اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے اس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ متاثرہ فیملی کے ’دُکھوں کا مداوا پیسوں سے نہیں کیا جاسکتا۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے اس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ متاثرہ فیملی کے ’دُکھوں کا مداوا پیسوں سے نہیں کیا جاسکتا‘پاکستان کی وفاقی حکومت نے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے خاندانوں کی مالی معاونت کے لیے رقم کی فراہمی کا عمل شروع کر دیا ہے۔
جمعے کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ شخص محمد عبداللہ عمر کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔ اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور وزارت دفاع کے نمائندے کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے متاثرہ فیملی کو 50 لاکھ روپے کی رقم منتقل کر دی ہے۔
محمد عبداللہ عمر فوج سے ریٹائرڈ ہونے والے کرنل خالد عباسی کے بیٹے ہیں۔ اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ انھیں 2015 میں اسلام آباد سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے اس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ متاثرہ فیملی کے ’دُکھوں کا مداوا پیسوں سے نہیں کیا جاسکتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پیسہ جان کا نعم البدل نہیں‘ اور یہ مقدمہ ’ابھی بھی وہیں کھڑا ہے یعنی بندے کو بازیاب کیا جائے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو حکم دیا ہے کہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈی جی یا سیکٹر کمانڈر عدالت کو جبری طور پر لاپتہ افراد سے متعلق ان کمیرہ بریفنگ دیں۔
عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ لا افسر آئندہ سماعت سے قبل عدالت کو اس افسر کے بارے میں آگاہ کریں گے اور بتایا جائے گا کہ خفیہ ادارے کا کون سا افسر جبری طور پر لاپتہ افراد سے متعلق بریف کرے گا۔
واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے گذشتہ برس اگست میں ایک پالیسی کی منظوری دی تھی جس کے تحت ایسے افراد جو کہ گذشتہ پانچ سال سے لاپتہ ہیں اور مسنگ پرسن سے متعلق کمیشن نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ان افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے، ان کے ورثا کی مالی معاونت کی جائے گی۔ حکومت نے اسے 'فیملی سپورٹ پیکج' کا نام دیا ہے۔
جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن کی جانب سے پہلے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ایسے افراد کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے جنھیں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ کمیشن کے مطابق یہ افراد گذشتہ پانچ سال سے بازیاب نہیں ہوئے۔
تاہم اب اسلام آباد ہائی کورٹ کو یہ بتایا گیا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد ساڑھے پانچ سو سے زیادہ ہے۔ عدالت نے اس درخواست کی سماعت چھ اکتوبر تک ملتوی کی ہے۔
سماعت کا احوال: ’خفیہ ادارے کے افسر عدالت کو بتائیں بندہ زندہ ہے یا مر گیا‘
محمد عبداللہ عمر کی بازیابی کے لیے ان کے والد کی طرف سے دائر کی گئی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔
وفاق کے نمائندوں کی جانب سے متاثرہ شخص کی فیملی کو رقم کی منتقلی سے متعلق آگاہ کیا گیا۔
اس کے بعد عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کسی کی مالی معاونت کرکے کسی پر احسان نہیں کر رہی بلکہ ریاست کی اولین ترجیع تو یہ ہونی چاہیے کہ جن افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے انھیں بازیاب کروایا جائے۔
انھوں نے کہا کہ جبری گمشدگی 'انتہائی سنگین معاملہ ہے' اور اس حوالے سے عدالت کو بریف کیا جائے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انٹیلیجنس اداروں کے فیلڈ افسر عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سامنے تو یہ افسران پیش ہوتے رہے ہیں لیکن اب عدالت بُلاتی ہے تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 'پتا نہیں کیوں ریٹائرڈ جج کے پاس تو وہ (خفیہ اداروں کے اہلکار) پیش ہو جاتے ہیں اور یہاں عدالت میں پیش نہیں ہوتے۔'
کمرۂ عدالت میں موجود وزارت دفاع کے نمائندے نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت کسی افسر کا نام نہ لکھے جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'میں کسی افسر کا نام نہیں لکھا رہا۔ صرف عہدہ لکھ رہا ہوں۔'
انھوں نے کہا کہ 'دس سال پہلے دہشت گردی کا منظر نامہ کچھ اور تھا، آج کچھ اور ہے۔' جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ 'کسی نے تو عدالت کو سمجھانا ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔ آج تک کوئی عدالت کو نہیں سمجھا سکا۔'
انھوں نے کہا کہ 'بے شک خفیہ ادارے کے پانچ افسر آجائیں۔ ہو سکتا ہے کہ عدالت کو ایک افسر کی بات سمجھ نہ آئے۔'
انھوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'چھ اکتوبر کو بریفننگ ان کیمرہ ہوگی، آپ نے بتانا ہے کہ کون سا افسر پیش ہوگا۔'
انھوں نے کہا کہ 'آپ سب قابل احترام ہیں۔ جو بات ہوگی عدالت میں ہوگی۔'
جسٹس محسن اختر کیانی نے وزارت دفاع کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'یقین کریں میں کسی کو کھاوں گا نہیں۔' انھوں نے کہا کہ 'مذکورہ شخص کی بازیابی سے متعلق سات سال سے ججمنٹ دی ہوئی ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔'
انھوں نے کہا کہ 'کسی سٹیج پر جبری گمشدگیوں میں ملوث افراد کے خلاف کریمینل کارروائی کی جانب یہ معاملات جائیں گے۔' انھوں نے کہا کہ 'یہ تو پارلیمنٹ کا کام ہے جنھوں نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔'
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سوال اب بھی وہیں کھڑا ہے، لاپتہ شہری کہاں ہے کب پیش کریں گے۔'
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کہ 'ادارے کوشش کر رہے ہیں۔ پوری جہدوجہد کر رہے ہیں' جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 'مسنگ پرسن کی درخواست کو دس سال ہوگئے ہیں۔'
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ انھوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ میں بھی کہا تھا کہ 'خفیہ اداروں کے اہلکار ان کیمرہ آجائیں لیکن پتہ نہیں کیوں اس لارجر بینچ میں شامل ہمارے جج صاحب معذرت کر گئے تھے۔'
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ خفیہ ادارے کے سینیئر افسر کو نہ بلائیں جس پر محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ 'ریاست کے پاس پیسوں کی کمی نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسئلہ ایسے حل نہیں ہوگا۔'
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ 'افسران آ کر بس عدالت کو یہ بتا دیں کہ بندہ مارا گیا، ملک چھوڑ گیا یا چھپ کر بیٹھا ہوا ہے۔'
انھوں نے سوال کیا کہ 'کیا جبری طور پر لاپتہ ہونے والا شخص افغانستان کی جیل میں ہے؟ یہ بتانا ہے وہ زندہ ہے یا مر گیا۔'
عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ جس مرضی افسر کو بھیج دیں، صرف آ کر سمجھا دیں کہ مسنگ پرسن کہاں ہے۔'
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ خفیہ ادارے کے افسر 'ریکارڈ کے ساتھ آ جائیں، جیسے مرضی آجائیں' اور اس ضمن میں عدالت اپنے آرڈر میں کسی کا نام نہیں لکھ رہی۔
عدالت نے اس درخواست کی سماعت چھ اکتوبر تک ملتوی کی ہے۔
محمد عبد اللہ عمر کون ہیں؟
محمد عبداللہ عمر انٹرنیشل اسلامی یونیورسٹی میں لا کے طالب علم تھے۔ ان کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ انھیں 20 جون 2015 میں اسلام آباد میں واقع ایک نجی سکول کے باہر سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔
عبداللہ عمر کی جبری گمشدگی سے پہلے انھیں سابق وفاقی وزیر شہباز بھٹی اور ایف آئی اے کے سابق پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار کے قتل کے مقدمات میں گرفتار کیا گیا تھا۔
تاہم اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔
محمد عبداللہ کے والد اور درخواست گزار کرنل ریٹائرڈ خالد عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان مقدمات میں دیگر تمام ملزمان عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیے گئے ہیں جن میں پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی کامران عادل کے دو بھائی بھی شامل ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے خالد عباسی 2005 میں آرمی سے کرنل رینک کے عہدے پر پہنچنے کے بعد ریٹائر ہوگئے تھے۔