فیلڈ مارشل عاصم منیر کے عہدے کا مخفف بھی ’ایف ایم‘ ہے لیکن وہ وزیرِ خارجہ نہیں بلکہ پاکستانی فوج کے سربراہ ہیں۔ حالیہ برسوں میں وہ متعدد ممالک کا دورہ کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ ان دوروں پر وہ کبھی وزیرِ اعظم شہباز شریف سمیت دیگر حکومتی شخصیات کے ہمراہ نظر آئے اور کبھی تنہا۔
چہرے پر مسکراہٹیں، پُراعتماد انداز اور ایک دوسرے کے لیے تعریفی الفاظ کا استعمال۔۔۔ کیا کچھ برسوں پہلے تک کسی نے سوچا تھا کہ جب پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اپنے ’ایف ایم‘ کے ساتھ وائٹ ہاؤس جائیں گے تو یہ مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔
’ایف ایم‘ کا مخفف اکثر انگریزی زبان میں فارن منسٹر (وزیرِ خارجہ) کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن یہاں ’ایف ایم‘ سے مراد فیلڈ مارشل عاصم منیر ہیں جو جمعرات کی شب امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم سے ملاقات کے لیے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے ہمراہ وائٹ ہاؤس گئے تھے۔
کچھ برسوں پہلے تک ٹرمپ پاکستان پر ’دہشتگردوں کو پناہ دینے‘ کا الزام عائد کرتے تھے اور پھر اپنے پہلے دور صدرات میں انھوں نے اس وقت کے پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کو اپنا ’دوست‘ کہا تھا لیکن ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد پاکستان اور امریکہ تعلقات ایک بار پھر اُتار چڑھاؤ کا شکار ہو گئے۔ صدر جو بائیڈن کی حکومت میں ان کی کسی بھی پاکستانی رہنما سے فون پر بات یا وائٹ ہاؤس میں ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
لیکن جمعرات کو صدر ٹرمپ پاکستان کے سیاسی اور عسکری رہنماؤں سے ملاقات سے قبل ہی وزیرِ اعظم شہباز شریف اور پاکستانی فوج کے سربراہ عاصم منیر کو ’عظیم رہنما‘ اور ’بہترین شخصیات‘ قرار دیتے ہوئے نظر آئے۔
خیال رہے کہ یہ وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کی وزیرِ اعظم شہباز شریف سے پہلی ملاقات تھی لیکن وہ اس سے قبل فیلڈ مارشل عاصم منیر سے رواں برس جون میں وائٹ ہاؤس میں ملاقات کر چکے ہیں۔
ہم یہ جاننے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے سے چاہتے کیا ہیں اور پاکستان کی خارجہ پالیسی میں پاکستانی فوج کے سربراہ کا کیا کردار ہے؟
پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟
صدر ٹرمپ اور پاکستانی رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گہا کہ شہباز شریف نے امریکی کمپنیوں کو پاکستان کے زرعی، معدنیات اور توانائی سے متعلق شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم ہاؤس کے مطابق اس ملاقات میں خطے کی صورتحال اور انسدادِ دہشتگردی میں تعاون کی بات بھی کی گئی۔
صدر ٹرمپ رواں برس مئی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ رُکوانے کا سہرا اپنے سر سجاتے رہے ہیں اور وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران پاکستانی رہنماؤں نے پاکستان انڈیا کے مابین جنگ روکنے اور قیام امن کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے اُنھیں ’مین آف پیس‘ قرار دیا۔
اس بیان سے یہ واضح نہیں ہو رہا کہ صدر ٹرمپ اور پاکستانی رہنماؤں کی ملاقات میں ہوا کیا تاہم تجزیہ کاروں اور پاکستان کی خارجہ پالیسی میں آنے والی حالیہ تبدیلوں سے واقف افراد کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کو ایک، دوسرے کی ضروریات کا علم ہے اور دونوں ہی اپنے مقاصد پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی دنیا بھر میں نایاب معدنیات میں دلچسپی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس یہ معدنی ذخائر موجود ہیں۔
رواں مہینے یو ایس سٹریٹجج میٹلز (یو ایس ایم ایم) نے پاکستان میں معدنیات کے شعبے میں 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری یادداشت پر بھی دستخط کیے ہیں۔
امریکہ میں مقیم ماہرِ خارجہ امور سحر خان کہتی ہیں کہ ’صدر ٹرمپ لین دین پر یقین رکھتے ہیں اور انھیں پاکستان میں نایاب معدنیات نظر آ رہی ہیں اور دونوں ممالک اسی پر تعاون کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘
انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’میرے خیال میں امریکہ کے ساتھ تعاون کرنا پاکستان کے مفاد میں بھی ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو معدنیات تک رسائی دینے کے معاملے میں پاکستان کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ’ہمیں تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ معدنیات نکالتے وقت مقامی آبادیوں کو فائدہ نہیں دیا جاتا اور پاکستان میں معدنیات کے زیادہ تر ذخائر ہیں بھی بلوچستان میں جو دہائیوں سے شورش کا شکار ہے۔‘

فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وزیرِ اعظم شہباز شریف کی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ان شخصیات نے کس معاملے پر زیادہ بات کی۔
ماضی میں امریکہ اور اقوامِ متحدہ میں بطور پاکستانی سفیر خدمات انجام دینے والی ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ ’اس ملاقات سے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی اور یہ تعلقات بظاہر ایک نئے اور مثبت فیز میں داخل ہو رہے ہیں۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ ’یہ بات اب تک واضح نہیں کہ امریکہ پاکستان سے کیا چاہتا ہے کیونکہ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد پاکستان کی طرف سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ وہاں بات چیت کیا ہوئی۔‘
وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات اور دونوں ممالک کی ایک دوسرے سے توقعات جاننے کے لیے ہم نے واشنگٹن میں مقیم خارجہ امور کے ماہرین سے بات کی۔
انڈیا، پاکستان تعلقات، مشرقِ وسطیٰ اور ایران
پاکستان مئی میں مسلح تنازع کے بعد متعدد مرتبہ انڈیا کو مذاکرات کی پیشکش کر چکا ہے اور اس نے امریکہ سے ثالث کا کردار ادا کرنے کی درخواست بھی کی تھی۔
کچھ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کا اثر نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی پڑے گا۔
سابق امریکی سفارت کار ایلزبتھ تھریلکڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’نئی دہلی میں سیاسی حساسیت پاکستان اور انڈیا کے درمیان کسی بھی قسم کے امریکی کردار کے امکان کو رد کرنے کا باعث بنے گی۔‘
’لیکن جو امریکہ کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ فریقین (انڈیا اور پاکستان) کے درمیان پرائیوٹ چینلز کے ذریعے بات چیت شروع کروا سکتا ہے۔‘
امریکہ اور انڈیا کے تعلقات ابھی زیادہ اچھے نظر نہیں آتے اور امریکی صدر نے انڈیا کے روسی تیل خریدنے کی وجہ سے اس پر 50 ٹیرف عائد کر رکھا ہے۔
لیکن امریکہ میں نیولائنز انسٹٹیوٹ سے منسلک کامران بخاری کہتے ہیں کہ ’اگر میں پاکستان رہنماؤں کی جگہ ہوتا تو یہ جاننے کی کوشش کرتا کہ صدر ٹرمپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حقیقت یہ ہو کہ انڈیا اور امریکہ کے تعلقات بہتری کی طرف جانے والے ہوں۔‘
وہ کہتے ہیں پاکستان کے لیے مشرق محاذ اس وقت زیادہ اہم نہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ انڈیا سے ان کے کیسے تعلقات ہیں اور کبھی وقت پڑنے پر ’امریکہ دونوں ممالک کے درمیان درجہ حرارت کم بھی کروا سکتا ہے۔‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات اچھے ہیںان کے مطابق امریکہ کو شاید مغربی محاذ پر پاکستان کی ضرورت پڑے۔
’امریکہ کے لیے ایران ایک بڑا مسئلہ ہے اور امریکہ کے لیے یہ اچھا ہو گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر ایرانی مسئلے کا کوئی حل نکال سکے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اس کے بدلے میں پاکستان کو بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں اور دیگر علاقوں میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان سے لڑنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘
ایلزبتھ تھرلکڈ اور کامران بخاری دونوں ہی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو اندازہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے معاملات میں پاکستان کردار ادا کر سکتا ہے۔
کامران بخاری کہتے ہیں کہ ’وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور پاکستانی رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں مشرقِ وسطیٰ پر ضرور بات چیت ہوئی ہوگی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میرے لیے ماننا تھوڑا مشکل ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا معاہدہ امریکہ کو آگاہ کیے بغیر ہوا ہو۔‘
دوسری جانب سابق امریکی سفارت کار ایلزبتھ تھرلکلڈ کہتی ہیں کہ ’صدر ٹرمپ نے اس ہفتے عرب مسلم ممالک سے بات چیت کے دوران پاکستانی رہنماؤں سے بھی بات چیت کی تھی اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ واشنگٹن خطے میں پاکسستان کے دیگر ممالک سے تعلقات کی قدر کرتا ہے۔‘
’خاص طور پر پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے کے تناظر میں اگر آپ صورتحال کو دیکھیں تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان مشرقِ وسطیٰ میں ایک نمایاں کردار ادا کرے گا۔ ایک ایسا کردار جو امریکہ کے بھی کام آ سکتا ہے۔‘
’فیلڈ مارشل اپنے پیشروؤں سے مختلف ہیں‘
فیلڈ مارشل عاصم منیر کے عہدے کا مخفف بھی ’ایف ایم‘ ہے لیکن وہ وزیرِ خارجہ نہیں بلکہ پاکستانی فوج کے سربراہ ہیں۔ حالیہ برسوں میں وہ متعدد ممالک کا دورہ کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ ان دوروں پر وہ کبھی وزیرِ اعظم شہباز شریف سمیت دیگر حکومتی شخصیات کے ہمراہ نظر آئے اور کبھی تنہا۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر وہ پہلی پاکستانی شخصیت تھے جنھوں نے رواں برس جون میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی تھی۔
رواں برس مئی میں انڈیا کے ساتھ تنازع کے بعد فیلڈ مارشل عاصم منیر نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے ہمراہ خلیجی ممالک اور وسطی ایشیا کے ممالک کا دورہ کیا تھا۔ جولائی میں ایک کور کمانڈر کانفرنس کے دوران انھوں نے ان دوروں کے دوران ہونے والی ملاقاتوں کو ’کامیاب سفارت کاری‘ قرار دیا تھا۔
اس کے علاوہ وہ رواں مہینے کے اوائل میں چین میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھی وزیرِ اعظم شہباز شریف اور دیگر حکومتی شخصیات کے ساتھ نظر آئے تھے۔
پاکستان میں دہائیوں سے یہ باتیں کی جاتی رہی ہیں کہ فوج ملک کی خارجہ پالیسی میں مداخلت کرتی رہی ہے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے بطور آرمی چیف امریکہ کا پہلا دورہ دسمبر 2023 میں کیا تھالیکن حالیہ مثالوں کی روشنی میں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی حکومت نے پاکستانی فوج کے سربراہ کے خارجہ پالیسی میں کردار کو تسلیم کر لیا ہے۔
کچھ روز قبل ایک پاکستانی وزیر نے بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ ’وزیرِ اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل (عاصم منیر) کی ٹیم نے مل کر ثابت کیا کہ ہم ایک ذمہ دار ملک ہیں۔‘
پاکستانی وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا تھا کہ ’پاکستان کی سفارت کاری اس وقت عروج پر ہے۔ ہمارے امریکہ، مغربی ممالک، خلیجی ممالک اور چین سب سے بہتر تعلقات ہیں۔‘
پاکستان میں سول، ملٹری تعلقات پر نظر رکھنے والے افراد بھی خارجہ پالیسی میں فوج کے اثر و رسوخ کو تسلیم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ماضی میں امریکہ اور اقوامِ متحدہ میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے کام کرنے والی ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ ’پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سلامتی کے ارد گِرد گھومتی رہی ہے اور اسی لیے فوج کا اس میں کردار رہا تاہم اب فرق یہ ہے کہ فوج اب نہ صرف خارجہ پالیسی ترتیب دیتی ہے بلکہ اسے کنٹرول بھی کرتی ہے۔‘
ملیحہ لودھی مزید کہتی ہیں کہ ’یہ واضح ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں اور سویلین حکومت ان کی جونیئر پارٹنر ہے۔‘
’فوج کے سربراہ کا خارجہ پالیسی میں اب ہائی پروفائل اور پبلک کردار ہے جس کی عکاسی وزیرِ اعظم شہباز شریف کے ہمراہ ان کے غیر ملکی دورے بھی کرتے ہیں۔‘
ملیحہ لودھی کے علاوہ دیگر مبصرین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
امریکی میں مقیم ماہر برائے سکیورٹی امور سحر خان کے مطابق وائٹ ہاؤس میں وزیرِ اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی موجودگی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات اچھے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے دوران فیلڈ مارشل عاصم منیر کی موجودگی ان کے لیے اچنبھے کی بات نہیں تھی کیونکہ ’میرے خیال میں یہ کوئی راز نہیں کہ پاکستان میں فوج ہی تمام امور خصوصاً خارجہ پالیسی چلاتی ہے۔‘
سحر خان رواں برس جون میں پاکستانی سفارتخانے کی ایک تقریب میں فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات بھی کر چکی ہیں۔ اس دورے کے دوران ہی پاکستانی فوج کے سربراہ نے پہلی مرتبہ امریکی صدر سے ملاقات کی تھی۔
پاکستانی فوج کے سربراہ نے دسمبر 2023 میں بھی امریکہ کا دورہ کیا تھا اور سحر خان کے مطابق ’وہ اس وقت بہت خاموش تھے اور انھوں نے زیادہ بات نہیں کی تھی۔‘
'لیکن دو برسوں میں ان کے اندر تبدیلی آئی، جب وہ رواں برس جون میں آئے تو سفارتخانے کی ایک تقریب میں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ بہت پُر اعتماد تھے اور ان میں ایک توانائی نظر آ رہی تھی جو مئی میں انڈیا کے ساتھ جنگ کے سبب تھی۔ وہ اب بہت پُراعتماد ہو چکے ہیں۔‘
’وہ امریکہ سے تعلقات رکھنے کے معاملے میں بھی پیشروؤں سے مختلف اور بہت محتاط ہیں۔‘
’ٹرمپ وعدے پورے کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں‘
یہ زیادہ پُرانی بات نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کو اپنا ’اچھا دوست‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور پھر انھوں نے ہی انڈیا پر 50 فیصد ٹیرف عائد کردیا۔
امریکہ صدر یہ بھی کہتے تھے کہ روسی صدر سے ان کے اچھے تعلقات ہیں لیکن بعد میں وہ یوکرین کے معاملے پر صدر پوتن پر کڑی تنقید کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔
صدر ٹرمپ انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کو بھی اپنا دوست کہہ کر مخاطب کرتے تھےامریکی خارجہ پالیسی اور صدر ٹرمپ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو امریکی صدر کے حوالے سے احتیاط بھی برتنی ہوگی۔
امریکہ میں مقیم تجزیہ کار عزیر یونس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ٹرمپ ایسے ممالک کے ساتھ کام کرنا پسند کرتے ہیں جن کے رہنماؤں سے ان کا ذاتی تعلق ہو، جو ان کی انتظامیہ کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے وعدوں کو پورا کر سکیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب تک پاکستان ان (ٹرمپ) کے سامنے اپنی قدر برقرار رکھے گا تب تک یہ تعلق مضبوط رہے گا لیکن اگر کبھی ٹرمپ کو محسوس ہوا کہ پاکستان اپنے وعدے پورے نہیں کر رہا تو وہ پاکستان کے لیے اپنا رویہ تبدیل کرنے میں ایک بار بھی نہیں سوچیں گے۔‘
سابق سفیر ملیحہ لودھی بھی پاکستان کو احتیاط برتنے کا مشورہ دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
’ماضی میں تعلقات میں اتار چڑھاؤ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے، ان تعلقات میں ماضی میں بھی بہت بار بلندی دیکھی گئی اور بہت مرتبہ ان میں گراوٹ بھی دیکھی گئی۔‘