گوادر سے عمان کی حدود میں داخل ہوتے ہی لانچ منوری میں آگ لگ گئی جس میں 20 میں سے صرف ایک ماہی گیر، حمید اللہ زندہ بچ سکے۔ وہ آٹھ گھنٹے سمندر میں تنہا جدوجہد کے بعد ریسکیو ہوئے جبکہ باقی تمام لاپتہ ماہی گیروں کی تلاش کی کارروائی ختم کر دی گئی ہے۔
چھ ستمبر کو گوادر کے ساحل سےگہرے اور کھلے سمندر میں بڑیمچھلیاں پکڑنے کے لیے 20 رکنی عملے کے ساتھ روانہ ہونے والی لانچ’منوری‘ میں اکثریت کا تعلق ضلع بنوں سے تھا۔
چھتیس گھنٹے بعد لانچ کے عمان کی حدود میں پہنچتے ہی شام کا اندھیرا پھیلنا شروع ہو گیا۔ لانچ کا عملہ اوپر والے حصے میں ایک دوسرے کے ساتھگپ شپ لگاتے ہوئے کھانے کا انتظار کر رہا تھا۔ صرف چار لوگ نیچے والے حصے میں تھے۔
ایسے میں اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ اس کے ساتھہی پوری لانچآگ کے شعلوں میں گھر گئی۔ شعلے تیزی سےپھیل رہے تھے۔
اس واقعے میں ابھی تک لانچ میں سوار 20 افراد میں سے صرف ایک حمید اللہ ریسکیو ہو کر اپنے آبائی علاقے بنوں پہنچے ہیں۔
وہبتاتے ہیں کہ ’لانچ میں حفاظتی سامان، جیکٹس، آگ بجھانے والے آلات سب کچھ تھا۔ مگر آگ اتنی تیز تھی کہ سب کو لگا کہ ہمارے پاس صرف چند سیکنڈز ہیں۔ اگر ان چند سیکنڈز کے اندر چھلانگ نہ لگائی تو شعلوں کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔‘
’تین، چار منٹ تک باقی لوگوں کی آوازیں سنتا رہا‘
حمید اللہ بتاتے ہیں کہ ’جب میںنے سمندر میں چھلانگ لگائی تو لائف جیکٹ وغیرہ لینے کا موقع نہیں ملا اور میرے ساتھ جن لوگوں نے چھلانگ لگائی تھی انھیں بھی یہ موقع نہیں ملا تھا۔‘
’شروع میں جب چھلانگ لگائی تو میرے ساتھ پانچ لوگ تھے۔ اندھیرا پھیل رہا تھا اور بہت ہلکی روشنی تھی جس میں دیکھ رہا تھا کہ وہ بھی میرے اردگرد تیرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
حمید اللہ کا کہنا تھا کہ ’چند ہی سیکنڈ میں وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے تھے۔ مگر اس کے بعد میں آوازیں سنتا رہا۔ وہ سبایک دوسرے سے کہتے رہے کہ حوصلہ رکھو سب ٹھیک ہو گا۔ تھوڑی دیر تیرنا ہوگا۔ یہاں پر کوئی نہ کوئی جہاز، لانچ ضرور ہو گی جو ہمیں دیکھ کر ہماری مدد کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ مجھے تین، چار منٹ تک دیگر لوگوں کی آوازیں بھی آتی رہی تھیں۔ مگر اس کے بعد ایک ایک کر کے یہ آوازیںآنا بند ہو گئیں۔ جب یہ آوازیں آنا بند ہو گئیں تو میں نے چیخ چیخ کر پوچھا کہ کوئی ہے۔ مگر مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔‘
حمید اللہکہتے ہیں کہ ’مجھے سمجھ آ رہا تھا کہ شاید میرے ساتھی سمندر میں مجھ سے دور ہو رہے ہیں۔ چیخنے اور آوازیں دینے سے جسم میں طاقت ختم ہو رہی تھی جب کہ مجھے یہ لگ رہا تھا کہ اگر مجھے زندگی کے لیے جدوجہد کرنا ہے تو پھر اپنی طاقت اور حوصلہ بحال رکھناہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد میں نے اپنی توجہ تیرنےپر رکھی اور یہ امید رکھی کہ کسی جہاز یا لانچ کی روشنی مجھ پر پڑے گی اور وہ مجھے مدد فراہم کردیں گے۔‘
’آٹھگھنٹے تک سمندر میں رہا‘
حمید اللہکہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں پتا کہ میں سمندر میں کس طرف تیر رہا تھا۔ بس ہر طرف پانی ہی تھا۔ میں کبھی خود کو پانی کی لہروں پر چھوڑ دیتا کبھی تیرتا اور کبھی ایک ہاتھ اور کبھی دوسرا ہاتھ اٹھا کر اوپر کرتا کہ کوئی جہاز یا لانچ کا عملہ مجھے دیکھ لے۔‘
’شروع میں تو امید تھی کہ ایسا جلدی ہو جائے گا کہ جس مقام پر ہماری لانچ کو حادثہ پیش آیا وہ مصروف سمندری روٹ ہے۔ مگر کافی دیر بعد بھی کوئی مدد نہیں ملی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنی طاقت بچانے کی کوشش کررہا تھا۔ میرے بازو اور ٹانگیں شل ہو چکے تھے۔ کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ جب بازو اور ٹانگیں شل ہو جاتیں تو میں بالکل خود کو لہروں پر چھوڑ دیتا تھا۔ جب محسوس ہوتا کہ یہ لہریں مجھے ڈبو دیں گی تو میں پھر تھوڑا بہت تیرنے کی کوشش کرتا تھا۔‘
حمید اللہ کہتے ہیں کہ ’رات کا اندھیرا ختم ہی نہیں ہو رہا تھا۔ مجھے ایک موقعپر ایسا لگا کہ بس اب ہمت باقی نہیں رہی اور مجھے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ میں دل میں کلمے بھی پڑھ رہا تھا۔ لگتا یہ ہی تھا کہ میں سمندری مخلوق کی خوراک بن جاؤں گا۔ ایسے میں اچانک مجھے ایک جہاز کی روشنی نظر آئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ جہاز سمندر ہی میں لنگر انداز ہوا تھا۔ اس میں شاہد کچھ خرابی تھی۔ ’انھوں نے میرا ہاتھ دیکھ لیا اور پھر وہ فوراً حرکت میں آئے۔ سیڑھی کے ساتھ اپنے عملے کا ایک رکن نیچے اتارا جس نے مجھتک رسی اور لائف رنگ پہنچائی۔ بس یہ دیکھ کر میں نے اپنی ہمت کو ایک بار پھر یکجا کیا کہ اب مجھے مدد مل گئی ہے۔ مجھے آٹھ گھنٹے بعد مدد ملی تھی۔‘
’جہاز میں پہنچتے ہی بے ہوش ہو گیا‘
حمید اللہ کہتے ہیں کہ ’رسی اور لائف رنگ کی مدد سے میں سیڑھی تک پہنچا جہاں پر عملے کا ایک رکن موجود تھا جس نے مجھے تھاما اور حوصلہ دیا اور پھر مجھے تھام کر اوپر جہاز تک لے کر گیا۔ جب میں جہاز میں پہنچا تو بے ہوش ہوگیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں کئی گھنٹے بے ہوش رہا اس موقع پر اس جہاز کے عملے جس میں اکثریت انڈینز کی تھی جب کہ دیگر ممالک کے عملے کے علاوہ ایک پاکستانی شہری بھی تھا، نے میرا بہت خیال رکھا۔ مجھے ہر ممکنہ علاج معالجہ فراہم کیا۔ جہاز ٹھیک ہونے کے بعد انھوں نے اپنا روٹ تبدیل کیا اور مجھے عمان کی بندرگاہ پر حکام کے حوالے کردیا تھا۔‘
حمید اللہ کہتے ہیں کہ ’عمان کے حکام نے مجھے اپنی تحویل میں لے کر تمام سہولتیں فراہم کیں اور پاکستانی سفارت خانے کے ساتھ میرا رابطہ کروایا اور پھر مجھے سفارت خانے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ جنھوں نے مجھے ایک دن بعد پاکستان پہنچا دیا۔‘
فائل فوٹوتلاش کا آپریشن ختم
عمان میں پاکستانی سفارت خانے نے بنوں میں موجود لاپتہ لوگوں کے رشتہ داروں کو اطلاعدی ہے کہ عمانی حکام نے بھرپور تلاش کے بعد اب آپریشن ختم کردیا ہے۔
لواحقین کو دی گئی اطلاع میں کہا گیا ہے کہ اس حادثے میں صرف ایک شخص حمید اللہ زندہ بچ سکے جنھیں ایک عمانی جہاز نے ریسکیو کیا اور تمام ضروری کارروائیاں مکمل کر کے انھیں 15 ستمبر 2025 کو پاکستان روانہ کی گیا۔
اس حادثے میں سمندر میں لاپتہ ہونے والوں میں سے 14 افراد کا تعلق بنوں کے ایک ہی علاقے خوجڑی جانہ سے ہے جس میں ضیا اللہ، برکت اللہ، شیراز خان، محمد یاسر، نسیم خان، وقاص خان، وسیم خان، زوہیب خان، خامد خان، شفیع اللہ خان، محمد زبیر خان، عمر علی خان اور دو بھائی خوب نواز خان اور دل نواز خان شامل ہیں جبکہیہ سب آپس میں رشتہ دار بھی ہیں۔
لاپتہ افراد میں بنوں کے دوسرے علاقے ملنگ خوجڑیکے عمر علی خان اور بیڑی خیل منڈان کے منیر خانکے علاوہ ضلع مظفر گڑھ کےپرویز مشرف اور محمد راشد شامل ہیں۔
’واپسی پر چھوٹے بھائی کی شادی کروانا تھی‘
حادثے میں سمندر میں لاپتہ ہونے والے سگے بھائیوں خوب نواز خان اور دل نواز خان کے خالہ زاد بھائی شاہ فیاضخان بتاتے ہیں کہ دل نواز نے سوگواروں میں تین بیٹیاں اور بیوہ چھوڑی ہیں جبکہ خوب نواز خان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دونوں بھائی کافی عرصے سے اس پیشے سے وابستہ تھے۔ جب ایک بھائی سمندر میں جاتا تو دوسرا بھائی گاؤں میں ہوتا کہ وہ گھر والوں کا خیال رکھ سکے۔ مگر اس دفعہیہدونوں بھائی اکھٹے گئے تھے تاکہ وہ ایک ساتھ واپس آ سکیں اور ایک ساتھگاؤں میں رہ کر چھوٹے بھائی خوب نواز خان کی شادی کروا سکیں۔‘
شاہفیاض خان کہتے ہیں کہ ’دل نواز خان نے اپنی والدہ سے کہا تھا کہ اس دفعہ ہمیں اکھٹے جانا چاہیے تاکہ ہم دونوں پیسے کما کر واپس آ سکیں اور پھر شادی ممکن ہو سکے۔ ہم اکثر الگ الگ جاتے ہیں جس وجہ سے ہمارے پاس پیسے نہیں بچتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ لوگ ابتدائی طور پر تین ماہ کے لیے گئے تھے۔ اگر ان کی اچھی مزدوری ہوجاتی تو یہ تین ماہ بعد واپس آ جاتے اور اگر مزدوری توقع کے مطابق کم ہوتی تو پھر یہ لوگ مزید بھی رک سکتے تھے۔‘
لاپتہ ہونے والوں میں اٹھارہ سالہ زوہیب خان بھی شامل ہیں۔شہاب خان ان کے بھائی ہیں۔
شہاب خان کہتے ہیں کہ زوہیب نے سوگواروں میں تین بھائی، دو بہنیں اور والدین چھوڑے ہیں۔ وہ دوسری مرتبہ اس مہم پر جا رہے تھے۔
شہاب خان کا کہنا تھا کہ ’جب وہ پہلی مرتبہ گئے تھے تو انھوں نے اپنے اس سمندری سفر کی ٹاک ٹاک بنائی تھی جس کے بعد وہ علاقے میں بہت مشہور ہو گئے تھے اور لوگ اب بھی انھیں یاد کرتے ہیں۔‘
فائل فوٹواختر علی شاہ مقامی مشر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت سارا علاقہ سوگ میں ہے۔
اُن کے بقول ’ہم لوگ نہ صرف ایک علاقے کے رہنے والے ہیں بلکہ آپس میں رشتہ دار بھی ہیں۔ ہمارے لیے یہ بہت بڑا سانحہ ہے اور کئی گھرانے ایسے ہیں جہاں ابھی تک والدین اس حادثے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سمندر میں شاید انٹرنیٹ نہیں چل رہا ہے اس لیے رابطہ نہیں ہو رہا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس میں اکثریت تو ان لوگوں کی ہے جو اپنے خاندانوں کے لیے روزی روٹی کا واحد ذریعہ تھا۔ اب ان خاندانوں سے روزی روٹی کا واحد آسرا بھی چھن چکا ہے۔
اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ خوجڑی جانہ اور قریب کے علاقے کے لوگ اپنی تین نسلوں سے اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ اس کا آغاز 80 کی دہائی میں ہوا تھا جب ہمارے کچھبزرگ روزگار کے لیے کراچی گئے تھے۔ جہاں پر ان کا تعارف اس پیشے سے ہوا تو انھوں نے کشتی رانی، ماہی گیری کا ہنر سیکھا اور پھر یہ ہنر اپنے بچوں میں منتقل کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقے میں روزگار کے مواقع نہیں ہیں لہذا جب یہ ہنر نسل در نسل منتقل ہوا تو اکثر لوگوں نے اس پیشے کو اختیار کر لیا۔ اب یہخوجڑی جانہ کا خاندانی پیشہ کہلایا جاتا ہے۔ اب کچھ لوگوں کی اپنی لانچیں بھی ہیں اور وہ بلوچستان، کراچی اور ایران میں لانچوں کے مالکان کے ساتھبھی کام کرتے ہیں۔