ہرجیت اپنا سیاسی پناہ کا کیس خارج ہونے کے بعد 13 برس سے ہر چھ ماہ بعد آئی سی ای میں حاضری لگواتی تھیں۔ ویب سائٹ کا دعویٰ ہے کہ آئی سی ای نے ہرجیت کور کو نگرانی میں رکھتے ہوئے امریکہ میں قیام کی اجازت دے دی تھی۔
ہرجیت کور کو حال ہی میں امریکہ سے انڈیا ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے’میں اپنے ذہن سے قیدیوں والا لباس نہیں نکال سکتی۔۔۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ انھیں ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔۔۔ لیکن اس کے باوجود سب نے قیدیوں والا لباس پہن رکھا تھا۔‘
یہ کہنا ہے کہ ہرجیت کور کا جنھیں امریکہ میں حراست میں لینے کے بعد انڈیا بھیج دیا گیا تھا اور اب وہ یہاں اپنے عزیز کے ہاں رہائش پذیر ہیں۔
اطلاعات کے مطابق وہ 24 ستمبر کو دلی پہنچیں، وہ تقریباً 30 برس سے امریکہ میں مقیم تھیں۔
ہرجیت کہتی ہیں کہ گذشتہ چند روز اُن کی زندگی کے مشکل ترین دن تھے اور امریکہ سے انڈیا تک کا اُن کا سفر مشکلات سے بھرپور تھا۔
بی بی سی پنجابی نےہرجیت کور کے ساتھ خصوصی گفتگو کی ہے اور اس پورےمعاملے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
ہرجیت کور کے ساتھ ہوا کیا؟
آٹھ ستمبر کو سان فرانسسکو میں معمول کے گشت کے دوران امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمر انفورسمنٹ (آئی سی ای) نے 73 سالہ ہرجیت کور کو حراست میں لے کر بیکرز فیلڈ کی میسا وردے جیل منتقل کر دیا۔
ہرجیت کور کو امریکہ واپس لانے کی کوششوں کے لیے بنائی گئی ویب سائٹ (برنگ ہرجیت ہوم) کے مطابق ہرجیت کور جنھیں شانتا اور سربجیت بھی کہا جاتا ہے تقریبا 30 برس سے ایسٹ بے، کیلی فورنیا میں رہائش پذیر تھیں۔
ہرجیت کور نے برکلے میں ایک چھوٹے سے کاروبار میں دو دہائیوں تک کام کیا۔
ہرجیت اپنا سیاسی پناہ کا کیس خارج ہونے کے بعد 13 برس سے ہر چھماہ بعد آئی سی ای میں حاضری لگواتی تھیں۔ ویب سائٹ کا دعویٰ ہے کہ آئی سی ای نے ہرجیت کور کو نگرانی میں رکھتے ہوئے امریکہ میں قیام کی اجازت دے دی تھی۔
تو پھر ہرجیت کور کو ڈی پورٹ کیوں کیا گیا؟
ملک بدری کے واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہرجیت کور کا کہنا ہے کہ ’میری عمر 73 سال ہے اور میں سان فرانسسکو کے قریب ہرکولیس میں رہ رہی تھی، مجھے کچھ نہیں بتایا گیا، میں 6 ماہ بعد پیش ہونے کے لیے سان فرانسسکو گئی، جہاں مجھے حراست میں لے لیا گیا لیکن کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’وہ مجھے سان فرانسسکو سے فریسنو، وہاں سے بیکرز فیلڈ اور پھر اوروزونا لے گئے اور اس کے بعد وہاں سے انڈیا بھیج دیا گیا۔ ‘
ہرجیت کور کہتی ہیں کہ اُنھیں کچھ نہیں بتایا گیا کہ فلائٹ کس وقت ہے اور کہاں جانا ہے۔ فلائٹ سے صرف آدھا گھنٹہ پہلے بتایا گیا کہ ’تیار ہو جائیں، آپ کی فلائٹ تیار ہے۔‘
جب اُن سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنی فیملی کو کیسے بتایا؟ تو ہرجیت کور کا کہنا تھا کہ ’جب سب کو ہتھکڑیاں لگائی جا رہی تھیں، میں نے اپنی بیٹی کو فون کیا اور بتایا کہ وہ کہیں لے جا رہے ہیں، لیکن یہ نہیں معلوم کہ وہ کہاں لے کر جا رہے ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ فلائٹ کہاں جائے گی، دلی، ممبئی یا امرتسر۔ اسی لیے میرے رشتہ دار تینوں ہوائی اڈوں پر موجود تھے۔‘
قیدیوں کے لباس سے اذیت
امریکہ کی طرف سے انڈینز کو ملک بدر کیے جانے کی خبریں حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی ہیں اور انڈین شہریوں کو ہتھکڑیاں لگا کر انڈیا بھیجنے کی رپورٹس پر شدید ردعمل بھی آتا رہا ہے۔
ہرجیت کور کہتی ہیں کہ ’میرے ہاتھپاؤں نہیں بندھے تھے لیکن میں نے جیل کے کپڑوں میں سفر کیا۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’میں جیل کے لباس کو اپنے ذہن سے نہیں نکال سکتی، سب جانتے تھے کہ انھیں ملک بدر کیا جا رہا ہے اور سب نے ایک ہی جیسا لباس پہن رکھا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’راستے میں جہاز دو جگہ رکا، ہمیں کئی گھنٹے لگ گئے۔ یہ وقت ایسے ہی جہاز میں بیٹھ کر ضائع ہوا۔ جو میرے ساتھ ہوا وہ کسی اور کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔‘
ہرجیت کور کا کہنا تھا کہ ’اُنھوں نے جو کھانے کو دیا وہ میں نہیں کھا سکتی تھی، کیونکہ میں سبزی خور ہوں۔ وہ کسی بات کا جواب نہیں دے رہے تھے۔‘
خاندان سے ملنے کی خواہش
ہرجیت کور کا کہنا ہے کہ ’میں چار دن تک نہا بھی نہیں سکی۔ میں انڈیا آ کر نہائی۔ جس کمرے میں مجھے رکھا گیا تھا وہاں سونے کی جگہ نہیں تھی۔ میں اپنی عمر اور صحت کی وجہ سے فرش پر نہیں بیٹھ سکتی تھی۔ ساری رات اسی بے چینی میں گزاری۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ میں اُن کی بہو ہیں، پوتے ہیں جن کے بغیر میں نے ایک دن بھی نہیں گزارا اور اس عمر میں خاندان سے دُور رہنا بہت مشکل ہے۔
ہرجیت کور کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے خاندان کے پاس واپس جانا چاہتی ہوں۔ اس کے لیے میرے وکیل کام کر رہے ہیں۔‘
پنجاب اور مرکزی حکومت سے اپیل کے سوال پر ہرجیت کور کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے اس بارے میں نہیں سوچا۔ اس حوالے سے میرا خاندان ہی سب کچھ کر رہا ہے۔
غیر قانونی تارک وطن کے طور پر امریکہ میں اپنے وقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ہرجیت کور نے کہا: ’میرے پاس گرین کارڈ نہیں تھا، لیکن میرے پاس تمام حقوق تھے۔ میرے پاس ورک پرمٹ اور ڈرائیونگ لائسنس تھا۔ میں نے خود گاڑی چلا کر 30 سال کام کیا اور ٹیکس دیتی رہی، اس سے زیادہ میں کیا کر سکتی تھی۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر میرے پاس گرین کارڈ ہوتا تو میں انڈیا آتی جاتی، چونکہ میرے پاس یہ نہیں تھا، اس لیے میں کبھی اس عرصے کے دوران انڈیا نہیں گئی۔‘
ہرجیت کہتی ہیں کہ ’میرے بچے مجھے بہت یاد کرتے ہیں، وہ مجھے دن رات فون کرتے ہیں۔‘
آئی سی ای نے بی بی سی کو کیا بتایا؟
آئی سی ای نے ہرجیت سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں بی بی سی کو بتایا کہ ’ہرجیت کور ایک غیر قانونی تارک وطن ہیں جنھوں نے 1991 سے لے کر 34 سال سے زیادہ عرصے تک اپنا مقدمہ لڑا۔ انھیں 20 سال قبل 2005 میں امیگریشن جج نے واپس انڈیا جانے کا حکم دیا، لیکن اُنھوں نے ایسا نہیں کیا۔‘
آئی سی ای کے مطابق ہرجیت نے نویں سرکٹ کورٹ آف اپیلز میں متعدد اپیلیں دائر کیں اور ہر بار ہارتی رہیں۔ اب جبکہ وہ امریکہ میں تمام قانونی آپشنز کھو چکی ہیں، آئی سی ای اپنے احکامات پر عمل درآمد کر رہا ہے۔
انڈین حکومت کیا کہتی ہے؟
وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے میڈیا بریفنگ میں غیر قانونی امیگریشن پر انڈین حکومت کے موقف کا دفاع کیا ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار رویندر سنگھ رابن کی جانب سے ہرجیت کور سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’جنوری 2025 سے اب تک مجموعی طور پر 2417 کو امریکہ نے ڈی پورٹ کیا ہے۔ ‘
اُن کا کہنا تھا کہ انڈیا قانونی ہجرت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور غیر قانونی راستے اختیار کرنے کے خلاف ہے۔
جیسوال کا کہنا تھا کہ امریکہ میں جو بھی غیر قانونی طور پر مقیم انڈین شہری پکڑا جاتا ہے تو اس امریکی حکام ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔
اُن کے بقول ہم مذکورہ شخص کی دستاویزات کا جائزہ لینے اور تصدیق کے بعد ہی اسے واپس آنے دیتے ہیں۔ امریکہ سے ملک بدر کیے جانے والے انڈین شہریوں کے کیسز میں بھی یہی طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔
ہرجیت کور کی گرفتاری اور ملک بدری امیگریشن اور خاص طور پر امریکہ میں مبینہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے وسیع کریک ڈاؤن کے درمیان سامنے آئی ہے۔
ہر سال لاکھوں پناہ کے متلاشی امریکی سرحدوں پر آتے ہیں اور اس وقت 37 لاکھ سے زیادہ سیاسی پناہ اور امیگریشن کے مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’تمام برے‘ افراد کو امریکہ سے نکالنا چاہتے ہیں۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کیے جانے والے اس کریک ڈاؤن میں ایسے افراد کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے جو مجرمانہ ریکارڈ نہیں رکھتے