کے ویزا کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ درخواست دہندگان کو اسے حاصل کرنے کے لیے اپنے چینی آجر یا ادارے سے دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس ویزا کو جاری کرنے کے عمل کو بھی آسان بنایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کے ویزا نئے گریجویٹس، آزاد محققین اور کاروباری افراد کے لیے زیادہ آسان ہے۔
چین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ نے اس ویزا سکیم کو متعارف کروانے کے حکم نامے پر دستخط کیے ہیںامریکہ کی طرف سے ایچ ون بی ویزا کی فیس ایک لاکھ ڈالر تک بڑھائے جانے بعد چین کا ’کے‘ ویزا ایک بار پھر سے لوگوں کی گفتگو کا حصہ بن گیا ہے۔
امریکہ کا ایچ ون بی ویزا سنہ 1990 میں متعارف کروایا گیا تھا۔ یہ ویزا زیادہ تر سائنس، انجینیئرنگ، ٹیکنالوجی اور ریاضی کے ہنرمند کارکنوں کو دیا جاتا ہے۔
امریکہ نے سالانہ 65 ہزار ایچ ون بی ویزے جاری کرنے کی حد مقرر کر رکھی ہے جبکہ یہ ویزے ان اضافی 20 ہزار افراد کو دیے جاتے ہیں جو امریکی تعلیمی اداروں سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرتے ہیں۔
امیگریشن پر تحقیق کرنے والی تنظیم باؤنڈ لیس کے مطابق تقریباً 73 فیصد ایچ ون بی ویزے انڈین شہریوں کو جاری کیے جاتے ہیں جبکہ 12 فیصد چینی شہریوں کو ملتے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیاد ایچ ون بی ویزے انڈین شہریوں کو جاری ہوئے، جبکہ اس فہرست میں دوسرا نمبر چینی شہریوں کا ہے۔
'کے' ویزا پر چین آنے والے لوگ تعلیم، ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کام کر سکیں گےچین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ نے اس ویزا سکیم کو متعارف کروانے کے حکم نامے پر دستخط کیے ہیں۔
ایچ ون بی ویزا، دنیا بھر سے ہنر مند افراد کو امریکہ میں ملازمت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملازمت کے لیے امریکہ آنے والے غیر ملکی ہنر مند افراد کے لیے سالانہ ویزا فیس پندرہ سو ڈالر سے بڑھا کر ایک لاکھ ڈالر کر دی ہے اور اس کا اطلاق 21 ستمبر سے نافذ العمل ہو گا۔
امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو ہر درخواست دہندہ کے لیے چھ سال تک اتنی ہی رقم ادا کرنا ہو گی۔
اُن کے بقول کمپنی کو یہ دیکھنے کا موقع بھی ملے گا کہ کیا فلاں شخص اتنا اہم ہے کہ اس کے لیے حکومت کو سالانہ ایک لاکھ ڈالر ادا کیے جائیں یا اسے گھر جانا چاہیے تاکہ اس کی جگہ امریکی شہری کی خدمات حاصل کی جائیں۔
دوسری جانب چین نے اگست 2025 میں ’کے‘ ویزا کے اجرا کا اعلان کیا تاکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد کوچین لایا جا سکے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا کے مطابق یہ سکیم یکم اکتوبر سے شروع ہوگی۔
نیوز ویک نے چین کی وزارت خارجہ کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ امریکہ کی نئی ویزا پالیسی پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہی ہے، تاہم وزارت خارجہ نے یہ ضرور کہا ہے کہ چین دنیا بھر سے بہترین ٹیلنٹ کو خوش آمدید کہتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیاد ایچ ون بی ویزے انڈین شہریوں کو جاری ہوئےکے ویزا کی خصوصیات
شنہوا کی خبر کے مطابق چین میں موجودہ 12 قسم کے ویزوں کے برعکس ’کے‘ ویزا پر آنے والوں کو ملک میں داخلے، میعاد کی مدت اور یہاں قیام کے حوالے سے مزید سہولیات حاصل ہوں گی۔
’کے‘ ویزا پر چین آنے والے لوگ تعلیم، ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کام کر سکیں گے اور صنعتیں اور کاروبار بھی شروع کر سکیں گے۔
’کے‘ ویزا کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ درخواست دہندگان کو اسے حاصل کرنے کے لیے اپنے چینی آجر یا ادارے سے دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس ویزا کو جاری کرنے کے عمل کو بھی آسان بنایا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کے ویزا نئے گریجویٹس، آزاد محققین اور کاروباری افراد کے لیے زیادہ آسان ہے۔
اس ویزا کے لیے انھیں چین میں ملازمت کی پیشکش کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ یہاں آ کر نوکری بھی تلاش کر سکتے ہیں۔
درخواست دہندگان کو 'کے' ویزا کے لیے عمر، تعلیم اور تجربے کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگااس ویزے کے لیے کون اہل ہے؟
’کے‘ ویزا ایسے غیر ملکی افراد کو دیا جائے گا جنھوں نے چین یا بیرون ملک کسی نامور یونیورسٹی یا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ یا ریاضی میں گریجویشن یا اعلیٰ ڈگری حاصل کی ہے۔
پیشہ ور افراد جو کسی تسلیم شدہ ادارے میں پڑھا رہے ہیں یا تحقیق کر رہے ہیں وہ بھی درخواست دے سکتے ہیں۔
درخواست دہندگان کو ’کے‘ ویزا کے لیے عمر، تعلیم اور تجربے کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا اور مطلوبہ دستاویزات جمع کرانا چاہیے۔
’کے‘ ویزا بنیادی طور پر چین کے ’آر‘ ویزا کی نئی شکل ہے، جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہترین ٹیلنٹ کو راغب کرنے کے لیے سنہ 2013 میں متعارف کروایا گیا تھا۔
امریکہ کا ایچ ون بی ویزا سنہ 1990 میں متعارف کروایا گیا تھااب امریکہ کی جانب سے ایچ ون بی ویزا کی فیس بڑھانے اور ٹیکنالوجی سیکٹر کے ضوابط کو سخت کرنے کے بعد چین انڈین انجینیئرز اور ٹیکنالوجی کے پروفیشنلز کے لیے ایک ترجیحی منزل بن سکتا ہے۔
حالیہ برسوں میں چین نےسائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے اور مصنوعی ذہانت کے شعبے میں امریکہ کو چیلنج کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی بڑی طاقت بننا چاہتا ہے۔ اس نے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی، خلائی مشن، دھاتی ٹیکنالوجی، آئی ٹی سیکٹر اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔
انجینیئرز کے لیے فوائد
نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سینٹر فار چائنا اینڈ ساؤتھ ایسٹ ایشین سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اروند یلاری کہتے ہیں کہ 'چین نے شنگھائی اور شینزین سمیت کئی صوبوں میں ہائی ٹیکنالوجی پارک بنائے ہیں۔ چین نے ان میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ سنہ 2006-2007 کے بعد سے، بڑے پیمانے پر چینی حکومت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ادارے تعمیر کر رہی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا میں کریٹیکل انجنیئرنگ کے شعبے میں انجینیئرز کی بڑی تعداد ہے۔ اگر اس میں سے ایک فیصد بھی چین جاتے ہیں تو اسے اس شعبے میں سبقت مل سکتی ہے۔ چینی کمپنیاں ٹیکنالوجی کی تحقیق اور اختراع کے لیے اپنی حکومت سے سستے قرضے لیتی ہیں، لیکن ان کی کارکردگی خراب ہے۔ اس لیے انڈین انجینیئرز انھیں اس بحران سے بچا سکتے ہیں۔‘
اروند یلاری کا کہنا ہے کہ 'صرف چین ہی نہیں، تائیوان نے بھی ٹیک پروفیشنلز کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔ لہٰذا جن لوگوں کو ایچ ون بی ویزا نہیں ملتا وہ تائیوان جا سکتے ہیں۔ ویزا فیس میں اضافے سے امریکہ کو نقصان پہنچے گا اور ابھرتی ہوئی ایشیائی معیشتوں کو فائدہ پہنچے گا۔'
ان کے مطابق یہ چین کے لیے ایک موقع ہے۔ اسی لیے اب بیجنگ نے ’کے‘ ویزا کا اجرا شروع کیا ہے اور یہ اس کا مؤقف بھی رہا ہے کہ چین دنیا کے بہترین ٹیلنٹ کے لیے کافی مواقع فراہم کرتا ہے۔'