں نے اس سطح پر کام کیا جہاں ایک علاقائی مسئلہ عالمی مسئلہ بن گیا۔
لیکن ’آپریشن پولو‘ سلامتی کونسل میں بحث شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا اور حیدرآباد کے آزاد ملک بننے کا ان کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔
لائق علی کو 19 ستمبر 1948 سے انھی کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا، یہ گرفتاری ڈیڑھ سال تک جاری رہی۔ آخر کار، ایک دن محافظوں کی لاپروائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، وہ اپنے خاندان کے ساتھ سرحد پار کر کے پاکستان چلے گئے۔
انھوں نے لکھا کہ اُس شام، ایک فوجی افسر آیا اور اس نے کہا کہ وہ مجھے اگلی صبح اٹھا لے گا۔ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ ’کیا فوجی گولی چلانے کے لیے تیار ہیں؟‘
لائق علی نے اپنی کتاب ’ٹریجڈی آف حیدرآباد‘ میں لکھا: ’اگلی صبح فوجی گاڑیوں نے میرے گھر کو حصار میں لے لیا، لیکن کوئی اندر داخل نہیں ہوا، دن بھر صورتحال جوں کی توں رہی، شام کو وہ چلے گئے، شاید اس کا تعلق سلامتی کونسل کی میٹنگ سے تھا، مہینے گزر گئے اور میرے ساتھ کچھ نہیں ہوا، آخر کار ایک دن اتفاق سے میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔‘
میر عثمان علی خان حیدرآباد ریاست کے ساتویں نواب جن کے عہد میں حیدرآباد انڈیا کا حصہ بنیلائق علی کراچی میں
حیدرآباد کی تاریخ پر بڑے پیمانے پر تحقیق کرنے والے نریندر لوتھر نے اپنی کتاب ’حیدرآباد: اے بایوگرافی‘ میں لکھا ہے کہ لائق علی سرحد پار کیسے فرار ہوئے۔
لائق علی کا خیال تھا کہ انڈیا میں آئین کے نفاذ کے بعد انھیں رہا کر دیا جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
خیال رہے کہ انڈیا میں آئین کا نفاذ 30 جنوری سنہ 1950 کو ہوا تھا۔
بہر حال ان کے گھر میں داخل ہونے والے لوگوں کی حفاظتی جانچ میں پہلے کی نسبت کم سختی دیکھنے میں آئی جس کی وجہ سے خاندان اور دوستوں نے انھیں وہاں سے نکالنے کا منصوبہ بنایا۔
انھوں نے ہوائی اڈوں پر بیرون ملک سفر کرنے والوں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے عمل کا جائزہ لیا اور پاکستان جانے کے لیے ضروری دستاویزات تیار کیں۔
کچھ دنوں بعد لائق علی کی طبیعت ناساز ہونے کی اطلاع ملی۔ ان کی بیوی اکثر گاڑی میں کھڑکیوں پر پردے لگا کر ان کے علاج اور دوا کے لیے جاتی تھیں۔ اسی سب کے تحت کچھ دنوں میں لائق علی کو گھر سے نکالنے کا انتظام کیا گیا۔
اس کوشش میں گھر میں کچھ دنوں تک گانے اور رقص کی مجلسیں منعقد ہوتی رہیں اور اس کے لیے یہ بہانہ بنایا گیا کہ جلد ہی ایک قریبی رشتہ دار کی شادی ہونے والی ہے۔
آخر کار 3 مارچ سنہ 1950 کو، لائق علی دوا لینے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہوئے گاڑی میں اپنی بیوی کی جگہ بیٹھ کر فرار ہو گئے۔
اس کے بعد وہ گلبرگہ ریلوے سٹیشن پر ایک محفوظ ڈبے میں ایک دوست کے ساتھ ممبئی پہنچے۔ وہاں سے وہ ایک عام مسافر کی طرح غلام احمد کے نام سے کراچی جانے والی پرواز میں سوار ہوئے۔
اگلے دن، لائق علی کے بچے ایک شادی میں شرکت کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ٹرین کے ذریعے ممبئی کے لیے نامپلی روانہ ہوئے۔
نریندر لوتھر نے اپنی کتاب ’حیدرآباد: اے بائیوگرافی‘ میں درج کیا ہے کہ لائق علی کی اہلیہ نے سکیورٹی گارڈز کو باور کرایا کہ لائق علی گھر پر ہی ہیں، انھوں نے اپنا سر کمبل سے ڈھانپ رکھا ہے، انھیں دوا دی گئی ہے اور ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔
نئے آئین کی دفعات نے جان بچائی
تیسرے دن، لائق علی کی بیوی ایسی گاڑی میں ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوئیں جس کی کھڑکوں پر پردے ڈالے گئے تھے۔ لیکن راستے میں گاڑی خراب ہو گئی اور ڈرائیور کو اسے دھکا دینا پڑا۔
نریندر لوتھر نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) جیٹلی، جو اس وقت اس راستے سے گزر رہے تھے، انھوں نےجب یہ منظر دیکھا تو ان کی مدد کے لیے اپنی گاڑی سے باہر اتر آئے۔
بعد ازاں لائق علی کی اہلیہ حیدرآباد ایئرپورٹ پہنچیں اور وہاں سے بمبئی کے لیے پرواز لی۔
لائق علی کے اہل خانہ وہاں اپنے بچوں سے ملے اور پھر بحری جہاز کے ذریعے کراچی پہنچے۔
دریں اثنا، لائق علی کی بہن، ان کے ایک عرب نژاد نوکر اور دیگر 10 افراد کو نظر بندی کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
ان کے خلاف حیدرآباد میں سابقہ نظام حکومت کے نافذ کردہ قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ تاہم، ان کے وکلا نے دلیل دی کہ یہ مقدمہ ٹرائل کے لیے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ نظام حکومت کو ختم کر دیا گیا ہے اور اس کے قوانین کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔
11 اگست سنہ 1950 کو ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ لائق علی کی گھر میں نظربندی آئین ہند کے آرٹیکل 22 کے تحت غیر قانونی ہے اور جن لوگوں پر انھیں رہا کرنے کا الزام لگایا گيا ہے وہ مجرم نہیں ہیں۔
آئین کی نئی دفعات لائق علی اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے خلاف مقدمات کو خارج کرنے کا باعث بنیں۔
پاکستان جانے والے لائق علی وہاں کی حکومت میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ حیدرآباد ٹرسٹ کی سرگرمیوں میں بھی شامل تھے، جو پاکستان ہجرت کرکے آنے والے حیدرآباد کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے آخری نظام کے مالی تعاون سے کراچی میں قائم کیا گیا تھا۔
بعد ازاں 24 اکتوبر سنہ 1971 کو لائق علی نیویارک سٹی میں وفات پا گئے اور مدینہ منورہ میں انھیں سپرد خاک کیا گيا۔