لداخ میں پُرتشدد مظاہرے اور کرفیو کا نفاذ: احتجاجی مظاہرین انڈین حکومت سے کیا چاہتے ہیں؟

انڈیا میںمرکزی زیرِ انتظام علاقے لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں چار افراد ہلاک اور کم از کم 59 افراد زخمی ہو گئے ہیں جس کے بعد انڈین سکیورٹی فورسز نے لیہہ میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔
 لداخ میں مظاہرے
Reuters
مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں چار افراد ہلاک ہوئے ہیں

انڈیا میںمرکزی حکومت کے زیرِ انتظام علاقے لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں چار افراد ہلاک اور کم از کم 59 افراد زخمی ہو گئے ہیں جس کے بعد انڈین سکیورٹی فورسز نے لیہہ میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔

پرتشدد واقعات میں زخمی ہونے والوں میں درجنوں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

ان مظاہروں کو 1989 کے بعد لداخ میں ہونے والے سب سے پرتشدد مظاہرے کہا جا رہا ہے۔ کم از کم چھ زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔

یہ احتجاج وفاق کے زیر انتظام علاقے میں جاری ایک بڑی تحریک کا حصہ ہیں، جو زمین اور زرعی فیصلوں پر خود مختاری حاصل کرنے کے لیے انڈین حکومت سے لداخ کو ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انڈیا کی مرکزی حکومت نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ لوگ لداخ کے لوگوں کے ساتھ مکمل ریاست کا درجہ دینے اور چھٹے شیڈول کی توسیع پر ہونے والے مذاکرات کی پیش رفت سے خوش نہیں اور اس میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔

حکومت نے ان پرتشدد کارروائیوں کا الزام احتجاج کی قیادت کرنے والے سماجی کارکن سونم وانگچک پرعائد کیا، تاہم سونم اس الزام کی سختی سے تردید کررہے ہیں۔

سرکاری اہلکاروں نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے شہر بھر میں بڑی تعداد میں تعینات پولیس اور نیم فوجی دستوں نے آنسو گیس کے شیلز استعمال کیے۔

مظاہروں کی وجہ کیا بنی؟

لداخ میں مظاہرے
Getty Images
مظاہرین نے بھارتی جنتا پارٹی کے ہیڈ کوارٹر کو بھی نشانہ بنایا

لداخ کی ایک تنظیم کے یوتھ ونگ نے منگل کی شام 10 ستمبر سے بھوک ہڑتال کرنے والے 15 افراد میں سے دو کی حالت خراب ہونے کے بعد احتجاج کی کال دی تھی۔

بدھ کے روز نوجوانوں کے ایک گروہ کی جانب سے لداخ کے دارالحکومت لیہہ کو بند کرنے کی کال کے جواب میں سینکڑوں افراد سڑکوں پر نکل آئے جن میں سے بعض مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی۔

اس کے بعد مظاہرین نے مرکز میں برسرِ اقتداربھارتی جنتا پارٹی کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا اور متعدد گاڑیوں کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔ جوں جوں وقت گزرا، کالے دھوئیں کے بادل اور آگ کے شعلے دور سے دکھائی دینے لگے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ ’صورتحال پر قابو پانے کے لیے شہر بھر میں بڑی تعداد میں تعینات پولیس اور نیم فوجی دستوں نے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔‘

لیفٹیننٹ گورنر کویندر گپتا نے ان واقعات کو ’دل دہلا دینے والا‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج جو کچھ ہوا وہ اچانک نہیں ہوا بلکہ ایک سازش کا نتیجہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم یہاں کا ماحول خراب کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔

انھوں نے گذشتہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’لداخ میں اس سے قبل 27 اگست 1989 کو بڑے پیمانے پر اس وقت پرتشدد واقعات ہوئے جب یونین ٹیریٹری کا درجہ مانگنے والی تحریک کے دوران پولیس کی فائرنگ میں تین افراد مارے گئے تھے۔‘

’جین زی‘ طرز کے مظاہروں کی گونچ

انڈیا کی وزارت داخلہ نے بدامنی کے لیے بھوک ہڑتال کرنے والے سونم وانگچک کو ان پرتشدد کارروائیوں کے لیے مورد الزام ٹھہرایا اور دعویٰ کیا کہ انھوں نے اشتعال انگیز بیانات دے کر ہجوم کو اکسایا تھا۔

’انھوں نے بھوک ہڑتال جاری رکھی اور بہارِ عرب (عرب سپرنگ) کی طرز کے احتجاج اور نیپال میں ہونے والے جین زی (جنریشن زی) کے مظاہروں کے حوالے اور اشتعال انگیز بیانات دے کر لوگوں کو گمراہ کیا۔‘

دوسری جانب بی جے پی نے الزام لگایا کہ یہ تشدد کانگریس کی ’ناپاک سازش‘ کا حصہ ہے تاکہ ملک میں بنگلہ دیش، نیپال اور فلپائن جیسی صورتحال پیدا کی جائے۔

دہلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اورحکومتی ترجمان سمبیت پاترا نے کہا کہ ’آج، لداخ میں مظاہروں میں شامل افراد کو ’جنریشن زی‘ کی قیادت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ جین زی کا نہیں تھا، بلکہ کانگریس کا احتجاج تھا۔‘

وفاقی حکومت کا مؤقف

مقامی سماجی کارکن اور انجینیئر سونم وانگچک لداخ کو ریاست کا درجہ دینے کے مطالبے کے لیے ہونے والے مظاہروں میں سب سے آگے رہے ہیں ۔

سونم اور دیگر کارکنوں کا الزام ہے کہ لداخ کی حیثیت میں تبدیلی کے بعد سے سیاست میں مقامی رہائشیوں کو زیادہ اختیارات دینے کے وعدے پورے نہیں ہوئے ہیں۔

بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ لداخ کی سابقہ ​​خصوصی حیثیت کھونے سے خطے کے معاشی مفادات کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور ثقافت، زمین اور وسائل پر مقامی کنٹرول کمزور ہو گیا ہے۔

تاہم وفاقی حکومت اس بات سے انکاری ہے۔ حکومت کے مطابق وہ سونم وانگچک اور دیگر کارکنوں کے ساتھ ان کے مطالبات پر کام کر رہی ہے لیکن بات چیت میں ’کچھ سیاسی طور پر متحرک افراد پیش رفت سے خوش نہیں تھے۔‘

بدھ کے روز وفاق کے زیر اہتمام علاقے کے انچارج لیفٹیننٹ گورنر کویندر گپتا نے کہا کہ تشدد کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

’گذشتہ دو دنوں سے لوگوں کو اکسانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور یہاں ہونے والے احتجاج کا موازنہ بنگلہ دیش اور نیپال میں ہونے والے احتجاج سے کیا گیا ہے ۔ اس سے ایک سازش کی بو آ رہی ہے۔‘

یاد رہے کہ مظاہرین اور حکام کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور جمعرات اور جمعہ کو ہونے والا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی چھ اکتوبر کو خطے کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کرے گی۔

مظاہرین کے مطالبات

لداخ میں ہونے والے مظاہروں کے حوالے سے احتجاجی مظاہرین کے چار مطالبات ہیں:

  • لداخ کو ریاست کا درجہ دینا
  • چھٹے شیڈول میں توسیع
  • لیہہ اور کارگل کے لیے لوک سبھا میں الگ نشستیں
  • ملازمتوں کا حصول

یاد رہے کہ لداخ کی آبادی تقریباً تین لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور اس کی سرحدیں چین اور پاکستان سے ملتی ہیں۔

تشدد کی لپیٹ میں آنے والے علاقے لیہہ میں بدھ برادری کی اکثریت ہے جو کئی دہائیوں سے اپنے لوگوں کے لیے الگ علاقے کا مطالبہ کر رہے ہے۔

دوسری جانب مسلم اکثریتی ضلع کارگل تاریخی طور پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ساتھ ضم ہونا چاہتا تھا۔

لیکن 2019 کے بعد سے دونوں کمیونٹیز ایک ساتھ مل کر لداخ کے لیے ریاستی حیثیت کی بحالی کے ساتھ ساتھ زیادہ خودمختاری کا مطالبہ کرتی ہیں جس سے انھیں ملازمتوں اور رہائش کے لیے زمین کا کوٹہ ملے گا۔

تشدد کو دیکھ کر سونم وانگچک نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا اور نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ توڑ پھوڑ میں ملوث نہ ہوں۔

انھوں نے کہا کہ ’نوجوانوں کو تشدد بند کرنا چاہیے کیونکہ اس سے ہماری تحریک کو نقصان پہنچتا ہے اور حالات خراب ہوتے ہیں۔‘

وانگچک نے کہا کہ ’یہ لداخ کے لیے اور ذاتی طور پر میرے لیے سب سے افسوسناک دن ہے۔ کیونکہ ہم گذشتہ پانچ سالوں سے جس راستے پر چل رہے ہیں وہ پرامن ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US